Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 6
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١٘ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ
وَلَمَّا : اور جب رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومنوں نے دیکھا الْاَحْزَابَ ۙ : لشکروں کو قَالُوْا : وہ کہنے لگے ھٰذَا : یہ ہے مَا وَعَدَنَا : جو ہم نے کو وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ ۡ : اور اس کا رسول وَمَا : اور نہ زَادَهُمْ : ان کا زیادہ کیا اِلَّآ : مگر اِيْمَانًا : ایمان وَّتَسْلِيْمًا : اور فرمانبرداری
اور جب مومنوں نے (کافروں کے) لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا خدا اور اس کے پیغمبر نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور خدا اور اس کے پیغمبر نے سچ کہا تھا اور اس سے ان کا ایمان اور اطاعت اور زیادہ ہوگئی
مومن کا ایمان آزمائشوں میں مزید پختہ ہوتا ہے قول باری ہے (ولمارای المومنون الاحزاب قالوا ھذا ما وعد نا اللہ ورسولہ۔ اور جب اہل ایمان نے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہی وہ (موقع) ہے جس کی ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی تھی) ایک قول کے مطابق مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ جب مشرکین کے مقابلہ پر اتریں گے انہیں ان پر کامیابی حاصل ہوجائے گی اور وہ ان پر چھا جائیں گے ۔ جس طرح یہ قول باری ہے (لیظھرہ علی السلاین کلد تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے) ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو اس قول باری میں ان سے کیا گیا تھا (ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا مین قبلکم کیا تم نے یہ خیال کیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجائو گے جبکہ ابھی تمہارے پاس ان لوگوں کی مثال نہیں آئی ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں) قول باری ہے (ومازادھم الا ایمانا وتسلیما۔ اور اس سے ان کے ایمان وطاعت میں ترقی ہی ہوئی) آزمائش کے موقعہ پر صحابہ کرام کی کیفیت کی اس آیت میں عکاسی کی گئی ہے۔ اس آزمائش کی گھڑی میں ان کا یقین اور پختہ ہوگیا اور ان کی بصیرت میں چمک پیدا ہوگی۔ اللہ پر ایمان رکھنے والے اصحاب بصیرت کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔
Top