Ruh-ul-Quran - Ash-Sharh : 5
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ
فَاِنَّ : پس بیشک مَعَ : ساتھ الْعُسْرِ : دشواری يُسْرًا : آسانی
پس یقینا ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ (النشرح : 5، 6) (پس یقینا ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کا مستقل قانون یہی وہ اصل حقیقت ہے جو اوپر کے بیان کردہ شواہد کی روشنی میں بیان کرنا مقصود ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک مستقل قانون ہے کہ ہر یعسر کا دامن عسر کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ یعنی آسانی ظاہر ضرور ہوتی ہے لیکن آزمائش کے دور سے گزرنے کے بعد۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دینے کے لیے اسے دو مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ جن سخت حالات سے آپ اس وقت گزر رہے ہیں یہ زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں۔ ان کے جلدی بعد اچھے حالات آنے والے ہیں۔ بظاہر یہ بات متناقض معلوم ہوتی ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی ہو۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوتیں۔ لیکن تنگی کے بعد فراخی کہنے کی بجائے تنگی کے ساتھ فراخی کے الفاظ اس معنی میں استعمال کیے گئے ہیں کہ فراخی کا دور اس قدر قریب ہے کہ گویا وہ اس کے ساتھ ہی چلا آرہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہو کہ یہ عسر اور یسر دونوں اس دنیا میں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک گھاٹی کسی نے پار کرلی تو یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ بس اب کسی نئی گھاٹی سے اس کو سابقہ پیش آنے والا نہیں ہے بلکہ دوسری اور تیسری گھاٹی بھی آسکتی ہے۔ چاہیے کہ ان کو عبور کرنے کا حوصلہ بھی قائم رکھے۔ زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس جہان میں ہر مسافر کو نشیب و فراز سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان سے گزرنے کے بعد ہی کوئی راہ رو منزل مقصود پر پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی معاملہ حق کے راستہ پر چلنے والوں کے ساتھ بھی ہے۔ جو لوگ اس راستے پر چلنے کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لیے یہ نہیں ہوتا کہ راہ سے تمام عقبات خودبخود دور ہوجائیں بلکہ ان کو دور کرنے کے لیے خود ان کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے یہ ضمانت ضرور ہے کہ اگر وہ راہ کی رکاوٹوں کے علی الرغم ہمت نہیں ہاریں گے تو وہ ان کے لیے ہر مشکل کے بعد آسانی پیدا کرے گا۔ اور ایک کے بعد دوسری مشکل سے لڑتے اور اس کو سر کرتے ہوئے بالآخر منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے۔ صاحبِ معارف القرآن نے اس آیت کو سلجھاتے ہوئے لکھا : عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کلمہ کے شروع میں الف لام ہوتا ہے جس کو اصطلاح میں لام تعریف کہتے ہیں۔ اگر اسی کلمہ کو الف لام ہی کے ساتھ مکرر لایا جائے تو اس کا مصداق و ہی ہوتا ہے جو پہلے کلمہ کا تھا اور اگر بغیر الف لام تعریف کے مکرر لایا جائے تو دونوں کے مصداق الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس آیت میں العسر جب مکرر آیا تو معلوم ہوا کہ اس سے وہ پہلا ہی عسرمراد ہے کوئی نیا نہیں۔ اور لفظ یُسْرًا دونوں جگہ بغیر الف لام کے لایا گیا، اس سے معلوم ہوتا کہ یہ دوسرا یسر پہلے یسر کے علاوہ ہے تو اس آیت میں اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا کے تکرار سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایک ہی عسرو مشکل کے لیے دو آسانیوں کا وعدہ ہے اور دو سے مراد بھی خاص دو کا عدد نہیں بلکہ متعدد ہونا مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک عسر یعنی تنگی اور مشکل جو آپ کو پیش آئی یا آئے گی اس کے ساتھ بہت سی آسانیاں آپ کو دی جائیں گی۔ حضرت حسن بصری ( رض) سے مرسلا ًروایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو اس آیت سے بشارت سنائی اور فرمایا لن یّغلب عُسْرٌ یُّسْرَیْنِ یعنی ایک عسر دو یسروں پر (ایک مشکل دو آسانیوں پر) غالب نہیں آسکتی۔ چناچہ تاریخ و سیرت کی سب کتابیں جو اپنوں اور غیروں، مسلم و غیر مسلم نے لکھی ہیں وہ اس پر شاہد ہیں کہ جو کام مشکل سے مشکل بلکہ لوگوں کی نظر میں ناممکن نظر آتے تھے آپ کے لیے وہ سب آسان ہوتے چلے گئے۔ روایتِ مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس آیت میں العسر کا الف لام عہد کے لیے ہے اور مراد آنحضرت ﷺ اور صحابہ ( رض) کرام کا عسر ہے، یعنی یہ وعدہ کہ ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں دی جائیں گی آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے لیے ہے جس کو حق تعالیٰ نے ایسا پورا فرمایا کہ دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اب اگر دنیا میں کسی شخص کو عسر کے بعد یسر نصیب نہ ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں، البتہ عادۃ اللہ اب بھی یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور سچے دل سے اللہ پر اعتماد رکھے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اسی سے لو لگائے اور اسی کے فضل کا امیدوار رہے اور کامیابی میں دیر ہونے سے آس نہ توڑ بیٹھے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کے حق میں آسانی کردے گا۔ (فوائد عثمانیہ) بعض رویاتِ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
Top