Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 73
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَیْئًا وَّ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَۚ
وَيَعْبُدُوْنَ : اور پرستش کرتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : اختیار نہیں لَهُمْ : ان کے لیے رِزْقًا : رزق مِّنَ : سے السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین شَيْئًا : کچھ وَّ : اور لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : نہ وہ قدرت رکھتے ہیں
اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کو آسمانوں اور زمین میں روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ (کسی اور طرح کا) مقدور رکھتے ہیں۔
73۔ 74۔ اوپر وحدانیت الٰہی کا ذکر فرما کر اب مشرکوں کو یوں قائل کیا کہ تم لوگ جو سوا اللہ کے غیروں کی عبادت کرتے ہو جن میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ تمہارے رزق کا کچھ انتظام کریں نہ آسمان میں ان کا اختیار کہ وہاں سے مینہ برسا سکیں نہ زمین میں ان کا کچھ تصرف ہے کہ اس میں غلہ پیدا کریں اور درخت اگائیں۔ عالم بالا اور عالم پستی میں کہیں بھی ان کا ذرہ برابر عمل دخل نہیں بلکہ خود انہی میں کوئی قدرت نہیں دوسرے کے محتاج ہیں خدا کی مخلوق ہیں اس لئے یہ عبادت کے ہرگز سزاوار نہیں۔ اطاعت اور بندگی تو خدائے وحدہ لا شریک کو زیبا ہے جو کل شئے کا خالق اور رازق ہے پھر فرمایا کہ اللہ کی مخلوق کو اس کا شبیہ نہ قرار دو کیونکہ وہ سب خدا کے بندے ہیں اور اس کی ملکیت اور اختیار میں ہیں صرف وہی اکیلا ہے جو کسی کے اختیار میں نہیں اس واسطے اس کا کوئی مثل نہیں مشرکین مکہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ جل جلالہ کا مرتبہ ایسا عالی ہے کہ ہم میں سے کسی کو اس کی عبادت کی مجال نہیں ہے اسی واسطے وہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جن لوگوں کی یہ بت مورتیں ہیں وہ اللہ کے خالص بندے ہیں ان کو خدا کے دربار میں تقرب حاصل ہے بارگاہ الٰہی میں یہ ہماری شفاعت کریں گے جس طرح چھوٹے آدمی دنیا میں بادشاہوں کے مصاحبوں کی خدمت کرتے ہیں اور وہ لوگ بادشاہوں کی خدمت بجا لاتے ہیں ہر شخص کا مقدر نہیں کہ بادشاہوں تک اس کی رسائی ہوجاوے تو انہی مصاحبوں کے وسیلے سے اللہ پاک نے اس عقیدے کو یوں غلط قرار دیا کہ تمہیں اس کا علم نہیں ہم جانتے ہیں خدا کے ہاں بھلا ان کو کیا تقرب حاصل ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو اس بت پرستی کے جرم میں پہلی امتوں پر طرح طرح کی آفتیں کیوں آتیں مکہ کے قحط کے تمہیں ان بتوں سے کچھ مدد کیوں نہ ملی۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت گزر چکی ہے 1 ؎ کہ ان بت پرستوں نے مرے ہوئے نیک لوگوں کی مورتیں بنالی ہیں انہیں مورتوں کی پوجا کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ نیک لوگ ان بت پرستوں کی سفارش کریں گے۔ سورت یونس میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن جب ان بت پرستوں کا ان نیک لوگوں سے آمنا سامنا ہوگا تو وہ نیک لوگ ان بت پرستوں سے اپنی بیزاری طاہر کریں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سورت یونس کی آیت وقال شرکاؤھم ما کنتم ایانا تعبدون (10: 28) اور سورت الانبیاء کی آیت یاویلنا قد کنا فی غفلۃ من ھذا (21: 97) اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی یہ حدیث اس آیت ان اللہ یعلم وانتم لا تعلمون کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اب تو ان لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جن نیک لوگوں کی مورتوں کی یہ پوجا کرتے ہیں وہ نیک لوگ اللہ سے ان بت پرستوں کی سفارش کریں گے لیکن جس قیامت کے یہ لوگ منکر ہیں اس دن کا حال ان کو معلوم نہیں اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس دن وہ نیک لوگ بجائے سفارش کے ان بت پرستوں سے بیزار ہوجاویں گے جس بیزاری کے بعد یہ بت پرست اپنے اس غلط اعتقاد پر بہت پچھتاویں گے اور اس وقت کا پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آوے گا۔ 1 ؎ جلدہذا ص 315۔ 337۔ 343۔
Top