Aasan Quran - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
اب یہ بیوقوف لوگ کہیں گے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ان (مسلمانوں) کو قبلے سے رخ پھیرنے پر آمادہ کردیا جس کی طرف وہ منہ کرتے چلے آرہے تھے ؟ آپ کہہ دیجیے کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کی ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت کردیتا ہے (89)
89: یہاں سے قبلے کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تفصیلی بیان شروع ہورہا ہے، واقعات کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت ﷺ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے، جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کو بیت المقدس کا رخ کرنے کا حکم دیا گیا، جس پر آپ تقریباً سترہ مہینے تک عمل کرتے رہے، اس کے بعد دوبارہ بیت اللہ شریف کو قبلہ قراردے دیا گیا، تبدیلی کا یہ حکم آگے آیت نمبر : 144 میں آرہا ہے، یہ آیت پیشینگوئی کررہی ہے کہ یہودی اور عیسائی اس تبدیلی پر بڑے اعتراضات کریں گے ؛ حالانکہ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ قبلہ کی کوئی خاص سمت مقرر کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قبلے کی سمت میں تشریف فرما ہیں، وہ تو ہر سمت اور ہر جگہ موجود ہے اور مشرق ہو یا مغرب شمال ہو یا جنوب، یہ ساری جہتیں اسی کی بنائی ہوئی ہیں ؛ البتہ چونکہ مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرتے وقت تمام مومنوں کے لئے کوئی ایک سمت مقرر کردی جائے، اس لئے یہ مقصود ہے، جو کچھ تقدس کسی قبلہ یا اس کی سمت میں آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے ؛ چنانچہ وہ اپنی حکمت کے مطابق جب چاہے جس سمت کو چاہے قبلہ قرار دے سکتا ہے، ایک مومن کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ کر اللہ کے ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کردے، آیت کے آخر میں سیدھی راہ کا جو ذکر ہے اس سے مراد اسی حقیقت کا ادراک ہے۔
Top