Tafseer-al-Kitaab - Al-Ahzaab : 22
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١٘ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ
وَلَمَّا : اور جب رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومنوں نے دیکھا الْاَحْزَابَ ۙ : لشکروں کو قَالُوْا : وہ کہنے لگے ھٰذَا : یہ ہے مَا وَعَدَنَا : جو ہم نے کو وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ ۡ : اور اس کا رسول وَمَا : اور نہ زَادَهُمْ : ان کا زیادہ کیا اِلَّآ : مگر اِيْمَانًا : ایمان وَّتَسْلِيْمًا : اور فرمانبرداری
اور جب (سچے) اہل ایمان نے (دشمنوں کے) لشکروں کو دیکھا تو بول اٹھے کہ یہ (وہی چیز) ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا۔ اور (اس واقعہ سے) ان کا ایمان اور (شیوہ) فرماں برداری اور بھی زیادہ ہوگیا۔
[24] یعنی پکے مسلمانوں نے جب دیکھا کہ کفر کی فوجیں اکٹھی ہو کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑی ہیں تو بجائے مذبذب یا پریشان ہونے کے ان کا جذبہ اطاعت اور یقین اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں پر اور زیادہ ہوگیا اور وہ کہنے لگے کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کی خبر اللہ اور اس کے رسول نے پہلے سے دے رکھی تھی جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا۔ '' کیا تم (لوگوں) نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ (محض ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے) تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تک تم کو ان لوگوں کی سی حالت پیش نہیں آئی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں اور وہ جھنجھوڑے گئے، جہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد (آخر) کب آئے گی ؟ (اس وقت انھیں بشارت دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ '' (آیت 214 صفحہ 62) ۔
Top