Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 141
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْكٰفِرِیْنَ
وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ پاک صاف کردے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَيَمْحَقَ : اور مٹادے الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور یہ بھی مقصود تھا خدا ایمان والوں کو خالص (مومن) بنادے اور کافروں کو نابود کر دے
141۔ (آیت)” ان یمسسکم قرح “۔ حمزہ (رح) ، اور کسائی (رح) اور ابوبکر نے قاف کے ضمہ کے ساتھ ” قرح “ پڑھا ہے بمعنی ” حیث جائ “ کے ہے یعنی جہاں سے بھی آئے اور دوسرے قراء نے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے دونوں کا معنی ایک ہی ہے جیسا کہ ” جھد “ اور ” جھد “ ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ایک ہی معنی ہے ، فراء فرماتے ہیں کہ اگر قاف کے فتحہ کے ساتھ ہو تو یہ زخم کا نام ہے اور اگر ضمہ کے ساتھ زخم کے درد کو کہتے ہیں ، یہ خطاب مسلمانوں کو ہے جب وہ غزوہ احد سے شکستہ دل اور غمگین ہو کر لوٹے ، اللہ تعالیٰ اس پر فرماتے ہیں (آیت)” ان یمسسکم قرح “ اس سے مراد احد کا دن ہے ، (آیت)” فقد مس القوم قرح مثلہ “ اس سے پہلے تمہیں بدر میں وہ زخم پہنچ چکے تھے (آیت)” وتلک الایام نداولھا بین الناس “ کبھی یہ جیت کے دن ان کے ہوتے ہیں اور کبھی یہ جیت کے دن تمہارے ہوتے ہیں بدر کے دن مسلمانوں نے مشرکوں کے ستر قید کیے اور ستر قتل کیے ، جنگ احد میں مشرکین نے مسلمانوں کے پچھتر شہید اور ستر کے قریب کو زخمی کر کے بدلہ لیا ۔ (جنگ احد میں مسلمانوں کا امتحان) ابو اسحاق (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا وہ بیان کر رہے تھے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے پچاس پیادوں کا جبیر بن مطعم ؓ کو سردار بنا کر حکم دے دیا تھا اور فرمایا تھا اگر تم دیکھو کہ پرندے ہم کو جھپٹ کرلے جا رہے ہیں تب بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹنا جب تک میرا پیغام تمہارے پاس نہ پہنچ جائے اور اگر دیکھو کہ ہم نے دشمن کو بھگا دیا اور روند دیا تب بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا تاوقتیکہ میں تمہارے پاس پیغام نہ بھیج دوں ، راوی فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے خود دیکھا کہ عورتیں ٹانگوں سے کپڑے اٹھائے تیزی سے بھاگ رہی تھیں اور ان کی پازیبیں اور پنڈلیاں کھل گئی ہیں یہ دیکھ کر عبداللہ بن جبیر کے ساتھی بولے لوگو ! تمہارے ساتھی غالب آگئے تم کس کا انتظار کر رہے ہو چلو مال غنیمت حاصل کریں ، عبداللہ بن جبیر ؓ نے کہا کیا تم حضور اقدس ﷺ کا فرمان بھول گئے، کہنے لگے خدا کی قسم ! ہم تو ضرور ان کے پاس پہنچ کر مال غنیمت حاصل کریں گے ، چناچہ جونہی یہ لوگ کافروں پر پہنچے تو ان کے رخ پھرگئے اور یہ شکست کھا کر بھاگے ۔ (اس پر آپ ﷺ پچھلی صف میں کھڑے تم کو پلٹ کر آنے کے لیے پکار رہے تھے) یہی فرمان باری ہے (آیت)” والرسول یدعوکم فی اخراکم “۔ کہ آپ ﷺ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا کوئی باقی نہیں رہا ، مشرکین نے ستر مسلمانوں کو شہید کردیا جبکہ حضور اقدس ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے بدر کے دن ستر مشرکوں کو قتل کیا اور ستر کو قید کرلیا تھا ، ابوسفیان نے کہا کہ تمہاری قوم میں محمد ﷺ موجود ہیں تین مرتبہ پکار کر کہا کیا تمہارے ساتھ عمر بن الخطاب ؓ موجود ہیں تین مرتبہ کہا پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا اور کہنے لگا سب مارے گئے ، یہ سن کر حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے رہا نہ گیا اور پکار کر کہنے لگے اے دشمن خدا ! خدا کی قسم تو جھوٹا ہے جن کے تو نے نام لیے ہیں وہ سب زندہ ہیں اور تمہیں رسوا کرنے والا کانٹا موجود ہے ، پھر وہ کہنے لگا آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہوگیا ، لڑائی ڈول کی مانند ہے مقتولین میں تم کو کچھ لوگ مثلہ ملیں گے (جن کے ناک ، کان اور دوسرے اعضاء ستر کاٹے گئے) لیکن میں نے اس کا حکم نہیں دیا تاہم مجھے یہ برا بھی معلوم نہیں ہوا پھر اس کے بعد وہ جنگی گانے بولنے لگا ، ھبل کی جے، ھبل کی جے ، آپ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ آپ جواب کیوں نہیں دیتے ؟ وہ فرمانے لگے اے اللہ کے رسول میں کیا کہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہو ” اللہ اعلی واجل “ وہ کہنے لگا ” ان لنا العزی ولا عزی لکم “۔ کہ ہمارا عزی ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا آپ اس کو جواب کیوں نہیں دیتے ؟ وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! ﷺ کیا کہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہو ” اللہ مولانا ولا مولی لکم “۔ کہ اللہ ہمارا مولی ہے اور تمہارا کوئی مولی نہیں یہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ابو سفیان نے کہا کہ یہ دن اس دن کے مقابلے میں ہوگیا اور ایسے ایام ڈھول کی مانند ہوتے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تم ہمارے برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ ہمارے مقتولین جنت میں اور تمہارے مقتولین جہنم میں جائیں گے ، زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا غلبہ تو ہوتا ہی ہے کیونکہ اللہ نے فرما دیا ہے (آیت)” وان جندنا لھم الغالبون “۔ کہ ہمارے گروہ ان پر ہمیشہ غالب ہی رہیں گے باقی جنگ احد کے دن جو عارضی شکست ہوئی وہ مسلمانوں نے فرمان نبوی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہوئی (آیت)” ولیعلم اللہ الذین امنوا ویتخذ منکم شھدائ “۔ یہ آزمائش اس وجہ سے ہوئی تاکہ معلوم ہوجائے کہ مخلص مؤمن کون ہیں اور منافق کون ہیں ، شہداء یہ قوم کی عزت کی وجہ سے ہے۔ (آیت)” واللہ لا یحب الظالمین “۔
Top