فان مع العسریسرا، ان مع العسر یسرا۔
بے شک تنگی اور سختی کے ساتھ آسانی یعنی وسعت اور غنا ہے پھر اسی ارشاد کو مکررذکر کیا ایک قوم نے یہ کہا یہ تکرار کلام کی تاکید ہے جس طرح یہ جملہ بولا جاتا ہے، ارم ارم، پھینکو پھینکو۔ اعجل اعجل جلدی کرو، جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، کلا سوف تعلمون ثم کلاسوف تعلمون۔ ہرگز نہیں عنقریب تم جان لوگے پھر ہرگز نہیں عنقریب تم جان لوگے اس کی مثال جواب کے تکرار میں ہے، بلی، بلی، لا، لا، یہ اطناب اور مبالغہ کے لیے ہے، یہ فراء کا قول ہے اس معنی میں شاعر کا قول ہے، ھمت بنفسی بعض الھموم، فاولی لنفسی اولی لھا۔ میں نے اپنے بارے میں ایسے امور کا ارادہ کیا جو میرے لیے ہلاکت کا باعث تھے جو ہلاکت کا باعث تھے۔
ایک قوم کا نقطہ نظر ہے کہ عربوں کی عادت ہے جب وہ کسی معرف بللام اسم کو ذکر کیں پھر اسے دوبارہ لائیں تو اس سے مراد پہلے والی ذات ہوتی ہے اگر وہ نکرہ ذکر کریں پھر اسے دوبارہ ذکر کریں تو دوسرا پہلے کا غیر ہوتا ہے یہاں آسانیاں دو ہیں تاکہ امید کے لیے زیادہ قوی ہو اور صبر پر زیادہ برانگیختہ کرنے والا ہو یہ ثعلب کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ایک تنگی پیدا کی ہے اور دو آسانیاں پیدا کی ہیں ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں ہوگی نبی کریم سے اس صورت کی فضیلت میں ایک حدیث ہے، لن یغلب عسر یسرین۔ ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں آئے گی، حضرت ابن مسعود نے فرمایا، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تنگی پتھر میں ہوتوآسانی اسے تلاش کرلے گی یہاں تک کہ اس میں داخل ہوجائے گی ایک تنگی دو آسانیوں پر کبھی غالب نہیں آئے گی۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے حضرت عمر بن خطاب کی طرف خط لکھا جس میں رومیوں کے لشکروں کا ذکر کیا اور ان سے جو خوف محسوس ہورہا تھا اس کا ذکر کیا، حضرت عمر نے ان کی طرف خط لکھا، امابعد جب بھی بندہ مومن پر کسی جگہ سختی آتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بعد آسانی پیدا فرما دیتا ہے۔ بیشک ایک تنگی دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ارشاد ہوتا ہے : یا ایھا الذین آمنواصبروا وصابروا ورابطوا، وتقواللہ لعلکم تفلحون۔ (آل عمران) اے ایمان والو تم صبر کرو اور ثابت قدم رہو (دشمن کے مقابلہ میں) اور کمربستہ رہو (خدمت دین کے لیے) اور (ہمیشہ) اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ (اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ۔
ایک قوم نے کہا، ان میں سے جرجانی بھی ہے، یہ ایسا قول ہے جس میں اعتراض کی گنجائش ہے اگر اس استدلال کو تسلیم کرلیاجائے تو ضروری ہوتا کہ جب ایک آدمی کہے، ان مع الفارس سیف، ان مع الفارس سیف۔ کہ سوار ایک ہو اور تلواریں دو ہوں۔ جو بات صحیح ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مبعوچ کیا جب کہ آپ کم مال رکھنے والے تھے مشرکوں نے آپ کو فقر و تنگدستی کی عار دلائی یہاں تک کہ انہوں نے کہا، ہم آپ کے لیے مال جمع کرتے ہیں، آپ ﷺ غمگین ہوگئے اور خیال یہ کیا کہ ان لوگوں نے آپ ﷺ کے فقر کی وجہ سے آپ کی تکذیب کی ہے پس اللہ تعالیٰ نے آ پکوعزت دی اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو نعمتیں کی تھیں ان کا شمار کیا، اور اپنے اس ارشاد کے ساتھ غنا کا وعدہ کیا، فان مع العسر یسرا۔ یعنی انہوں نے فقر کی وجہ سے جو عار دلائی ہے وہ آپ کو غمگین نہ کرے بیشک اس تنگی کے ساتھ جلدی یعنی دنیا میں آسانی ملنے والی ہے تو جو وعدہ آپ سے کیا تھا اسے پورا کردیا آپ کا وصال نہ ہوایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر حجاز اور یمن کے علاقہ کو فتح کیا آپ کو مال میں وسعت عطا فرمائی یہاں تک کہ آپ ایک آدمی کو دوسواونٹ عطا فرماتے ہیں اور عمدہ عطیات دیا کرتے تھے اور اپنے اہل کے لیے سال بھر کے نفقہ کا انتظار فرماتے تھے یہ سب فضل و احسان دنیا سے متعلق تھا اگرچہ یہ نبی کریم کے ساتھ خاص ہے اس میں آپ کی امت کے بعض افراد بھی داخل ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔
