Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 106
اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕ
اِنَّ : بیشک فِيْ ھٰذَا : اس میں لَبَلٰغًا : پہنچا دینا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے عٰبِدِيْنَ : عبادت گزار (جمع)
عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں کی) تبلیغ ہے
106۔ 107:۔ اوپر ذکر تھا کہ پہلے لوح محفوظ میں اور اس کے بعد انبیاء پر جو کتابیں نازل کی گئی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے یہی لکھا ہے کہ جنت کی زمین کے وہی لوگ مالک اور وارث ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے ہیں ‘ ان آیتوں میں فرمایا ایسے لوگ آسمان و زمین سے اور آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ہزاروں نشانیوں سے اللہ تعالیٰ کو تو پہچان سکتے ہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی اور نامرضی کے کاموں کی تفصیل ان کو بغیر آسمانی کتاب کے نہیں معلوم ہوسکتی تھی اس واسطے خالص دل سے اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس قرآن شریف میں اپنی مرضی اور نامرضی کی سب باتیں کافی طور پر بتلا دی ہیں اور اے رسول اللہ کے تم کو جو اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے تو یہ جہاں بھر کے لوگوں کے حق میں اللہ کی رحمت ہے کیونکہ جو لوگ تمہاری فرمانبرداری ‘ قرآن کی نصیحت کے پابند رہیں گے ان کو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ حکومت و ثروت سب کچھ دے گا اور عقبیٰ میں ان کے نیک کاموں کے بدلہ میں ہمیشہ کے لیے اتنا بڑا عیش وعزت کا سامان ان کو عطا فرمادے گا جو ان کے وہم و گمان سے باہر ہوگا ‘ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت سے لے کر خلفائے عباسیہ کے عروج کے زمانہ تک دنیا کی جو کچھ حکومت و ثروت قرآن کی نصیحت کے پابند لوگوں میں رہی اس کا حال تاریخ الخلفاء کے دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے اس کے بعد کے لوگ قرآن کی نصیحت کے پابند نہ رہے اس واسطے وہ حکومت اور ثروت بھی نہ رہی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کے لیے جنت میں جو عیش و عشرت کا سامان پیدا کیا ہے وہ نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھا اور نہ کانوں سے سنا نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزر سکتا ہے اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ عقبیٰ میں جو عیش و عشرت کا سامان نیک بندوں کو ملے گا وہ انسان کے وہم و گمان سے باہر ہوگا۔ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ نے سرکشی سے جب عذاب کے نازل ہونے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی آیتیں نازل فرما کر یہ فرما دیا کہ اے رسول اللہ کے یہ اللہ کی ایک رحمت ہے کہ جب تک تم ان لوگوں میں موجود ہو اس وقت تک جس طرح پچھلی امتوں پر عام عذاب آئے اس طرح کا کوئی عام عذاب ان سرکش لوگوں پر نہ آئے گا جو لوگ اللہ کے رسول کے مخالف تھے ان کے حق میں بھی آپ کی موجودگی کا رحمت الٰہی ہونا سورة الانفال کی آیتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے ‘ سورة الانفال کی آیتوں کی جو شان نزول اوپر بیان کی گئی وہ صحیح بخاری میں انس بن مالک کی روایت سے آئی ہے اس لیے یہ شان نزول بہت صحیح ہے۔
Top