Dure-Mansoor - An-Nahl : 73
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَیْئًا وَّ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَۚ
وَيَعْبُدُوْنَ : اور پرستش کرتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : اختیار نہیں لَهُمْ : ان کے لیے رِزْقًا : رزق مِّنَ : سے السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین شَيْئًا : کچھ وَّ : اور لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : نہ وہ قدرت رکھتے ہیں
اور وہ لوگ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں میں سے اور زمین میں سے انہیں رزق دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ انہیں قدرت ہے
1:۔ عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت ) ’ ’ ویعبدون من دون اللہ ما لا یملک لہم رزقا من السموت والارض “۔ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ بت ہیں کہ جن کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی تھی اور (یہ بت) نہیں مالک ہوتا اس شخص کے لئے جو اس کی عبادت کرتا ہے نہ نفع کا نہ نقصان کا نہ زندگی کا اور نہ دوبارہ اٹھنے کا۔ (آیت) ” فلا تضربوا للہ الامثال “ پس اللہ کی مثالیں بیان نہ کرو کیونکہ وہ ایک ہے اور بےنیاز ہے ” لم یلد، ولم یولد (3) ولم یکن لہ کفوا احد (4) “ (نہ کسی نے اس کو جنا اور نہ وہ جنم دیا گیا اور اس کا کوئی ہم سر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا بڑا گناہ ہے : 2:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فلا تضربوا للہ الامثال “ سے مراد ہے کہ انہوں نے بتوں کو خدا بنالیا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی کو خدا نہ بناؤ کیونکہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں۔ 3:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدمملوکا لایقدر علی شیء “ سے مراد ہے کافر ہے جو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا (آیت) ” ومن رزقنہ منا رزقا حسنا فھو ینفق منہ سرا وجھرا “ سے مراد مومن ہے اور یہ خرچ کرنے کی مثال ہے۔ 4:۔ عبدبن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدمملوکا “ یعنی یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے کافر کے لئے بیان فرمائی اللہ تعالیٰ نے اس کو مال دیا لیکن اس نے اسے کسی خیر میں خرچ نہ کیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ عمل نہیں کیا (آیت) ” ومن رزقنہ منا رزقا حسنا “ اس سے مراد وہ مومن ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور رزق حلال عطا فرمایا اور اس نے اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ عمل کیا اور شکر اور معرفت کے ساتھ اس نے اس کو حاصل کیا پس اللہ تعالیٰ نے اس کو اس عارضی رزق کو خرچ کرنے کی وجہ سے جنت کا دائمی رزق عطا فرمایا اس کے اہل و عیال کے لئے (پھر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ھل یستوین مثلا “ (کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں) نہیں اللہ کی قسم یہ دونوں (مومن اور کافر) برابر نہیں ہوسکتے۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدمملوکا لایقدر علی شیء ومن رزقنہ منا رزقا حسنا ” (آیت) ” رجلین احدھما ابکم “ (آیت) ” ومن یامر بالعدل “ یہ سب مثالیں ہیں سچے معبود کی اور جن کو یہ (کافر) پکارتے ہیں (اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر) وہ سب جھوٹے ہیں۔ کافر اور مومن کی مثال : 6:۔ ابن منذر نے ابن جریج کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدمملوکا لایقدر علی شیء “ یعنی اس سے وہ معبود مراد ہے جو نہیں مالک ہیں کہ نقصان کے اور نہ کسی نفع کے اور نہ کسی چیز پر قدرت رکھتے ہیں کہ ان کو نفع پہنچائیں (اور فرمایا) (آیت) ” ومن رزقنہ منا رزقا حسنا فھو ینفق منہ سرا وجھرا “ یعنی یہ مومن کی مثال ہے جو خرچ کرتا ہے اللہ کے لئے علانیہ بھی اور چھپے ہوئے بھی۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدمملوکا لایقدر علی شیء “ سے مراد ہے موت۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اعمال کے مطابق مثالوں کو بیان فرمایا ہے ہر نیک عمل کی ایک نیک مثال ہے اور ہر برے عمل کی بری مثال ہے اور فرمایا سمجھدار عالم کی مثال ایک راستہ کی ہے جو درخت اور پہاڑ کے درمیان ہے اور وہ سیدھا ہے کہ اس کی کوئی چیز ٹیڑھا نہیں کرتی اور یہ مثال ہے مومن بندے کی جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا۔ 