Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
(اے محمد ﷺ یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا متکفل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی انکے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑے رہے تھے
حلال کاموں میں قرعہ اندازی جائز ہے قول باری ہے (وماکنت لدیھم اذیلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم) تم اس وقت وہاں موجودنہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو، اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرناق نے، انہیں معمرنے قتادہ سے قول باری (اذیلقون اقلامھم) کی تفسیر میں یہ بیان کیا کہ ہیکل کے مجادروں نے حضرت مریم کی کفالت کے سلسلے میں آپس میں قرعہ اندازی کی۔ حضرت زکریا کے نام قرعہ نکلا۔ ایک قول ہے کہ قلموں سے یہاں وہ تیرمراد ہیں جن کے ذریعے قرعہ اندازی کی جاتی تھی۔ مجاوروں نے اپنے اپنے قلم پانی کی ایک گذرگاہ میں ڈال دیئے تھے۔ تمام مجاوروں کے قلم پانی کے بہاؤ کے رخ نیچے کی طرف بہتے چلے گئے لین حضرت زکریا کا قلم پانی کے چڑھاؤ کے رخ بہتا رہا۔ یہ حضرت زکریا کا معجزہ تھا۔ اس طرح قرعہ آپ کے نام نکل آیا۔ ربیع بن انس سے اسی قسم کی روایت ہے، اس تاویل کی رو سے مجاوروں کے باہمی قرعہ اندازی کی وجہ یہ تھی کہ ہر ایک حضرت مریم کی کفالت کا خواہشمند تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک میں قحط اور خوراک کی سنگیں صورت حال کے تحت مجاوروں نے قرعہ اندازی کے ذریعے حضرت مریم کی کفالت کی ذمہ داری سے بچنا چاہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت زکریاعلیہ السلام کو بہترین کفالت کی ذمہ داری مل گئی۔ لیکن پہلی تاویل زیادہ صحیح ہے۔ اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی کہ اس نے زکریا کو کفیل بنادیا اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریاکوان کی کفالت کی بڑی آرزو تھی۔ بعض لوگ اس واقعہ سے درج ذیل مسئلے میں قرعہ اندازی کے جوازپراستدلال کرتے ہیں۔ مسئلے کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مرض الموت میں اپنے غلام آزاد کردیتا ہے اور پھر مرجاتا ہے۔ ان غلاموں کے سواوہ اپنے پیچھے اور کوئی مال نہیں چھوڑتا۔ ایسی صورت میں غلاموں میں قرعہ اندازی جائز ہے اور جس غلام کے نام قرعہ نکلے گا اسے پھر سے غلام بنالیا جائے گا۔ کیونکہ مرنے والا صرف اپنے تہائی مال سے ان غلاموں کو آزادی دے سکتا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے یعنی غلاموں کی آزادی میں اس واقعہ سے استدلال کی کوء گنجائش نہیں ہے۔ اس لیئے کہ کفالت کے مسئلے میں اگر قرعہ اندازی کے بغیران مجاوروں میں سے کسی ایک کے کفیل بننے پر سب کا اتفاق ہوجاتا ہے تو اس کا کفیل بننا جائز اور درست ہوتالیکن غلاموں کے مسئلے میں انہیں آزادی ملنے کے بعد کسی ایک کی دوبارہ غلامی پر باہمی رضامندی اور اتفاق جائز نہیں ہے۔ مرنے والے نے اپنے تمام غلاموں کو آزادی دے دی تھی۔ اس لیئے قرعہ اندازی کے ذریعے اس عتق کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہوگا۔ جس طرح کہ کسی ایک سے آزادی کی منتقلی پر باہمی رضامندی اور اتفاق جائز نہیں ہے۔ قلموں کو بہتے ہوئے پانی میں ڈال دینا تقسیم میں قرعہ اندازی اور حاکم کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے مشابہ ہے۔ اس کی نظیروہ روایت ہے جو حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ سب سفرکا ارادہ فرماتے تو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ اور یہ اس لیے کہ قرعہ جس کے نام نکلا، قرعہ اندازی کے بغیر بھی اس پر اتفاق اور باہمی رضامندی جائز تھی یہی صورت حضرت مریم کی کفالت کے مسئلے کی تھی۔ لیکن غلاموں کی آزادی کے مسئلے کا جہاں تک تعلق ہے اس میں اس بات پر باہمی رضامندی جائز نہیں ہے کہ جس غلام کو آزادی مل گئی ہے اس سے اس آزادی کو کسی اور کی طرف منتقل کردیاجائے۔
Top