Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
یہ (واقعات) غیب کی خبروں میں سے ہیں ہم آپ کے اوپر ان کی وحی کررہے ہیں،114 ۔ اور آپ تو ان لوگوں کے پاس تھے نہیں، اس وقت جب وہ اپنے اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم (علیہ السلام) کی سرپرستی کرے اور نہ آپ ان کے پاس اس وقت تھے جب وہ باہم اختلاف کررہے تھے،115 ۔
114 ۔ (اے پیغمبر ! ) یعنی یہ واقعات وہ ہیں جو آپ سے کئی سو سال قبل ایک دوسرے ملک میں پیش آئے تھے اور اب دنیا سے ان کی صحیح تاریخ مٹ چکی ہے اور ان کے علم واقعی کا کوئی ذریعہ بھی اب بجز وحی الہی کے باقی نہیں۔ آپ کو بالکل ٹھیک ٹھیک وحی کے ذریعہ سے القاء کئے جارہے ہیں اور یہ بجائے خود ایک دلیل آپ کی صداقت کی ہے۔ 115 ۔ (شام کے دریائے یردن میں تفاؤل کے لئے) (آیت) ” اذیلقون “۔ اس فعل کے فاعل کون تھے ؟ یروشلم کے ہیکل مقدس کے خدام اور کاہن (بہ اصطلاح یہود) (آیت) ” اقلامھم “۔ ہیکل سلیمانی کی خدمت ونگہداشت کے لیے خادموں کی ایک بڑی جماعت رہا کرتی تھی جیسے کہ بڑی مسجدوں کی خدمت کے لئے جاروب کشوں، فراشوں دربانوں مؤذنوں وغیرہ کا پورا عملہ رہتا ہے، حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد حضرت عمران اپنے زمانہ میں ان خادمان حرم کے سردار تھے۔ ان کی وفات پر سوال یہ پیدا ہوا کہ اب مریم (علیہ السلام) کا سرپرست کون ہو، رشتہ ان خادموں میں سب سے قریب حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تھا کہ آپ مریم (علیہ السلام) کے خالو تھے۔ طے یہ پایا کہ سوال کا حل فال کے ذریعہ سے کیا جائے فال اشارۂ غیبی کی قائم مقام تھی، فال کا طریقہ یہ رائج تھا کہ نے کے قلم جو توریت لکھنے کے ہوتے تھے، ان پر توریت شریف ہی کے کچھ کلمات لکھ کر انہیں دریائے یردن میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اور قلم عموما دریا ہی کے رخ بہنے لگتے لیکن بعض قلم مخالف رخ کو بہتے اور یہی مخالف بہاؤ کامیابی کی علامت سمجھی جاتی جیب ایسے ہی قلم کے مالک کی سمجھی جاتی، گویا غیب سے ڈگری اس کے حق میں ہوگئی۔ یہی صورت یہاں ہوئی اور قرعہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام نکلا۔ (آیت) ” وما کنت لدیھم “۔ خطاب رسول اللہ ﷺ سے ہے۔ یعنی جب یہ مریم (علیہ السلام) کی کفالت وسرپرستی کا قضیہ طے ہورہا تھا تو آپ خود تو وہاں موجود نہ تھے اور نہ کوئی معتبر وچشم دید شہادت ہی آپ تک پہنچی، پھر جو آپ اتنی صحیح اور سچی خبریں اپنی زبان سے ادا کررہے ہیں۔ ان کا ذریعہ بجز وحی الہی کے اور ہو کیا سکتا ہے ؟
Top