Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
یہ خبریں غیب کی ہیں جو ہم بھیجتے ہیں تجھ کو اور تو نہ تھا ان کے پاس جب ڈالنے لگے اپنے قلم کہ کون پرورش میں لے مریم کو اور تو نہ تھا ان کے پاس جب وہ جھگڑتے تھے۔
خلاصہ تفسیر
یہ قصے (جو اوپر مذکور ہوئے جناب رسول اللہ ﷺ کے اعتبار سے بوجہ اس کے کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی ذریعہ ظاہری ان کے معلوم کرنے کا نہ تھا) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جن کی وحی بھیجتے ہیں ہم آپ ﷺ کے پاس (اس کے ذریعہ سے آپ یہ خبریں معلوم کر کے اوروں کو بتلاتے ہیں) اور (ظاہر ہے کہ جو لوگ حضرت مریم (علیہا السلام) کے رکھنے میں اختلاف کر رہے تھے جس کا فیصلہ اخیر میں قرعہ پر قرار پایا تھا) آپ ان لوگوں کے پاس نہ تو اس وقت موجود تھے جبکہ وہ (قرعہ کے طور پر) اپنے اپنے قلموں کو (پانی میں) ڈالتے تھے (اور صورت قرعہ نکلنے کی یہ قرار پائی تھی کہ جس کا قلم پانی کی حرکت کے خلاف الٹا بہہ جاوے وہ مستحق سمجھا جاوے سو قرعہ سے غرض اس امر کا طے کرنا تھا) کہ ان سب میں کون شخص حضرت مریم (علیہا السلام) کی کفالت (پرورش) کرے (پس آپ ﷺ نہ تو اس وقت موجود تھے) اور نہ آپ ان کے پاس اس وقت موجود تھے جبکہ وہ لوگ (قبل قرعہ اس مقدمہ میں) باہم اختلاف کر رہے تھے (جس کے رفع کی ضرورت کے لئے یہ قرعہ قرار پایا، اور ان خبروں کے دریافت ہونے کے لئے دوسرے وسائط کا نہ ہونا بھی یقینا معلوم ہے۔ پس ایسی حالت میں یہ غیبی خبریں آپ ﷺ کی نبوت کی دلیل ہیں)۔
معارف و مسائل
مسئلہشریعت محمدیہ میں حنفیہ کے مسلک پر قرعہ کا یہ حکم ہے کہ جن حقوق کے اسباب شروع میں معلوم و متعین ہیں ان میں قرعہ ناجائز و داخل قمار ہے، مثلا شے مشترک میں جس کا نام نکل آئے وہ سب لے لے، یا جس بچے کے نسب میں اختلاف ہو، اس میں جس کا نام نکل آوے وہی باپ سمجھا جاوے اور جن حقوق کے اسباب رائے کے سپرد ہوں ان میں قرعہ جائز ہے۔ مثلا مشترک مکان کی تقسیم میں قرعہ سے زید کو شرقی حصہ دیدینا اور عمرو کو غربی حصہ دیدینا، یہ اس لئے جائز ہے کہ بلا قرعہ بھی ایسا کرنا اتفاق شریکین سے یا قضائے قاضی سے جائز تھا۔ (بیان القرآن) یا یوں کہئے کہ جہاں سب شریکوں کے حقوق مساویانہ ہوں وہاں کوئی ایک جہت ایک شخص کے لئے متعین کرنے کے واسطے قرعہ اندازی جائز ہے۔
Top