زندگی میں تنگی اور فراخی
قول باری ہے (فان مع العسریسر ان مع العسر یسرا۔ پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، بیشک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے) ہمیں عبداللہ بن محمد المروزی نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے حسن سے قول باری (ان مع العسر یسرا) کی تفسیر میں بیان کیا کہ ایک دن حضور ﷺ مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے۔
آپ ﷺ فرما رہے تھے (لن یغلب عسر یسرین، لن یغلب عسر یسرین ان مع العسریسرا۔ ایک تنگی دو فراخی پر غالب نہیں آسکتی، ایک تنگی دو فراخی پر غالب نہیں آسکتی۔ بیشک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے جس تنگی کا ابتداء میں ذکر کیا ہے، دوسری مرتبہ ذکر سے یہی تنگی مراد ہے کیونکہ یہ معرف باللام سے اسی بنا پر دوسری تنگی بھی اسی تنگی کی طرف راجع ہوگی جس کا ذکر ہوچکا ہے اور جو معہود یعنی معلوم ہے۔ اس کے بالمقابل فراخی کو یسر یعنی اسم نکرہ کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔
اس بنا پر پہلی فراخی دوسری فراخی سے مختلف ہوگی۔ اگر دوسری فراخی سے پہلی فراخی مراد ہوتی تو اسے معروف باللام کی صورت میں ذکر کیا جاتا ۔