Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 106
اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕ
اِنَّ : بیشک فِيْ ھٰذَا : اس میں لَبَلٰغًا : پہنچا دینا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے عٰبِدِيْنَ : عبادت گزار (جمع)
عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں کی) تبلیغ ہے
خاتمہ سورت بر اتمام حجت بہ تنزیل کتاب ہدایت و بعثت رسول رحمت ﷺ قال اللہ تعالیٰ ان فی ھذا لبلاغا لقوم عابدین .... الیٰ .... وربنا الرحمن المستعان علی ما تصفون۔ (ربط) یہ سورت کا خاتمہ ہے جس میں یہ بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے لیے یہ قرآن نازل کیا اور ایسے نبی کو تمہارے لئے مبعوث کیا جو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے جس کے اتباع کی برکت سے تم کو دینی اور دنیوی نعمت اور سعادت اور زمین کی وراثت اور بادشاہت میسر آئی۔ اللہ نے تم پر حجت پوری کردی۔ نبی کے ذمہ صرف تبلیغ ہے سو وہ آپ کرچکے اب رہ گیا کہ قیامت اور حساب و کتاب کا وقت کب آئے گا جس کے متعلق یہ اہل غفلت اور معترضین آپ ﷺ سے سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ وعدہ حساب و کتاب قریب ہے یا بعید ہے، خدا ہی اس کو خوب جانتا ہے میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاید عذاب کی تاخیر تمہارے لیے آزمائش اور چند روزہ تمتع اور مہلت ہو۔ (واللہ اعلم) شروع سورت میں بھی قرب قیامت اور حساب آخرت کا ذکر تھا اور سعرت کے اخیر میں بھی یہی مضمون ذکر فرمایا اور اسی مضمون پر سورت کو ختم فرمایا۔ اس طرح خاتمہ سورت کو ابتداء سورت کے ساتھ غایت درجہ مناسبت ہوگئی۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق اس قرآن میں جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا جو وعدہ اور وعید اور حکمت و موعظت پر مشتمل ہے۔ عبادت گزاروں کے لیے کفایت ہے کہ اس کے ذریعہ دینی اور دنیوی سعادت حاصل کرسکتے ہیں اور یہ قرآن مسافران آخرت کے لیے کافر اور شافی زادراہ ہے جو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے کافی ہے عابدین سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مقصود زندگی ہی بندگی اور اطاعت ہے۔ اور جس طرح ہم نے اس قرآن کو ہدایت اور رحمت کے لیے نازل کیا ہے اسی طرح اے نبی ہم نے تجھ کو بھیجا ہے تو دنیا جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے کہ آپ ﷺ نے خدا کا راستہ بتلایا اور حلال و حرام کی تفصیل کی اور اخلاق کاملہ اور آداب فاضلہ کی تعلیم کی اور آپ ﷺ کے اتباع کی برکت سے آپ ﷺ کی امت کو وراثت زمین اور فرمانروائی کا پروانہ ملا اور آپ کی برکت سے خسف اور مسخ اور قذف کا عذاب استیصال اٹھالیا گیا۔ جو گزشتہ امتوں پر دنیا میں نازل ہوا اور اس وجہ سے حدیث میں آیا ہے انما انا رحمۃ مھداۃ یعنی جزایں نیست کہ میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدیہ رحمت ہوں اور قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی شفاعت کبریٰ اور خاص کر گناہ گاران امت کے لیے آپ کی شفاعت یہ بھی اس رحمت عامہ کا ایک فرد ہے۔ نظم عاصیان پر گنہ در دامن آخر فرماں دست در دامان تو دانو جان در آستیں ناامید از مغفرت بانصرتت نتواں شدن چوں توئی در ہر دو عالم رحمت للعالمین اے نبی آپ ان مشرکین سے کہہ دیجئے کہ میری طرف تو بس یہی وحی نازل کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے میری بعثت کا مقصد اول بھی توحید ہے۔ پس کیا تم اس کا حکم مانتے ہو یعنی توحید اور اخلاص کی جو وحی میری طرف آتی ہو اس کو مانو پھر اگر وہ اس کے ماننے سے منہ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ میں نے تم کو صاف طور پر خبردار کردیا ہے کہ اس کے جاننے میں ہم اور تم سب برابر ہوئے۔ واضح طور پر سب کو اس کی اطلاع دے دی گئی۔ اور میں نہیں جانتا کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے اس کا وقوع قریب ہے یا کچھ دور ہے اور وعدہ سے قیامت اور حشر کا وعدہ مراد ہے یا اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا وعدہ مراد ہے۔ بیشک اللہ خوب جانتا ہے آشکارا بات کو۔ اور اس بات کو بھی خوب جانتا ہے جو تم سینوں میں چھپاتے ہو اس کو تمہارا چھپا اور کھلا حال سب معلوم ہے۔ اور میں نہیں جانتا شاید اس وعدہ کی تاخیر تمہارے لیے آزمائش ہو اور شاید تمہارے لیے ایک وقت معین تک مہلت ہو کہ ممکن ہے کہ تم اس مہلت سے کچھ فائدہ اٹھا لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو فوراً نہیں پکڑا۔ بہرحال اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس تاخیر میں کیا مصلحت ہے بعد ازاں رسول نے بحکم خداوندی یہ دعا کی کہ اے میرے پروردگار میرے اور میرے جھٹلانے والوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر دیجئے یعنی حق کو باطل پر اور صادق کو کاذب پر فتح اور غلبہ دیکر فیصلہ کر دیجئے جیسا کہ حق تعالیٰ نے انبیاء کی یہ دعا نقل کی ہے۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی چناچہ حق تعالیٰ نے بدر کے دن فیصلہ کردیا اور ہمارا پروردگار بڑا مہربان ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے ان باتوں کے مقابلے میں جو تم کہتے ہو جیسا کہ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ دین حق ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا وہ کہتے تھے کہ اسلام تو عنقریب ختم ہوجائے گا اور کبھی کہتے کہ یہ شخص تو ساحر ہے یا شاعر ہے یا مجنون ہے۔ کفار کی اس قسم کی باتوں کے بارے میں آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی مدد فرمائی اور اپنی رحمت اور عنایت سے آپ ﷺ کو غلبہ عطا فرمایا۔ مراد خویش زدوگاہ بادشاہی خواہ کہ ہیچ کس نشودنا امید زاں درگاہ الحمدللہ بوقت نماز صبح 10 ذی الحجۃ الحرام یوم یکشنبہ سنہ 1390 ھ سورة انبیاء کی تفسیر سے فراغت پائی۔ فللک الحمد اولا واخرا۔
Top