9:۔ ابن جریر ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدمملوکا لایقدر علی شیء “ قریش کے ایک آدمی ہشام بن عمر اور اس کے غلام ابوالجوزاء کے بارے میں نازل ہوئی ہشام خرچ کرتا تھا اپنے مال کو چھپے ہوئے اور علانیہ اور اپنے غلام کو خرچ کرنے سے منع کرتا تھا۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ غلام کے لئے طلاق دینا جائز نہیں مگر اس کے آقا کی اجازت سے اور پھر یہ (آیت) ” عبدمملوکا لایقدر علی شیء “۔ 11:۔ بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اس غلام کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی چیز کا صدقہ کرتا ہے ؟ تو انہوں نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدمملوکا لایقدر علی شیء “ یعنی وہ کسی چیز کا صدقہ نہیں کرسکتا۔ 12:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا رجلین احدھما ابکم “ ‘ (آیت کے آخرت تک) کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد کافر ہے اور فرمایا (آیت) ” وھو کل علی مولہ “ (وہ وبال جان ہے اپنے مالک پر) اور وہ (مثال ہے) کافر کی اور (آیت) ” ومن یامر بالعدل “ سے مراد مومن ہے اور یہ مثال ہے اعمال کے بارے میں۔ 13:۔ ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت کہ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا رجلین احدھما ابکم “ دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ان میں سے ایک عثمان بن عفان ؓ ہیں کہ ان کا غلام کافر تھا اور وہ اسید بن ابی العیص تھا جو اسلام کو ناپسند کرتا تھا اور عثمان ؓ اس پر خرچ کرتے تھے اور اس کی کفالت فرماتے تھے اور غلام کو منع کرتا تھا صدقہ سے اور نیک کام سے ان دونوں کے بارے میں (یہ آیت) نازل ہوئی۔ 14:۔ ابن سعد ابن ابی شیبہ بخاری نے تاریخ میں ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور ضیاء نے مختارہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن یامر بالعدل “ سے مراد ہے عثمان بن عفان ؓ ۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ مثال اللہ تعالیٰ نے باطل معبودوں کے لئے بھی بیان فرمائی گونگے سے مراد ہے بت کیونکہ وہ گونگا ہوتا ہے بولتا نہیں (آیت) ” وھوکل علی مولہ “ کہ لوگ اس پر خرچ کرتے ہیں جو ان کے پاس آتے ہیں اور وہ (گونگا یعنی بت) ان پر خرچ نہیں کرتا اور انہ ان کو رزق دیتا ہے (آیت) ” ھل یستوی ھو ومن یامر بالعدل “ اور وہ اللہ تعالیٰ ہیں (کہ ان کو رزق دیتے ہیں اور ان پر خرچ کرتے ہیں) 16:۔ عبدالرزاق ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” احدھما ابکم “ سے مراد ہے بت (آیت) ” ھل یستوی ھو ومن یامر بالعدل “ اسے مراد ہیں اللہ تعالیٰ ۔ 17:۔ ابن ابی حاتم اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” کل “ سے مراد ہے عیال جب مشرکین کسی جگہ سے کوچ کرتے تھے تو اس بت کو ایک مطیع اونٹ پر لاد دیتے تھے پر بہت سے مشرک اس کے ساتھ چلتے تھے جو اس بت کو پکڑے رکھتے اس ڈر سے کہ وہ نیچے نہ گرجائے اور وہ بت نرا عذاب اور عیال (یعنی وبال) کا باعث ہوتا تھا (آیت) ” ھل یستوی ھو ومن یامر بالعدل، وھو علی صراط مستقیم “ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ 18۔ طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو خبر پڑھا۔ 19:۔ عبدالرزاق ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما امر الساعۃ الا کلمح البصر “ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) فرمائیں گے ہوجا یا اس بھی قریب قیامت (قائم) ہوجائے گی اور قیامت (اتنی جلدی قائم ہوگی) (آیت) ” کلمح البصر، وھو اقرب “ (آنکھ جھپکنے کی دیر یا اس سے بھی جلد) 20:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کلمح البصر “ یعنی آنکھ کا جھپکنا جلدی سے (آیت) ” اوھو اقرب “ یا اس سے زیادہ قریب جب ہم ارادہ کریں۔ 21:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما امر الساعۃ الا کلمح البصر، اوھو اقرب “ یعنی وہ زیادہ قریب ہے (کہ قیامت جلدی ہی واقع ہوجائے گی اور یہاں اوشک کے لئے نہیں ہے) اور قرآن میں اوجہاں بھی ہے اسی معنی میں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” الی مائۃ الف اویزیدون “ الصافات آیت 37) واللہ اعلم۔
Top