Ahkam-ul-Quran - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا انکو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔
مجتہد اپنے اجتہاد سے دشمن کے باغوں کو اجاڑ دے یا باقی رکھے اسے اختیار ہے قول باری ہے (ما قطعتم من لیلۃ اوترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹے یا انہیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا۔ سو یہ دونوں اللہ ہی کے اذن سے تھا) ابن عباس ؓ اور قتادہ کا قول ہے کہ کھجور کا ہر درخت لینہ کہلاتا ہے البتہ عمدہ قسم کی عجوہ کھجور کا درخت اس میں داخل نہیں ہے۔ مجاہد اور عمرو بن میمون کا قول ہے کہ کھجور کا ہر درخت لینہ کہلاتا ہے ……ایک قول کے مطابق کھجور کے عمدہ قسم کے درخت لینہ کہلاتے ہیں۔ ابن جریج نے مجاہد سے آیت کی تفسیر روایت کی ہے کہ بعض مہاجرین نے کھجور کے درخت کاٹنے سے منع کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ یہ درخت اب مسلمانوں کے مال غنیمت ہیں ۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی اور اس نے روکنے والوں کی تصدیق کردی اور کاٹنے والوں کو گناہ سے آزاد کردیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کاٹنے والوں اور کاٹنے سے انکار کرنے والے دونوں کی تصویب کردی۔ ان سب نے اجتہاد سے کام لے کر یہ طریق کار اختیار کیا تھا۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہر مجتہد مصیب یعنی درست کار ہوتا ہے۔ زہری سے مروی ہے انہوں نے عروہ اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضور ﷺ نے ابنیٰ پر صبح کے وقت حملہ کرنے اور اسے آگ لگا دینے کا حکم دیا تھا۔ قتادہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے جب مرتدین کے خلاف جنگجو کاروائی شروع کی تو آپ نے انہیں قتل بھی کیا، انہیں گرفتار بھی کیا اور اس کے ٹھکانوں کو آگ بھی لگا دی ۔ عبداللہ بن ابی بکر بن عمروبن حزم نے روایت کی ہے کہ بنو نضیر جب قلعہ بند ہوگئے تو حضور ﷺ نے ان کے کھجوروں کو کاٹنے اور آگ لگا دینے کا حکم دیا۔ لوگوں نے عرض کیا۔” ابوالقاسم ! آپ تو تباہ کاری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا) الی آخرہا نازل ہوئی۔ عثمان بن عطاء نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کی طرف لشکر روانہ کیا تو اسے جو زبانی ہدایت دی گئی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پھل دار درخت نہ کاٹے جائیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن نے درج بالا روایت کی یہ توجیہ کی ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات معلوم تھی کہ حضور ﷺ نے اس سے فتح شام کو جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوگا اور وہاں کی زمینیں اور درخت سب مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر مل جائیں گے اس لئے حضرت ابوبکر ؓ نے یہ چاہا کہ وہاں کے درخت وغیرہ مسلمانوں کے لئے باقی رہنے دیے جائیں۔ تاہم مسلمانوں کا لشکر جب دارالحرب پر حملہ آور ہوا اور جنگی کاروائیوں کے بعد وہاں سے واپس ہونے لگے تو بہتر یہی ہے کہ اہل حرب کے درختوں، فصلوں، گھروں کو آگ لگا کر تباہ کردے۔ اہل حرب کے مویشیوں کے متعلق بھی ہمارے اصحاب کا یہی وقل ہے کہ اگر ان مویشیوں کو ہانک کر ساتھ لانا ممکن نہ ہو تو انہیں ذبح کرکے جلا دیا جائے۔ جن چیزوں کے بارے میں لشکر اسلام کو توقع ہو کہ یہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن جائیں گی اگر وہ انہیں اس غرض سے چھوڑ دیں کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائیں تو ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے اور اگر وہ انہیں مشرکین کو غصہ دلانے کی خاطر آگ لگا دیں تو بھی جائز ہے۔ اس جواز کی دلیل آیت زیر بحث اور حضور ﷺ کا وہ طریق کار ہے جو آپ ﷺ نے بنو نضیر کے سلسلے میں اختیار کیا تھا۔
Top