Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب کہا موسیٰ نے اپنے جوان کو میں نہ ہٹوں گا جب تک نہ پہنچ جاؤں جہاں ملتے ہیں دو دریا یا چلا جاؤں قرنوں6 
6  اوپر ذکر ہوا تھا کہ مغرور کافر مفلس مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر آنحضرت ﷺ سے کہتے تھے کہ ان کو پاس نہ بٹھائیں تو ہم بیٹھیں۔ اسی پر دو شخصوں کی کہاوت سنائی، پھر دنیا کی مثال اور ابلیس کا کبرو غرور سے خراب ہونا بیان کیا۔ اب موسیٰ اور خضر کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ اللہ والے اگر سب سے افضل اور بہتر بھی ہوں تو اپنے آپ کو بہتر نہیں کہتے۔ اور کبھی بھول چوک سے کہہ گزریں تو حق تعالیٰ کی طرف سے تادیب و تنبیہ کی جاتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو نہایت موثر اور بیش بہا نصیحتیں فرما رہے تھے ایک شخص نے پوچھا۔ اے موسیٰ ! کیا روئے زمین پر آپ اپنے سے بڑا عالم کسی کو پاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہ جواب واقع میں صحیح تھا کیونکہ موسیٰ اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے زمانہ میں اسرار شرعیہ کا علم ان سے زیادہ کس کو ہوسکتا تھا۔ لیکن حق تعالیٰ کو ان کے الفاظ پسند نہ آئے، گو مراد صحیح تھی۔ تاہم عنوان جواب کے عموم سے ظاہر ہوتا تھا کہ روئے زمین پر من کل الوجوہ اپنے کو اعلم الناس خیال کرتے ہیں۔ خدا کی مرضی یہ تھی کہ جواب کو اس کے علم محیط پر محمول کرتے۔ مثلاً یہ کہتے کہ اللہ کے مقرب و مقبول بندے بہت سے ہیں، سب کی خبر اسی کو ہے۔ تب وحی آئی کہ جس جگہ دو دریا ملے ہیں اس کے پاس ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے (دو دریا سے کون سے دریا مراد ہیں ؟ بعض نے کہا کہ بحر فارس اور بحر روم لیکن یہ دونوں ملتے نہیں۔ شاید ملاپ سے مراد قرب ہوگا یعنی جہاں دونوں کا فاصلہ کم سے کم رہ جائے۔ بعض افریقہ کے دو دریا مراد لیتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک " مجمع البحرین " وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر دجلہ اور فرات خلیج فارس میں گرتے ہیں۔ (واللہ اعلم) بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے درخواست کی کہ مجھے اس کا پورا پتہ نشان بتایا جائے تاکہ میں وہاں جا کر کچھ علمی استفادہ کروں۔ حکم ہوا کہ اس کی تلاش میں نکلو تو ایک مچھلی تل کر ساتھ رکھ لو، جہاں مچھلی گم ہو وہیں سمجھنا کہ وہ بندہ موجود ہے گویا " مجمع البحرین " سے جو ایک وسیع قطعہ مراد ہوسکتا تھا اس کی پوری تعیین کے لیے یہ علامت مقرر فرمائی دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی ہدایت کے موافق اپنے خادم خاص حضرت یوشع کو ہمراہ لے کر سفر شروع کردیا۔ اور یوشع کو کہہ دیا کہ مچھلی کا خیال رکھنا۔ میں برابر سفر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ منزل مقصود پر پہنچ جاؤں۔ اگر فرض کرو برس اور قرن بھی گزر جائیں گے بدون مقصد حاصل کیے سفر سے نہ ہٹونگا۔ (تنبیہ) جوان سے مراد حضرت یوشع ہیں جو ابتداءً موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم خاص تھے، پھر ان کے روبرو پیغمبر اور ان کے بعد خلیفہ ہوئے۔
Top