Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تو خیال کرتا ہے کہ غار اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب نشانی تھے ؟
کیا آپ کا خیال ہے کہ اصحاب کہف ورقیم ہماری عجیب نشانیوں میں سے تھے : 9۔ اس جگہ بظاہر خطاب نبی اعظم وآخر ﷺ سے ہے لیکن مقصود وہی لوگ ہیں جنہوں نے سوال کیا تھا ، رہی یہ بات کہ وہ سوال کرنے والے کون تھے ؟ تو ہم ان آیات کے نوٹ کے بعد اس پورے واقعہ کو ذرا تفصیل سے بیان کریں گے تو یہ بات واضح ہوجائے گی ‘ تھوڑا سا توقف کریں گے چناچہ فرمایا کہ آپ کو کیا خیال ہے کہ کہف ورقیم والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب نشانی تھے ؟ یعنی جو لوگ اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بہت بڑی نشانی سمجھ رہے ہیں ان پر ظاہر ہوجانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ویسے تو کائنات انسانی کے لئے بلاشبہ عجیب ہیں لیکن اس کی قدرت کاملہ کے پیش نظر اس کے دوسرے نشانات کے مقابلہ میں یہ کوئی عجیب و غریب نشان نہیں ہے اس لئے کہ زمین و آسمان کی صناعی سورج ‘ چاند اور ستاروں کی تخلیق اور ان کا حیرت زا نظام کشش ، نظام فلکی کی یہ بےنظیر ترتیب ‘ انسان پر وحی الہی کا نزول اور بظاہر اسباب حق کی کمزوری اور باطل کی قوت کے باوجود حق کی فتح اور باطل کی شکست ایسے امور ہیں جو اس واقعہ سے کہیں بہت زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز ہیں پس جن لوگوں کو یہ واقعہ بادی النظر میں عجیب معلوم ہوتا ہے وہ اگر قدرت حق کی مسطورہ بالا کافرمائیوں پر نگاہ حقیقت سے غور کریں تو پھر ان کو بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ قدرت حق کے سامنے یہ واقعہ نہ عجیب ہے ‘ نہ حیرت انگیز البتہ عبرت زا اور بصیرت افروز ضرور ہے ۔ ” کاش کہ لوگ بھی یہ بات سمجھیں “۔
Top