Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 106
اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕ
اِنَّ : بیشک فِيْ ھٰذَا : اس میں لَبَلٰغًا : پہنچا دینا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے عٰبِدِيْنَ : عبادت گزار (جمع)
اس میں مطلب کو پہنچتے ہیں لوگ بندگی والے
خلاصہ تفسیر
بلاشبہ اس (قرآن یا اس کے جز، یعنی سورت مذکورہ) میں کافی مضمون ہے ان لوگوں کے لئے جو عبادت کرنے والے ہیں (اور جو عبادت اور اطاعت سے سرکشی کرنے والے ہیں یہ ہدایت تو ان کے لئے بھی ہے مگر ان میں ہدایت کی طلب نہیں، اس لئے اس کے فائدے سے محروم ہیں) اور ہم نے آپ کو کسی اور بات کے واسطے (رسول بنا کر) نہیں بھیجا مگر دنیا جہان کے لوگوں پر (اپنی) مہربانی کرنے کے لئے (وہ مہربانی یہی ہے کہ لوگ رسول سے ان مضامین کو قبول کریں اور ہدایت کے ثمرات حاصل کریں اور جو قبول نہ کرے وہ اس کا قصور ہے اس سے اس مضمون کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا) آپ ان لوگوں سے (بطور خلاصہ کلام کے مکرر) فرما دیجئے کہ میرے پاس تو (موحدین اور مشرکین کے باہمی اختلاف کے بارے میں) صرف یہ وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو (اس کی حقانیت ثابت ہوجانے کے بعد) اب بھی تم مانتے ہو (یا نہیں یعنی اب تو مان لو) پھر بھی اگر یہ لوگ (اس کے قبول کرنے سے) سرتابی کریں تو آپ (بطور اتمام حجت کے) فرما دیجئے کہ میں تم کو نہایت واضح اطلاع کرچکا ہوں (جس میں ذرہ برابر خفاء پوشیدگی نہیں رہی توحید اور حقانیت اسلام کی اطلاع بھی اور اس کے انکار پر جو سزا ملے گی وہ بھی صاف صاف بیان ہوچکی ہے اب نہ مجھ پر تبلیغ حق کی کوئی ذمہ داری باقی رہی نہ تمہارا کوئی عذر باقی رہا) اور اگر (اس کے حق ہونے میں تم کو اس وجہ سے شبہ ہو کہ جو سزا بتلائی گئی ہے وہ مل کیوں نہیں جاتی تو سمجھ لو کہ سزا کا ملنا تو یقینی ہے مگر) میں یہ نہیں جانتا کہ جس (سزا) کا تم سے وعدہ ہوا ہے آیا وہ قریب (واقع ہونے والی ہے) یا دور دراز (زمانے میں واقع ہونے والی) ہے (البتہ اس کا واقع ہونا ضروری ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ کو (تمہاری) پکار کر کہی ہوئی بات کی بھی خبر ہے اور جو تم دل میں رکھتے ہو اس کی بھی خبر ہے اور (تاخیر عذاب سے اس کے واقع نہ ہونے کے دھوکے میں نہ رہنا یہ تاخیر کسی مصلحت و حکمت سے ہو رہی ہے) میں نہیں جانتا (کہ وہ مصلحت کیا ہے ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ) شاید (یہ تاخیر عذاب) تمہارے لئے امتحان ہو (کہ شاید متنبہ ہو کر ایمان لے آویں) اور ایک وقت (محدود یعنی موت کے وقت) فائدہ پہنچانا ہو (کہ خوب غفلت بڑھے اور عذاب بڑھتا چلا جائے۔ پہلا معاملہ یعنی امتحان رحمت ہے اور دوسرا معاملہ یعنی عمر دراز اور اس کی سہولتیں دینا یہ عقوبت و سزا ہے، اور جب ان سب مضامین سے ہدایت نہ ہوئی تو) پیغمبر ﷺ نے (باذن الٰہی) کہا کہ اے میرے رب (ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان) فیصلہ کر دیجئے (جو کہ ہمیشہ) حق کے موافق (ہوا کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ عملی فیصلہ فرما دیجئے کہ مسلمانوں سے جو فتح و نصرت کے وعدے ہیں وہ واقع کر دیجئے تاکہ ان پر اور زیادہ حجت تمام ہوجائے) اور (رسول اللہ ﷺ نے کفار سے یہ بھی فرمایا کہ) ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے ان باتوں کے مقابلے میں مدد چاہی جائے جو تم بنایا کرتے ہو (کہ مسلمان جلد نیست و نابود ہوجاویں گے یعنی ہم اسی مہربان رب سے تمہارے مقابلہ میں مدد چاہتے ہیں)۔
Top