Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ
: کیا پھر تم توقع رکھتے ہو
اَنْ
: کہ
يُؤْمِنُوْا
: مان لیں گے
لَكُمْ
: تمہاری لئے
وَقَدْ کَانَ
: اور تھا
فَرِیْقٌ
: ایک فریق
مِنْهُمْ
: ان سے
يَسْمَعُوْنَ
: وہ سنتے تھے
کَلَامَ اللہِ
: اللہ کا کلام
ثُمَّ
: پھر
يُحَرِّفُوْنَهُ
: وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو
مِنْ بَعْدِ
: بعد
مَا
: جو
عَقَلُوْهُ
: انہوں نے سمجھ لیا
وَهُمْ
: اور وہ
يَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہیں
(اے اہل ایمان) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ (اہل کتاب) ایمان لائیں گے تمہاری بات پر۔ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتے تھے پھر اس کو بدل ڈالتے تھے۔ بعد اس کے کہ کہ انہوں نے اسے سمجھ لیا تھا۔ اور وہ جانتے بھی ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کی بہت سی برائیوں کا تذکرہ ہوچکا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہت سی نشانیاں دیکھنے کے بعد بنی اسرائیل کے دل سخت ہوگئے بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ فرمایا بعض پتھر بھی مفید ہوتے ہیں۔ مگر یہ قوم تو ان پتھروں سے بھی بدتر ہے یہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔ ان کے سب کام اس کے علم میں ہیں۔ آیات زیر درس میں بھی یہودیوں کی بعض دوسری خرابیوں کا ذکر ہے۔ مگر یہاں روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے۔ یہود کی طرف سے نا امیدی : ارشاد ہوتا ہے “ افتطمعون ان یؤمنوا لکم ” یعنی اے اہل ایمان ! کیا تم توقع کرتے ہو کہ یہود تمہارے کہنے پر ایمان لے آئیں گے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ بڑی بدبخت قوم ہے۔ یہ تمہاری بات کی ہرگز تصدیق نہیں کریں گے۔ یہ لوگ دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو یہ بات سمجھا دی کہ گمان مت کرو یہ تمہارے ساتھ شریک ہوجائیں گے۔ کیونکہ شرکت دو وجوہ کی بنا پر ہو سکتی ہے۔ یا تو کوئی شخص دوسرے کا مقتدار بن کر ساتھ چلے یا اس کا تابع ہوجائے۔ جب تک ان دو میں سے کوئی ایک چیز شامل نہ ہو ۔ مل کر چلنا محال ہوتا ہے۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ یہودیوں میں نہ مقتدا بننے کی اہلیت ہے اور نہ تابع بننے کی صلاحیت یہ لوگ مقتدا اس لیے نہیں بن سکتے کہ ان کی فکر خراب ہوچکی ہے۔ ذہنیت بگڑ چکی ہے۔ ان کا دین تبدیل ہوچکا ہے اسی طرح تابع وہ شخص ہو سکتا ہے جو صنعت مزاج اور بےلوث ہو۔ مگر یہودی ان تمام صلاحیتوں سے محروم ہیں اس لیے ان کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اے ایمان والو ! تم ان کے پیچھے نہ پڑو۔ بلکہ ان کی راہ راست پر لانے کی اگر کوئی امید تمہارے دل میں ابھی تک موجود ہے ۔ تو اسے منقطع کر دو ۔ یہ لوگ انتہائی درجے کے متعصب ، ضدی اور عنادی ہیں۔ حیلہ ساز اور فریب ودہندہ لوگ ہیں۔ دنیا کی خاطر دین کو بگاڑ دینا ان کا عام مشغلہ ہے لہٰذا ان سے کسی بھی بھلائی کی توقع نہ رکھو۔ احکام میں تحریف : فرمایا ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ “ وقد کان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ” ان میں سے بعض لوگ اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے تھے۔ “ ثم یحرفونہ من بعد ما عقلوہ ” پھر اسے سمجھنے کے باوجود بدل دیتے تھے۔ “ وھم یعلمون ” اور وہ جانتے بھی تھے کہ کیا کرتوت کر رہے ہیں۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب توراۃ میں جان بوجھ کر تحریف کرتے تھے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 35 ، مظہری ج 1 ص 86 ، تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 299) کہ یہاں پر تحریف سے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا مراد ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر کوہ طور پر گئے تھے۔ تاکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کا کلام سن لیں۔ کہ یہ کتاب واقعی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی۔ مگر ان لوگوں نے تحریف یہ کی کہ کہا بیشک یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ مگر اس کے احکام پر سختی سے عمل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ کہا ہے کہ جس قدر آسانی سے عمل ہو سکے کرلینا۔ باقی کو چھوڑ دینا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ستر آدمیوں کو بجلی کے ذریعے خاکستر کردیا تھا۔ مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے انہیں پھر زندگی عطا کی۔ مقصد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے ان لوگوں نے دیدہ دانستہ تحریف کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو بدل دیا۔ حضور بنی کریم ﷺ کے زمانے کے اہل کتاب خصوصاً یہود کی تحریف کی بھی واضح مثالیں موجود ہیں۔ آگے آئے گا کہ یہود کا وطیرہ یہ تھا۔ کہ “ یعلمون انہ الحق ” وہ جانتے تھے کہ نبی آخر الزمان کا دین سچا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو پیش گوئیاں حضور ﷺ کے متعلق توراۃ میں بیان کی ہیں۔ وہ سب کی سب آپ پر پورا اترتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود لوگوں کو صحیح بات بتانے کے لیے تیار نہ تھے۔ بلکہ توراۃ میں حضور ﷺ کے متعلق بیان کردہ نشانیوں کو چھپاتے تھے۔ اور لوگوں کو الٹی سیدھی باتیں بتا کر آپ پر ایمان لانے سے روکتے تھے۔ سورة مائدہ میں آئے گا۔ کہ ان لوگوں نے توراۃ کے احکام میں بھی تحریف کی ۔ توراۃ میں رجم کا حکم موجود تھا ۔ کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے۔ مگر یہودیوں نے یہ حکم چھپا لیا توراۃ میں حضور ﷺ کا حلیہ مبارکہ موجود تھا۔ کہ آپ خوش شکل ہوں گے۔ آپ کے بال گھنگریالے اور آنکھیں سیاہ ہوں گئ قد درمیانہ اور رنگ گندمی ہوگا۔ مگر جب حضور ﷺ دنیا میں تشریف لے آئے اور آپ نے اپنی نبوت کا اعلان فرما دیا۔ تو یہودیوں نے توراۃ میں آپ کے بیان کردہ حلیے کو بدل دیا۔ اور لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) لمبے قد والے ہوں گے آپ کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور بال سیدھے ہوں گے۔ اس طرح انہوں نے لوگوں کو آپ پر ایمان لانے سے روکنے کی کوشش کی۔ یہود کی ہٹ دھرمی : الغرض ! اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ یہود سے یہ توقع نہ رکھو۔ کہ تمہاری تبلیغ سے یہ لوگ ایمان لے آئیں گے۔ یہ تو سخت قسم کے ہٹ دھرم لوگ ہیں ۔ جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ راہ راست سے دور ہی رہیں گے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 562) کہ اس وقت یہودیوں کے دس بڑے عالم موجود ہیں۔ اگر یہ دس آدمی ایمان قبول کرلیں تو کوئی بھی یہودی باقی نہیں رہے گا۔ سب ایمان لے آئیں گے۔ مگر یہ عالم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ ان سے صرف ایک آدمی نے ایمان قبول کیا ۔ باقی سب اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ نصاریٰ کا بھی یہی حال ہے حضور ﷺ کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں۔ مگر انہوں نے آج تک انہیں تسلیم نہیں کیا۔ آپ کا ارشاد ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 490 ، مسلم ج 1 ص 87) کہ نصاریٰ اسی طرح دنیا میں موجود رہیں گے۔ حتیٰ کہ جب مسیح (علیہ السلام) قرب قیامت میں نازل ہوں تو اس وقت ان کی سرکوبی ہوگی۔ اور پھر یہ دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔ یہود کے ساتھ موافقت اور ان کی مخالفت : ابتدائے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے ساتھ موافقت کرنے کا حکم دیا۔ تاکہ انہیں ترغیب ہو اور یہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ چناچہ حدیث شریف میں اس قسم کے احکام ملتے ہیں۔ آگے دوسرے پارے میں قرآن پاک میں بھی آئے گا۔ کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم یہودیوں کی ترغیب کے لیے ہی تھا۔ خود حضور ﷺ نے سر کے بالوں کے بنانے میں اہل کتاب کا طریقہ اختیار کیا۔ اس زمانے میں مشرکین سر میں میں مانگ نکالا کرتے تھے۔ مگر یہود مانگ نہیں نکالتے تھے بلکہ ویسے ہی بالوں کو پیچھے کی طرف ڈال دیتے تھے۔ حضور ﷺ نے یہود سے موافقت کی خاطر ان کا طریقہ اپنایا۔ لہٰذا آپ مانگ نہیں نکالا کرتے تھے۔ مگر یہودی سخت متعصب تھے۔ ان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ لہٰذا بعد میں آپ نے مانگ نکالنا شروع کردیا (1 ۔ شمائل مع ترمذی ص 570) آپ نے دیکھ لیا کہ یہ لوگ کسی طرح راہ راست پر آنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس کے بعد آپ نے دوسرا طریقہ اختیار فرمایا۔ اور اکثر اعمال میں اہل کتاب کی مخالفت شروع کردی ۔ چناچہ ایسے کئی ایک مسائل ہیں جن میں اہل کتاب خصوصاً یہودیوں کی مخالفت کا حکم ہے یہود محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (2 ۔ مسلم ج 1 ص 359) کہ تم ان کی مخالفت کرو اور دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھا کرو۔ اسی طرح یہود حیض والی عورت کو گھر میں نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ علیحدہ کردیتے تھے۔ آپ نے فرمایا تم عورت کو ہر حالت میں اپنے گھر میں رکھو۔ فرمایا (3 ۔ مسلم ج 1 ص 142) حیض والی عورت گھر کے سارے کام انجام دے سکتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ مباشرت جائز نہیں۔ میاں بیوی اکٹھے لیٹ سکتے ہیں ایک برتن میں کھانا کھا سکتے ہیں تاہم مباشرت نہیں کرسکتے۔ اہل کتاب بالوں کو رنگنا ناجائز سمجھتے تھے۔ حضور ﷺ نے اس کام کی اجازت مرحمت فرمائی (4 ۔ ترمذی ص 266) ۔ یہ ان سے مخالفت کی بنا پر تھا۔ اسی طرح یہود یہ بند نہیں باندھتے تھے۔ آپ نے شلوار پہننے اور تہ بند باندھنے کا حکم دیا مقصد یہ کہ شروع شروع میں مدینہ کے یہودیوں کی خاطر ان کی موافقت میں بعض امور انجام دیے۔ مگر جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ بڑے ضدی اور ہٹ دھرم لوگ ہیں تو آپ نے ان کے بعض امور کی مخالفت کا حکم دیا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اسی بات کو بیان فرما رہے ہیں۔ کہ اے اہل ایمان ! تم اہل کتاب سے کسی موافقت کی امید نہ رکھو۔ بلکہ یہ تو سخت عنادی لوگ ہیں۔ یہ کبھی تمہاری بات ماننے پر تیار نہیں ہوں گے۔ بلکہ ان کا وطیرہ تو یہ رہا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کے بعد اس پر عمل نہ کیا۔ بلکہ اس میں تحریف شروع کردی۔ منافقین کی چالاکیاں : اہل کتاب میں سے تو ایک گروہ ایسا تھا ۔ جو علانیہ طور پر حضور ﷺ کا انکار کرتا تھا اور آپ کی مخالفت کرتا تھا۔ البتہ ایک مختصر گروہ ایسا بھی تھا جو بظاہر تو دائرہ اسلام میں داخل ہوچکا تھا۔ مگر در پردہ ان کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ تھیں۔ اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کی دو عملی کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ “ واذا القوا الذین امنوا قالوا امنا ” یعنی ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں “ واذا خلا بعضھم الی بعض ” اور جب یہ الگ ہوتے ہیں اہل ایمان کے علاوہ بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ تو “ قالوا اتحدثونہم بما فتح اللہ علیکم ” کہتے ہیں کیا تم مسلمانوں کو ایسی باتیں بتاتے ہو۔ جو اللہ تعالیٰ نے تم پر ظاہر کی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ “ لیحاجوکم بہ عند ربکم ” یہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے ہاں اس بات میں تمہارے ساتھ جھگڑا کریں گے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم مسلمانوں کو توراۃ کے احکام سے کیوں آگاہ کرتے ہو۔ جن میں لکھا ہے کہ نبی آخر الزمان کی یہ نشانیاں ہیں۔ اور یہ کہ توراۃ قرآن پاک کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسی باتیں اہل ایمان کو نہ بتاؤ ۔ یہ آخرت میں اسی سے تمہارے خلاف دلیل قائم کریں گے۔ کہتے تھے کہ یہ ایسی گہری بات ہے۔ جو ہمارے خلاف جاتی ہے۔ “ افلا تعقلون ” کیا تم نہیں سمجھتے ۔ یعنی تمہیں اس نکتہ کی کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ چیزیں ہمارے حق میں نہیں ہیں۔ اہل کتاب کی ان تمام تر چالاکیوں کے متعلق ارشاد خداوندی ہے۔ کہ ان کی ہوشیاری کسی کام نہیں آئے گی۔ “ اولا یعلمون ان اللہ یعلم ما یسرون وما یعلنون ” کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہر اس بات کو جانتا ہے۔ جو یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں وہ سمجھتے تھے۔ کہ منافقت کا یہ چکر چلا کر وہ اہل کتاب اور اہل ایمان دونوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکیں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا پردہ فاش کردیا۔ اور فرمایا کہ یہ لوگ جو بےایمانی کر رہے ہیں۔ احکام کی غلط تاویلیں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ان کی کوئی چال کامیاب نہیں ہوگی۔ یہودیوں کی موہوم آرزوئیں : فرمایا تحریف ۔۔ اور منافقت۔ تو عام لوگوں کی بیماریاں تھیں۔ یعنی یہ خصائل ان لوگوں کے تھے۔ جو تھوڑا بہت علم رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بعض لوگ ایسے بھی تھے “ ومنھم امیون لا یعلمون الکتب ” جو بالکل ان پڑھ تھے انہیں کتاب کا بالکل علم نہیں تھا۔ فرمایا ایسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے “ الا اماتی ” سوائے چند خود ساختہ آرزوؤں کے جن کا آکر آگے آئیگا یعنی یہ کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے وقف ہے یا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے۔ اور قیامت کے دن کسی یہودی کو جس نے ختنہ کی ہوگی اس میں نہیں گرنے دیں گے۔ یا اگر بنی اسرائیل دوزخ میں چلے بھی گئے تو محدود کے اتنے ایام کے لیے جتنے دن ان کے آباؤ اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ اس کے بعد پھر جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ بنی اسرائیل کے جاہل اور ان پڑھ اس قسم کی آرزوئیں لیے بیٹھے تھے بلکہ ان کا عقیدہ یہاں تک تھا کہ عربوں کا مال ہضم کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ سود کو حلال کرنے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں کرتے تھے۔ رشوت کو جائز قرار دیتے تھے “ وان ھم الا یظنون ” اور نہیں ہیں مگر وہ گمان کرتے ۔ توراۃ میں تحریف : تحریف کی الکتاب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کا حال یہ ہے کہ اس جرم کی بنا پر “ فویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم ” ہلاکت ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب یعنی توراۃ لکھتے ہیں “ ثم یقولون ھذا من عند اللہ ” پھر کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ گویا اپنی تحریر کو اللہ تعالیٰ کی تحریر کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس قدر ظالم لوگ ہیں۔ اور یہ تحریف اس لیے کرتے ہیں “ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا ” تاکہ اس کے ذریعے حقیر سا معاوضہ وصول کرلیں۔ مثلاً جب کسی زانی کو رجم کی سزا سے بچانا مقصود ہوتا تو کہہ دیتے تھے کہ تواراۃ کا حکم یہ ہے کہ ایسے شخص کا منہ کا لا کرو اور گدھے پر سوار کرکے شہر پھر ادو یا زیادہ سے زیادہ کوئی جرمانہ کر دو ۔ اس طرح زانی کی جان بچا لیتے۔ اس کے علاوہ ان کے اور بھی بیشمار من گھڑت مسائل تھے جنہیں توراۃ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ تحریف کی دونوں صورتیں ان میں پائی جاتی تھیں۔ یا تو الفاظ ہی بدل دیتے تھے ۔ جیسا کہ بیان ہوا۔ یا پھر الفاظ تو نہیں بدلتے تھے ، بلکہ ان کی تاویل غلط کرکے اپنا مقصد پورا کرلیتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی یہ قباحت بھی بیان کردی کہ وہ کتاب الٰہی میں تحریف جیسی قبیح حرکت کے مرتکب ہوتے تھے تحریف اور مسلمان : تحریف کا دائرہ مسلمانوں تک وسیع ہوچکا ہے۔ آج کے دور میں انصاف کی نظر سے دیکھیں گے تو پتا چلے گا کہ اکثریت کے عقیدے خراب ہوچکے ہیں۔ کتنے خود ساختہ اور جھوٹے عقیدے ہیں ۔ جنہیں آج کل کے نام نہاد علماء قرآن و سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ یہ تحریف فی الکتاب و سنت نہیں تو اور کیا ہے۔ آج کے واعظ قبر پرستی ، رسومات ۔۔۔۔۔ دیگر بدعات سے متعلق کتنی بناوٹی حدیثیں لوگوں کو سناتے ہیں یہ بالکل یہودیوں کا طریقہ ہے۔ جو مسلمانوں نے بھی اختیار کرلیا ہے۔ اس دور میں نیکی کا وہ معیار کہاں رہ گیا ہے۔ جو کتاب اللہ سنت رسول ﷺ یا اقوال صحابہ ؓ کا تھا۔ اصل دین کہاں چلا گیا۔ دور حاضر میں دین چند رسومات اور جھوٹے عقائد تک محدود ہو کر وہ گیا ہے۔ قرآن و سنت کی طرف کون رجوع کرتا ہے۔ نہ اسے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور نہ عمل کرنے کی ، شرک و بدعت پر دین کا دارومدار ہے۔ اس کی تبلیغ کرنے والے وہ لوگ ہیں۔ جو جھوٹے قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ یہی چیزیں نعتوں میں ہیں اور غزلوں میں ہیں اور انہیں پر عمل ہو رہا ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج چند رسوم کو دین کا نام دے دیا گیا ہے ۔ اور لوگ حقیقت سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ دین کو سمجھنے والے لوگ بالکل قلیل تعداد میں ہیں۔ آج کتنے لوگ ہیں جو مفسرین ، فقہاء اور ائمہ دین کی طرز پر ریسرچ کا بیڑا اٹھائیں۔ اور دین کو اس کا صحیح مقام دلائیں ۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1 ۔ موارد الظلمان ص 458) قرب قیامت میں فتنوں کا دور آئے گا۔ اس وقت دین کو ہاتھ میں پکڑنا اس قدر مشکل ہوجائے گا۔ جیسے جلتے ہوئے کوئلوں کو پکڑنا۔ آج آپ کسی قبیح رسم کی تردید کرکے دیکھیں ، ساری برادری اور خاندان ناراض ہوجائے گا۔ شادی بیان کی رسمیں دیکھ لیں۔ پیدائش اور فوتگی کی رسوم کی طرف نگاہ ڈالیں ، میلوں اور عرسوں کی طرف دیکھیں۔ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ قبروں پر چادریں چڑھائی جا رہی ہیں۔ میلے لگائے جا رہے ہیں۔ قوالیاں ہو رہی ہیں۔ خواجہ نظام الدین اولیاء کی قبر پر دو ہزار روپے کی چادر لے کر ایک آدمی گیا ۔ یہ کون سا دین ہےَ مسٹر جناح کی قبر پر پیش قیمت گنبد کی تعمیر کون سی شریعت ہے ؟ ہر جگہ عرسوں کی بھرمار ہے۔ قبروں کو غسل دیا جا رہا ہے۔ یہ کس شریعت کی باتیں ہیں ؟ کیا یہ یہود کا طریقہ نہیں ہے ؟ دین کی بعض چیزیں ایسی ہیں جنہیں بدلنے کے لئے لوگ علماء کو مجبور کرتے ہیں اور پھر دین فروش علماء ان کی اس خواہش کو تحریف کے ذریعے پورا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں نکاح و طلاق کے مسائل کی مثال واضح ہے ۔ جلد بازی میں طلاق دے دیتے ہیں جب اپنے کیے پر ندامت ہوتی ہے تو اس کے لئے راستہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ طلاق کے کتنے ہی ایسے معاملات ہیں جن میں لوگ غلط فتوےٰ حاصل کرلیتے ہیں۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ طلاق جیسی اہم اور ۔۔ چیز کو عائد کرنے سے پہلے اس پر اچھی طرح غور کیا جاتا ، کسی سائب الرائے عالم سے مشورہ کیا جاتا طلاق دینے اور پھر اس کے اثرات کے متعلق پوچھا جاتا۔ مگر ہمارے معاشرے کا اصول یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اس کے ازالے کے لیے فتوی حاصل کرنے آتے ہیں کہ جی غلطی ہوگئی ہے ۔ لڑکے نے غصے میں آکر طلاق دے دی ہے۔ اب اس کا کوئی حل بتائیں۔ ہم چوبیس سال سے یہی کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ اتنے عرصے میں صرف ایک آدمی نے طالق دینے سے پہلے مشورہ کیا ہے۔ کہ میرا بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے پوری کوشش کے باوجود نباہ کی صورت نظر نہیں آتی۔ آپ ہمیں طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتائیں۔ ورنہ باقی سب طلاق دینے کے بعد ہی آئے ہیں۔ کہ اب کسی طرح حلال کر دو ۔ یہ دین میں تحریف نہیں اور کیا ہے۔ تحریف کرنے والوں کو وعید : اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تحریف کرنے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا “ فویل لھم مما کتبت ایدیھم ” پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا یعنی خود لکھ کر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا اور تحریف کے مرتکب ہوئے “ وویل لھم مما یکسبون ” اور ہلاکت ہے ان کے لیے جو انہوں نے کمایا ہے۔ یعنی غلط فتوے دیکر اور تحریف کرکے جو دنیا انہوں نے کمائی وہ ان کے لیے باعث ہلاکت ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر حلال کی بجائے حرام کمایا ہے۔ اور حرام کھایا ہے تو اس کی قسمت میں تباہی ہی آئے گی۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا “ ان کثیر من الاجار والرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ” یعنی کہتے ہیں پیر اور عالم ہیں جو لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھا جاتے ہیں۔ یہ باطل طریقے ہی ہیں جو شرکیہ اور بدعتیہ رسوم کو اپنا کر اختیار کیے جاتے ہیں۔ جھوٹی کہانیاں سنا کر اور باطل عقیدے پھیلا کر لوگوں کا مال ہضم کیا جاتا ہے۔ اور ان کے ایمان ضائع کئے جاتے ہیں تو فرمایا اس قسم کی کمائی پر بھی لعنت ، تباہی اور بربادی ہے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کے باطل عقائد کی تفصیل آرہی ہے۔ اور قانون نجات کا دوبارہ تذکرہ ہوگا۔ جیسا کہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔
Top