Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
(مومنو ! ) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہوجائیں گے (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خدا (یعنی تورات) کو سنتے پھر اس کے بعد سمجھ لینے کے اس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں ؟
قول باری ہے : افتطمعون ان یومنوا لکم و قد کان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ثم یحرفونہ من بعدما عقلوہ وھم یعلمون (اے مسلمانو ! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے حلان کہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی) یہ قول باری اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حق کا علم رکھنے کے باوجود اس سے معاندت برتنے والا شخص ایک جاہل انسان کی بہ نسبت رشد و ہدایت سے زیادہ دور ہتا ہے اور اس کے سدھر جانے کے امکانات جاہل کے مقابل ی میں کم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ قول باری ہے : افتطمعون ان یومنوا لکم ان کے رشد و ہدایت کی توقع ختم ہوجانے کی خبر دے رہا ہے۔ کیونکہ انہوں نے حق کا علم ہوجانے کے بعد اسے جھٹلانے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی کوشش کی۔
Top