Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
اے نبی یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کے ذریعہ پہنچاتے ہیں ورنہ آپ ان لوگوں کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جبکہ وہ اس بات پر کہ ان میں سے مریم کا نگراں کو اپنی اپنی قلمیں قرعہ اندازی کے لئے ڈال رہے تھے اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود تھے جبکہ وہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے3
3۔ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب فرشتوں نے حضرت مریم سے کہا کہ اے مریم ! بلا شبہ تجھ کو اللہ تعالیٰ نے منتخب اور مقبول فرمایا اور تجھ کو ہر قسم کے برے افعال و اخلاق کی آلودگی سے پاک کیا اور اس زمانہ کی تمام عورتوں کے مقابلہ میں تجھ کو برگزیدہ اور منتخب کیا ۔ اے مریم ! اپنے رب کی فرمانبردار اور اطاعت گزار رہیو اور سجدہ یعنی نماز ادا کرتی رہیو اور نماز میں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع بھی کیا کیجئو۔ یہ واقعات مذکورہ اے پیغمبر منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم آپ کے پاس وحی کرتے ہیں اور وحی کے ذریعہ آپ تک پہنچاتے ہیں، حالانکہ آپ ہیکل کے ان احبار کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جب وہ مریم کی نگرانی اور کفالت کے بارے میں کون شخص ان کا سرپرست مقرر ہو اپنی اپنی قلمیں قرعہ کی غرض سے پانی میں ڈال رہے تھے اور نہ آپ ان احبار کے پاس اس وقت موجود تھے جب کہ یہ لوگ آپس میں اختلاف اور جھگڑا کر رہے تھے یعنی ہر راہب یہ چاہتا تھا کہ عمران کی بیٹی مریم پرورش کے لئے میرے سپرد کی جائے۔ ( تیسیر) فرشتوں سے مراد یہاں بھی چند فرشتے ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت جبرئیل مراد ہوں ، بہر حال اصطفا کا مطلب یہ ہے کہ تجھ کو مقبول فرمایا اور تیری ماں نے جو نذر مانی تھی وہ قبول ہوئی۔ پھر زکریا کو تیرا کفیل بنایا اور بےفصل کے پھل تجھ کو پہنچائے اور کرامت کا تجھ سے ظہور ہوا ۔ تطہیر کا مطلب یہ کہ شیطان کے اثر سے تجھ کو محفوظ رکھا ۔ گناہوں سے بچایا کسی غیر مرد کے ہاتھ لگانے سے محفوظ رکھا۔ یہ باتیں ہر عورت کو کہاں نصیب ہوتی ہیں اس لئے مکرر فرمایا کہ تجھ کو اپنے زمانے کی تمام اہل جہاں کی عورتوں پر برگزیدہ عنایت کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے دو دفعہ خطاب کیا ہو ۔ ایک دفعہ اس انتخاب کا ذکر کیا ہو جس کا اثر بچنے میں نمایاں ہوا اور دوسرا خطاب حضرت مریم کو جوان ہونے کے بعد کیا ہو اور اس برگزیدگی کا اظہار کیا ہو کہ تجھ کو لڑکا عنایت فرمایا اور تجھ کو اور تیرے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنایا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بچنے میں تیری برأ ت کرائی۔ بہر حال تو ایک ہی خطاب میں مکرران کی پسندیدگی کا اظہار کیا اور یا خطاب ہی دو دفعہ کیا اور دونوں دفعہ ان کی برگزیدگی کا اظہار فرمایا اور یہ جو فرمایا کہ تمام اہل عالم کی عورتوں پر فضلیت عطا فرمائی ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے زمانے میں جو دنیا جہان کی عورتیں ہیں ان کے مقابلہ میں تم کو پسند فرمایا۔ حضرت فاطمہ ، حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ اور فرعون کی بیوی آسیہ کے متعلق جو اہل عالم کی عورتوں پر فضلیت کے الفاظ آئے ہیں اول تو ان میں اپنا مسلک توقف ہے ، نیز جو معنی ہم نے کئے ہیں اس کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، خدیجہ اور آسیہ کی فضلیت کے متعلق تمام روایات صاحب تفسیر مظہری نے اس آیت کے تحت جمع کردی ہیں اگر ملاحظہ کرنی ہوں تو وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ، چونکہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے تین احسانات ذکر کئے تھے ۔ ایک برگزیدہ اور پسند فرمانا ۔ دوسرے تظہیر جو ہر قسم کے برے اعمال اور ناپسندیدہ اخلاق سے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ ماہواری ایام سے بھی پاک ہونے کو شامل ہو جیسا کہ بعض کا قول ہے ۔ تیسرے تمام دنیا جہان کے لوگوں پر فضلیت ان تین احسانوں کا ذکر کرنے کے بعد فرشتوں نے حضرت حق کا شکریہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ قنوت کے معنی ہم عرض کرچکے ہیں اگر یہاں اطاعت و فرمانبردار کیا جائے تو واسجدی کے معنی نماز کیے جائیں جیسا کہ ہم نے کیا اور اگر قنوت کے معنی قیام کئے جائیں اور نماز میں تطویل قیام مراد ہو تو پھر سجدے کے معنی نماز کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب مطلب یہ ہوگا کہ اے مریم خدا کے روبرو نماز میں طویل قیام کیا کر اور سجدہ کیا کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کر ، سجدہ اگرچہ رکوع کے بعد ہوتا ہے لیکن ارکان صلوٰۃ میں چونکہ خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے اس کو مقدم فرما دیا اور ہوسکتا ہے کہ ان کی شریعت میں سجدہ رکوع سے پہلے ہوتا ہو۔ بہر حال یہاں ذکر میں ترتیب کی رعایت نہیں ہے بلکہ ارکان صلوٰۃ کی ادائیگی پر متوجہ کرنا ہے اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض یہود نے نماز میں رکوع ترک کردیا تھا اور بعض رکو ع کرتے تھے اس لئے فرمایا کہ جو لوگ رکوع کے پابند ہیں ان کی طرح نماز پڑھنا ، یہ مطلب نہیں کہ رکوع کرنے والوں کی ہر نماز میں ان کے ساتھ رکوع کر بلکہ صرف یہ منشا ہے کہ تمہاری نماز میں رکوع بھی ہونا چاہئے یہ معیت ایسی ہی ہے ۔ جیسے فرمایا کہ کو نوامع الصادقین یعنی سچوں کا طریقہ اختیار کرو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رکوع میں عام لوگ کوتاہی کرتے ہیں ذرا جھکے اور کھڑے ہو کر سجدے میں چلے گئے اور کبھی سیدھے کھڑے بھی نہیں ہوتے اور سجدے میں چلے جاتے ہیں جیسا کہ ہم آج کل دیکھتے ہیں اس لئے رکوع کی تاکید فرمائی کہ رکو ع رکوع کرنے والوں کی طرح کیا کرو۔ آخری آیت میں ان واقعات مذکورہ کے بیان کرنے پر نبی کریم ﷺ کی نبوت پر استدلال ہے کہ بدون کسی سے سنے ہوئے اور بغیر کسی کتاب میں پڑھے ہوئے اور بغیر آنکھوں سے دیکھے ہوئے آپ کا ان واقعات کو بیان کرنا یہ خرق عادت ہے اور یہ آپ کا اعجاز ہے کہ آپ ہزاروں برس پہلے کے واقعات اس طرح تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح بتاتے ہیں سوائے اسکے کہ یہ خبریں ہم آپ پر وحی کرتے ہیں اور کیا ذریعہ ہوسکتا ہے اور یہی آپ کے نبی ہونے کی کھلی ہوئی دلیل ہے کیونکہ آپ تو نہ بیت المقدس کے مجاوروں کی قرعہ اندازی کے وقت موجود تھے اور نہ جب ان میں جھگڑا ہو رہا تھا اس وقت آپ وہاں موجود تھے۔ لہٰذا ہم ہی آپ کو بتانے والے ہیں یہ مضمون بھی وفد نجران سے تعلق رکھتا ہے کہ اس واضح دلیل کے بعد بھی تم لوگوں کو اس نبی پر ایمان لانے میں کیوں تامل ہوتا ہے قلموں کا ذکر اس لئے ہوا کہ شاید ان لوگوں میں قرعہ اندازی کا یہی طریقہ ہوگا کہ ہر شخص اپنی قلم پانی پر ڈالتا ہوگا جس کی قلم پانی کے بہائو کے خلاف الٹی بہنے لگتی ہوگی یا پانی میں کھڑ ی ہوجاتی ہوگی اس کا حق سمجھا جاتا ہوگا ۔ اسی قرعہ کے قلموں کی طرف اشارہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ہیکل کے ان سب احبار نے پانی میں قلمیں ڈالیں تو حضرت زکریا کی قلم بجائے بہائو پر بہنے کے الٹی بہنے لگی یا پانی پر کھڑی ہوگئی اور حضرت زکریاہی مریم کے کفیل قرار پائے ۔ لفظ وحی قرآن میں بہت سے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ یہاں وہ وحی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیاء کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ قرعہ کا دستور اس آخری شریعت میں بھی ہے لیکن جن حقوق کے اسباب شریعت سے معلوم ہوں ان میں ناجائز ہے۔ مثلاً شریعت نے بتادیا ہے کہ قاری اور غیر قاری میں امامت کا مستحق قاری ہے اب اگر کوئی قاری غیر قاری میں قرعہ اندازی کرے تو یہ قرعہ اندازی ناجائز ہوگی ۔ البتہ جن حقوق کے اسباب شریعت نے ذکر نہیں کئے وہاں قرعہ اندازی ہوسکتی ہے ۔ حضرت مریم سے فرشتوں کا خطاب کرنا نبوت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بالا تفاق حضرت مریم نبی نہیں تھیں ، اگرچہ صدیقیت کا مرتبہ ان کو حاصل تھا اور صرف فرشتوں کا ہم کلام ہونا نبوت کی دلیل بھی نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) ارشاد فرماتے ہیں مسجد کے بزرگوں نے جب حضرت مریم کی ماں کا خواب سنا تو سب لگے چاہنے کہ ہم پالیں مریم کو فیصل اس بات پر ہوا کہ ہر ایک نے اپنا قلم جس سے تورات لکھتے تھے پانی بہتے میں ڈالا ۔ سب قلم بہائو پر ہے اور حضرت زکریا کا قلم الٹا اوپر کو بہا تب ان ہی طرف اس کا پالنا ٹھہرا ۔ ( موضح القرآن) اب آگے حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے کی بشارت اور ان کے اوصاف مذکور ہیں تا کہ وفد نجران کو حضرت عیسیٰ کی صحیح حقیقت اور ان کے متعلق قرآن کا نظریہ معلوم ہوجائے ، چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)
Top