Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
(اے اہل ایمان) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ (اہل کتاب) ایمان لائیں گے تمہاری بات پر۔ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتے تھے پھر اس کو بدل ڈالتے تھے۔ بعد اس کے کہ کہ انہوں نے اسے سمجھ لیا تھا۔ اور وہ جانتے بھی ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کی بہت سی برائیوں کا تذکرہ ہوچکا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہت سی نشانیاں دیکھنے کے بعد بنی اسرائیل کے دل سخت ہوگئے بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ فرمایا بعض پتھر بھی مفید ہوتے ہیں۔ مگر یہ قوم تو ان پتھروں سے بھی بدتر ہے یہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔ ان کے سب کام اس کے علم میں ہیں۔ آیات زیر درس میں بھی یہودیوں کی بعض دوسری خرابیوں کا ذکر ہے۔ مگر یہاں روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے۔ یہود کی طرف سے نا امیدی : ارشاد ہوتا ہے “ افتطمعون ان یؤمنوا لکم ” یعنی اے اہل ایمان ! کیا تم توقع کرتے ہو کہ یہود تمہارے کہنے پر ایمان لے آئیں گے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ بڑی بدبخت قوم ہے۔ یہ تمہاری بات کی ہرگز تصدیق نہیں کریں گے۔ یہ لوگ دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو یہ بات سمجھا دی کہ گمان مت کرو یہ تمہارے ساتھ شریک ہوجائیں گے۔ کیونکہ شرکت دو وجوہ کی بنا پر ہو سکتی ہے۔ یا تو کوئی شخص دوسرے کا مقتدار بن کر ساتھ چلے یا اس کا تابع ہوجائے۔ جب تک ان دو میں سے کوئی ایک چیز شامل نہ ہو ۔ مل کر چلنا محال ہوتا ہے۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ یہودیوں میں نہ مقتدا بننے کی اہلیت ہے اور نہ تابع بننے کی صلاحیت یہ لوگ مقتدا اس لیے نہیں بن سکتے کہ ان کی فکر خراب ہوچکی ہے۔ ذہنیت بگڑ چکی ہے۔ ان کا دین تبدیل ہوچکا ہے اسی طرح تابع وہ شخص ہو سکتا ہے جو صنعت مزاج اور بےلوث ہو۔ مگر یہودی ان تمام صلاحیتوں سے محروم ہیں اس لیے ان کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اے ایمان والو ! تم ان کے پیچھے نہ پڑو۔ بلکہ ان کی راہ راست پر لانے کی اگر کوئی امید تمہارے دل میں ابھی تک موجود ہے ۔ تو اسے منقطع کر دو ۔ یہ لوگ انتہائی درجے کے متعصب ، ضدی اور عنادی ہیں۔ حیلہ ساز اور فریب ودہندہ لوگ ہیں۔ دنیا کی خاطر دین کو بگاڑ دینا ان کا عام مشغلہ ہے لہٰذا ان سے کسی بھی بھلائی کی توقع نہ رکھو۔ احکام میں تحریف : فرمایا ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ “ وقد کان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ” ان میں سے بعض لوگ اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے تھے۔ “ ثم یحرفونہ من بعد ما عقلوہ ” پھر اسے سمجھنے کے باوجود بدل دیتے تھے۔ “ وھم یعلمون ” اور وہ جانتے بھی تھے کہ کیا کرتوت کر رہے ہیں۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب توراۃ میں جان بوجھ کر تحریف کرتے تھے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 35 ، مظہری ج 1 ص 86 ، تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 299) کہ یہاں پر تحریف سے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا مراد ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر کوہ طور پر گئے تھے۔ تاکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کا کلام سن لیں۔ کہ یہ کتاب واقعی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی۔ مگر ان لوگوں نے تحریف یہ کی کہ کہا بیشک یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ مگر اس کے احکام پر سختی سے عمل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ کہا ہے کہ جس قدر آسانی سے عمل ہو سکے کرلینا۔ باقی کو چھوڑ دینا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ستر آدمیوں کو بجلی کے ذریعے خاکستر کردیا تھا۔ مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے انہیں پھر زندگی عطا کی۔ مقصد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے ان لوگوں نے دیدہ دانستہ تحریف کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو بدل دیا۔ حضور بنی کریم ﷺ کے زمانے کے اہل کتاب خصوصاً یہود کی تحریف کی بھی واضح مثالیں موجود ہیں۔ آگے آئے گا کہ یہود کا وطیرہ یہ تھا۔ کہ “ یعلمون انہ الحق ” وہ جانتے تھے کہ نبی آخر الزمان کا دین سچا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو پیش گوئیاں حضور ﷺ کے متعلق توراۃ میں بیان کی ہیں۔ وہ سب کی سب آپ پر پورا اترتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود لوگوں کو صحیح بات بتانے کے لیے تیار نہ تھے۔ بلکہ توراۃ میں حضور ﷺ کے متعلق بیان کردہ نشانیوں کو چھپاتے تھے۔ اور لوگوں کو الٹی سیدھی باتیں بتا کر آپ پر ایمان لانے سے روکتے تھے۔ سورة مائدہ میں آئے گا۔ کہ ان لوگوں نے توراۃ کے احکام میں بھی تحریف کی ۔ توراۃ میں رجم کا حکم موجود تھا ۔ کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے۔ مگر یہودیوں نے یہ حکم چھپا لیا توراۃ میں حضور ﷺ کا حلیہ مبارکہ موجود تھا۔ کہ آپ خوش شکل ہوں گے۔ آپ کے بال گھنگریالے اور آنکھیں سیاہ ہوں گئ قد درمیانہ اور رنگ گندمی ہوگا۔ مگر جب حضور ﷺ دنیا میں تشریف لے آئے اور آپ نے اپنی نبوت کا اعلان فرما دیا۔ تو یہودیوں نے توراۃ میں آپ کے بیان کردہ حلیے کو بدل دیا۔ اور لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) لمبے قد والے ہوں گے آپ کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور بال سیدھے ہوں گے۔ اس طرح انہوں نے لوگوں کو آپ پر ایمان لانے سے روکنے کی کوشش کی۔ یہود کی ہٹ دھرمی : الغرض ! اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ یہود سے یہ توقع نہ رکھو۔ کہ تمہاری تبلیغ سے یہ لوگ ایمان لے آئیں گے۔ یہ تو سخت قسم کے ہٹ دھرم لوگ ہیں ۔ جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ راہ راست سے دور ہی رہیں گے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 562) کہ اس وقت یہودیوں کے دس بڑے عالم موجود ہیں۔ اگر یہ دس آدمی ایمان قبول کرلیں تو کوئی بھی یہودی باقی نہیں رہے گا۔ سب ایمان لے آئیں گے۔ مگر یہ عالم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ ان سے صرف ایک آدمی نے ایمان قبول کیا ۔ باقی سب اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ نصاریٰ کا بھی یہی حال ہے حضور ﷺ کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں۔ مگر انہوں نے آج تک انہیں تسلیم نہیں کیا۔ آپ کا ارشاد ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 490 ، مسلم ج 1 ص 87) کہ نصاریٰ اسی طرح دنیا میں موجود رہیں گے۔ حتیٰ کہ جب مسیح (علیہ السلام) قرب قیامت میں نازل ہوں تو اس وقت ان کی سرکوبی ہوگی۔ اور پھر یہ دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔ یہود کے ساتھ موافقت اور ان کی مخالفت : ابتدائے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے ساتھ موافقت کرنے کا حکم دیا۔ تاکہ انہیں ترغیب ہو اور یہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ چناچہ حدیث شریف میں اس قسم کے احکام ملتے ہیں۔ آگے دوسرے پارے میں قرآن پاک میں بھی آئے گا۔ کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم یہودیوں کی ترغیب کے لیے ہی تھا۔ خود حضور ﷺ نے سر کے بالوں کے بنانے میں اہل کتاب کا طریقہ اختیار کیا۔ اس زمانے میں مشرکین سر میں میں مانگ نکالا کرتے تھے۔ مگر یہود مانگ نہیں نکالتے تھے بلکہ ویسے ہی بالوں کو پیچھے کی طرف ڈال دیتے تھے۔ حضور ﷺ نے یہود سے موافقت کی خاطر ان کا طریقہ اپنایا۔ لہٰذا آپ مانگ نہیں نکالا کرتے تھے۔ مگر یہودی سخت متعصب تھے۔ ان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ لہٰذا بعد میں آپ نے مانگ نکالنا شروع کردیا (1 ۔ شمائل مع ترمذی ص 570) آپ نے دیکھ لیا کہ یہ لوگ کسی طرح راہ راست پر آنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس کے بعد آپ نے دوسرا طریقہ اختیار فرمایا۔ اور اکثر اعمال میں اہل کتاب کی مخالفت شروع کردی ۔ چناچہ ایسے کئی ایک مسائل ہیں جن میں اہل کتاب خصوصاً یہودیوں کی مخالفت کا حکم ہے یہود محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (2 ۔ مسلم ج 1 ص 359) کہ تم ان کی مخالفت کرو اور دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھا کرو۔ اسی طرح یہود حیض والی عورت کو گھر میں نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ علیحدہ کردیتے تھے۔ آپ نے فرمایا تم عورت کو ہر حالت میں اپنے گھر میں رکھو۔ فرمایا (3 ۔ مسلم ج 1 ص 142) حیض والی عورت گھر کے سارے کام انجام دے سکتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ مباشرت جائز نہیں۔ میاں بیوی اکٹھے لیٹ سکتے ہیں ایک برتن میں کھانا کھا سکتے ہیں تاہم مباشرت نہیں کرسکتے۔ اہل کتاب بالوں کو رنگنا ناجائز سمجھتے تھے۔ حضور ﷺ نے اس کام کی اجازت مرحمت فرمائی (4 ۔ ترمذی ص 266) ۔ یہ ان سے مخالفت کی بنا پر تھا۔ اسی طرح یہود یہ بند نہیں باندھتے تھے۔ آپ نے شلوار پہننے اور تہ بند باندھنے کا حکم دیا مقصد یہ کہ شروع شروع میں مدینہ کے یہودیوں کی خاطر ان کی موافقت میں بعض امور انجام دیے۔ مگر جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ بڑے ضدی اور ہٹ دھرم لوگ ہیں تو آپ نے ان کے بعض امور کی مخالفت کا حکم دیا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اسی بات کو بیان فرما رہے ہیں۔ کہ اے اہل ایمان ! تم اہل کتاب سے کسی موافقت کی امید نہ رکھو۔ بلکہ یہ تو سخت عنادی لوگ ہیں۔ یہ کبھی تمہاری بات ماننے پر تیار نہیں ہوں گے۔ بلکہ ان کا وطیرہ تو یہ رہا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کے بعد اس پر عمل نہ کیا۔ بلکہ اس میں تحریف شروع کردی۔ منافقین کی چالاکیاں : اہل کتاب میں سے تو ایک گروہ ایسا تھا ۔ جو علانیہ طور پر حضور ﷺ کا انکار کرتا تھا اور آپ کی مخالفت کرتا تھا۔ البتہ ایک مختصر گروہ ایسا بھی تھا جو بظاہر تو دائرہ اسلام میں داخل ہوچکا تھا۔ مگر در پردہ ان کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ تھیں۔ اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کی دو عملی کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ “ واذا القوا الذین امنوا قالوا امنا ” یعنی ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں “ واذا خلا بعضھم الی بعض ” اور جب یہ الگ ہوتے ہیں اہل ایمان کے علاوہ بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ تو “ قالوا اتحدثونہم بما فتح اللہ علیکم ” کہتے ہیں کیا تم مسلمانوں کو ایسی باتیں بتاتے ہو۔ جو اللہ تعالیٰ نے تم پر ظاہر کی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ “ لیحاجوکم بہ عند ربکم ” یہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے ہاں اس بات میں تمہارے ساتھ جھگڑا کریں گے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم مسلمانوں کو توراۃ کے احکام سے کیوں آگاہ کرتے ہو۔ جن میں لکھا ہے کہ نبی آخر الزمان کی یہ نشانیاں ہیں۔ اور یہ کہ توراۃ قرآن پاک کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسی باتیں اہل ایمان کو نہ بتاؤ ۔ یہ آخرت میں اسی سے تمہارے خلاف دلیل قائم کریں گے۔ کہتے تھے کہ یہ ایسی گہری بات ہے۔ جو ہمارے خلاف جاتی ہے۔ “ افلا تعقلون ” کیا تم نہیں سمجھتے ۔ یعنی تمہیں اس نکتہ کی کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ چیزیں ہمارے حق میں نہیں ہیں۔ اہل کتاب کی ان تمام تر چالاکیوں کے متعلق ارشاد خداوندی ہے۔ کہ ان کی ہوشیاری کسی کام نہیں آئے گی۔ “ اولا یعلمون ان اللہ یعلم ما یسرون وما یعلنون ” کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہر اس بات کو جانتا ہے۔ جو یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں وہ سمجھتے تھے۔ کہ منافقت کا یہ چکر چلا کر وہ اہل کتاب اور اہل ایمان دونوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکیں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا پردہ فاش کردیا۔ اور فرمایا کہ یہ لوگ جو بےایمانی کر رہے ہیں۔ احکام کی غلط تاویلیں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ان کی کوئی چال کامیاب نہیں ہوگی۔ یہودیوں کی موہوم آرزوئیں : فرمایا تحریف ۔۔ اور منافقت۔ تو عام لوگوں کی بیماریاں تھیں۔ یعنی یہ خصائل ان لوگوں کے تھے۔ جو تھوڑا بہت علم رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بعض لوگ ایسے بھی تھے “ ومنھم امیون لا یعلمون الکتب ” جو بالکل ان پڑھ تھے انہیں کتاب کا بالکل علم نہیں تھا۔ فرمایا ایسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے “ الا اماتی ” سوائے چند خود ساختہ آرزوؤں کے جن کا آکر آگے آئیگا یعنی یہ کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے وقف ہے یا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے۔ اور قیامت کے دن کسی یہودی کو جس نے ختنہ کی ہوگی اس میں نہیں گرنے دیں گے۔ یا اگر بنی اسرائیل دوزخ میں چلے بھی گئے تو محدود کے اتنے ایام کے لیے جتنے دن ان کے آباؤ اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ اس کے بعد پھر جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ بنی اسرائیل کے جاہل اور ان پڑھ اس قسم کی آرزوئیں لیے بیٹھے تھے بلکہ ان کا عقیدہ یہاں تک تھا کہ عربوں کا مال ہضم کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ سود کو حلال کرنے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں کرتے تھے۔ رشوت کو جائز قرار دیتے تھے “ وان ھم الا یظنون ” اور نہیں ہیں مگر وہ گمان کرتے ۔ توراۃ میں تحریف : تحریف کی الکتاب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کا حال یہ ہے کہ اس جرم کی بنا پر “ فویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم ” ہلاکت ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب یعنی توراۃ لکھتے ہیں “ ثم یقولون ھذا من عند اللہ ” پھر کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ گویا اپنی تحریر کو اللہ تعالیٰ کی تحریر کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس قدر ظالم لوگ ہیں۔ اور یہ تحریف اس لیے کرتے ہیں “ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا ” تاکہ اس کے ذریعے حقیر سا معاوضہ وصول کرلیں۔ مثلاً جب کسی زانی کو رجم کی سزا سے بچانا مقصود ہوتا تو کہہ دیتے تھے کہ تواراۃ کا حکم یہ ہے کہ ایسے شخص کا منہ کا لا کرو اور گدھے پر سوار کرکے شہر پھر ادو یا زیادہ سے زیادہ کوئی جرمانہ کر دو ۔ اس طرح زانی کی جان بچا لیتے۔ اس کے علاوہ ان کے اور بھی بیشمار من گھڑت مسائل تھے جنہیں توراۃ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ تحریف کی دونوں صورتیں ان میں پائی جاتی تھیں۔ یا تو الفاظ ہی بدل دیتے تھے ۔ جیسا کہ بیان ہوا۔ یا پھر الفاظ تو نہیں بدلتے تھے ، بلکہ ان کی تاویل غلط کرکے اپنا مقصد پورا کرلیتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی یہ قباحت بھی بیان کردی کہ وہ کتاب الٰہی میں تحریف جیسی قبیح حرکت کے مرتکب ہوتے تھے تحریف اور مسلمان : تحریف کا دائرہ مسلمانوں تک وسیع ہوچکا ہے۔ آج کے دور میں انصاف کی نظر سے دیکھیں گے تو پتا چلے گا کہ اکثریت کے عقیدے خراب ہوچکے ہیں۔ کتنے خود ساختہ اور جھوٹے عقیدے ہیں ۔ جنہیں آج کل کے نام نہاد علماء قرآن و سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ یہ تحریف فی الکتاب و سنت نہیں تو اور کیا ہے۔ آج کے واعظ قبر پرستی ، رسومات ۔۔۔۔۔ دیگر بدعات سے متعلق کتنی بناوٹی حدیثیں لوگوں کو سناتے ہیں یہ بالکل یہودیوں کا طریقہ ہے۔ جو مسلمانوں نے بھی اختیار کرلیا ہے۔ اس دور میں نیکی کا وہ معیار کہاں رہ گیا ہے۔ جو کتاب اللہ سنت رسول ﷺ یا اقوال صحابہ ؓ کا تھا۔ اصل دین کہاں چلا گیا۔ دور حاضر میں دین چند رسومات اور جھوٹے عقائد تک محدود ہو کر وہ گیا ہے۔ قرآن و سنت کی طرف کون رجوع کرتا ہے۔ نہ اسے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور نہ عمل کرنے کی ، شرک و بدعت پر دین کا دارومدار ہے۔ اس کی تبلیغ کرنے والے وہ لوگ ہیں۔ جو جھوٹے قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ یہی چیزیں نعتوں میں ہیں اور غزلوں میں ہیں اور انہیں پر عمل ہو رہا ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج چند رسوم کو دین کا نام دے دیا گیا ہے ۔ اور لوگ حقیقت سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ دین کو سمجھنے والے لوگ بالکل قلیل تعداد میں ہیں۔ آج کتنے لوگ ہیں جو مفسرین ، فقہاء اور ائمہ دین کی طرز پر ریسرچ کا بیڑا اٹھائیں۔ اور دین کو اس کا صحیح مقام دلائیں ۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1 ۔ موارد الظلمان ص 458) قرب قیامت میں فتنوں کا دور آئے گا۔ اس وقت دین کو ہاتھ میں پکڑنا اس قدر مشکل ہوجائے گا۔ جیسے جلتے ہوئے کوئلوں کو پکڑنا۔ آج آپ کسی قبیح رسم کی تردید کرکے دیکھیں ، ساری برادری اور خاندان ناراض ہوجائے گا۔ شادی بیان کی رسمیں دیکھ لیں۔ پیدائش اور فوتگی کی رسوم کی طرف نگاہ ڈالیں ، میلوں اور عرسوں کی طرف دیکھیں۔ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ قبروں پر چادریں چڑھائی جا رہی ہیں۔ میلے لگائے جا رہے ہیں۔ قوالیاں ہو رہی ہیں۔ خواجہ نظام الدین اولیاء کی قبر پر دو ہزار روپے کی چادر لے کر ایک آدمی گیا ۔ یہ کون سا دین ہےَ مسٹر جناح کی قبر پر پیش قیمت گنبد کی تعمیر کون سی شریعت ہے ؟ ہر جگہ عرسوں کی بھرمار ہے۔ قبروں کو غسل دیا جا رہا ہے۔ یہ کس شریعت کی باتیں ہیں ؟ کیا یہ یہود کا طریقہ نہیں ہے ؟ دین کی بعض چیزیں ایسی ہیں جنہیں بدلنے کے لئے لوگ علماء کو مجبور کرتے ہیں اور پھر دین فروش علماء ان کی اس خواہش کو تحریف کے ذریعے پورا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں نکاح و طلاق کے مسائل کی مثال واضح ہے ۔ جلد بازی میں طلاق دے دیتے ہیں جب اپنے کیے پر ندامت ہوتی ہے تو اس کے لئے راستہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ طلاق کے کتنے ہی ایسے معاملات ہیں جن میں لوگ غلط فتوےٰ حاصل کرلیتے ہیں۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ طلاق جیسی اہم اور ۔۔ چیز کو عائد کرنے سے پہلے اس پر اچھی طرح غور کیا جاتا ، کسی سائب الرائے عالم سے مشورہ کیا جاتا طلاق دینے اور پھر اس کے اثرات کے متعلق پوچھا جاتا۔ مگر ہمارے معاشرے کا اصول یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اس کے ازالے کے لیے فتوی حاصل کرنے آتے ہیں کہ جی غلطی ہوگئی ہے ۔ لڑکے نے غصے میں آکر طلاق دے دی ہے۔ اب اس کا کوئی حل بتائیں۔ ہم چوبیس سال سے یہی کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ اتنے عرصے میں صرف ایک آدمی نے طالق دینے سے پہلے مشورہ کیا ہے۔ کہ میرا بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے پوری کوشش کے باوجود نباہ کی صورت نظر نہیں آتی۔ آپ ہمیں طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتائیں۔ ورنہ باقی سب طلاق دینے کے بعد ہی آئے ہیں۔ کہ اب کسی طرح حلال کر دو ۔ یہ دین میں تحریف نہیں اور کیا ہے۔ تحریف کرنے والوں کو وعید : اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تحریف کرنے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا “ فویل لھم مما کتبت ایدیھم ” پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا یعنی خود لکھ کر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا اور تحریف کے مرتکب ہوئے “ وویل لھم مما یکسبون ” اور ہلاکت ہے ان کے لیے جو انہوں نے کمایا ہے۔ یعنی غلط فتوے دیکر اور تحریف کرکے جو دنیا انہوں نے کمائی وہ ان کے لیے باعث ہلاکت ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر حلال کی بجائے حرام کمایا ہے۔ اور حرام کھایا ہے تو اس کی قسمت میں تباہی ہی آئے گی۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا “ ان کثیر من الاجار والرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ” یعنی کہتے ہیں پیر اور عالم ہیں جو لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھا جاتے ہیں۔ یہ باطل طریقے ہی ہیں جو شرکیہ اور بدعتیہ رسوم کو اپنا کر اختیار کیے جاتے ہیں۔ جھوٹی کہانیاں سنا کر اور باطل عقیدے پھیلا کر لوگوں کا مال ہضم کیا جاتا ہے۔ اور ان کے ایمان ضائع کئے جاتے ہیں تو فرمایا اس قسم کی کمائی پر بھی لعنت ، تباہی اور بربادی ہے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کے باطل عقائد کی تفصیل آرہی ہے۔ اور قانون نجات کا دوبارہ تذکرہ ہوگا۔ جیسا کہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔
Top