پھر آخرت کے دوسرے فضل کا آغاز فرمایا اس میں رسول اللہ کو دلاسا دیا ہے اس کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا، ان مع العسر یسرا۔ یہ ایک اور چیز ہے اس کے ابتدا پر دلیل حروف عطف فائ، واؤ وغیرہ سے خالی ہونا ہے جو عطف پر دلالت کرتے ہیں یہ تمام مومنین کے لیے عام وعدہ ہے کوئی بھی اس سے خارج نہیں یعنی دنیا میں مومنوں کے لیے تنگی کے ساتھ آخر تمہیں لامحالہ آسانی ہوگی بعض اوقات دنیا اور آخرت کی آسانی جمع ہوجائے گی حدیث طیبہ میں ہے جو لن یغلب عسرہ یسرین سے مراد ایک تنگی دو آسانیوں کا پر ہرگز غالب نہیں آئے گی اگر غالب آئے بھی تو ایک پر غالب آئے گی وہ دنیا کی آسانی ہے جہاں تک کہ آخرت کا تعلق ہے وہ ہر صورت ہوکر رہے گی اس پر کوئی چیز غالب نہیں آسکتی یا یہ کہا جائے گا کہ عسر سے مراد اہل مکہ کا نبی کریم کو مکہ مکرہ سے نکالنا ہے اور یسر سے مراد فتح مکہ کے روز دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ میں عزت وشرف کے ساتھ داخل ہونا ہے۔
فاذا فرغت فانصب، والی ربک فارغب۔
اس میں دو مسئلے ہیں :
فرغت اور فانصب کا معنی مفہوم۔
مسئلہ نمبر 1۔ فاذا فرغت۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ نے کہا، جب آپ نماز سے فارغ ہوجائیں تو دعا میں مبالغہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کا سوال کریں، حضرت ابن مسعود نے فرمایا، جب آپ فرائض سے فارغ ہوں تورات کے قیام میں مصرورف ہوجائیں۔ کلبی نے کہا، جب آپ رسالت کی تبلیغ سے فارغ ہوں تو اپنے لیے مومنین اور مومنات کے لیے استغفار کریں۔ حسن اور قتادہ نے کہا، جب آپ اپنے دشمن کے ساتھ جہاد سے فارغ ہوں تو اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہوجائیں مجاہد نے کہا جب دنیا سے فارغ ہوجائیں تو اپنی نماز میں شروع ہوجائیں اس کی مثل حجرت حسن بصری سے مروی ہے حجرت جنید نے کہا، جب مخلوق کے معاملہ سے فارغ ہوں تو حق کی عبادت میں کوشش کی جائے۔ ابن عربی نے کہا جس نے اس آیت، فانصب، کو صاد کے کسرہ اور ابتدا میں ہمزہ قطعی کے ساتھ پڑھا تو وہ بدعتی ہے انہوں نے کہا، اس کا معنی ہے امام کو معین کیجئے جو آپ کا نائب ہو۔ یہ قرت میں باطل ہے معنی میں باطل ہے کیونکہ نبی کریم نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا۔ بعض جہلاء نے اسے فانصب، پڑھا ہے معنی ہے جب تو جہاد سے فارغ ہو تو اپنے شہر کی طرف لوٹنے میں جلدی کیجئے یہ بھی قرات کے اعتبار سے باطل ہے کیونکہ اجماع کے خلاف ہے لیکن اس کا معنی صحیح ہے کیونکہ رسول اللہ کا ارشاد ہے۔ السفر قطعۃ من العذاب یمنع احدکم نومہ، طعامہ وشرابہ فاذا قضی احدکم نھمتہ فلیعجل الرجوع الی اھلہ۔ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے وہ تمہیں نیند، کھانے اور مشروب سے روک دیتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنی حاجت سے فارغ ہو تو وہ اپنے گھر کی طرف لوٹنے میں جلدی کرے۔ لوگوں میں از روئے عذاب کے سب سے سخت اور ازروئے ٹھکانہ کے سب سے برا وہ ہوگا جو صحیح معنی لے اور اپنی جانب سے اس پر قرات یا حدیث سوار کردے وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ہے، اس کے رسول پر جھوٹ بولنے والا ہے، جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے۔
مہدوی نے کہا : ابوجعفر منصور سے مروی ہے کہ اس نے الم نشرح، حاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ بعید ہے کبھی اس کی تاویل نون خفیفہ کے ساتھ کی جاتی ہے پھر وقف میں نون کی الف سے بدل دیا پھر فصل کو وقف پر محمول کیا، پھر الف کو حذف کردیا گیا اس پر بطور دلیل یہ شعر پڑھا : اضرب عنک الھموم طارقھا، ضربک باسوط تونس الفرس۔ یہاں اضرب کو اضربین مراد لیا ہے ابوسمال سے مروی ہے، فاذافرغت یعنی راء کے نیچے کسرہ ہے یہ بھی اس میں لغت ہے اسے فرغب بھی پڑھا گیا ہے یعنی لوگوں کو اس امر کی طرف رغبت دلائیے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
مسجد میں کھیلنا اور اس کے احکام
مسئلہ نمبر 2۔ ابن عربی نے کہا، شریح سے یہ بات مروی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو عید کے روز کھیل رہے تھے شریح نے کہا، شارع نے اس کا توحکم نہیں دیا۔ اس میں (ان کے قول میں) اعتراض کی گنجائش ہے کیونکہ حبشی عید کے روز مسجد نبوی میں ڈھال اور برچھا کے ساتھ کھیلا کرتے تھے جبکہ نبی کریم انہیں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ کے گھر میں حضرت عائشہ صدیقہ کے ہاں داخل ہوئے جبکہ ان کے ہاں انصار کی بچیوں میں سے دوبچیاں گا رہی تھیں حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا، کیا رسول اللہ کے گھر میں شیطان کی مزمور (گیت) ہے ؟ رسول اللہ نے فرمایا، اے ابوبکر ان دونوں کو چھوڑ دو کیونکہ یہ یوم عید ہے اس میں اعمال کی کوشش سے برا کہنا لازم نہیں آتا بلکہ یہ مخلوق کے لیے مکروہ ہے۔