Bayan-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 166
فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب عَتَوْا : سرکشی کرنے لگے عَنْ : سے مَّا نُهُوْا : جس سے منع کیے گئے تھے عَنْهُ : اس سے قُلْنَا : ہم نے حکم دیا لَهُمْ : ان کو كُوْنُوْا : ہوجاؤ قِرَدَةً : بندر خٰسِئِيْنَ : ذلیل و خوار
توجب وہ بہت بڑھ گئے اس میں جس سے ان کو روکا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہہ دیا کہ جاؤ ذلیل بندر بن جاؤ !
آیت 166 فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُہُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ آخر کار ان پر عذاب اس صورت میں آیا کہ ان کی انسانی شکلیں مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا اور پھر انہیں ہلاک کردیا گیا۔ یہ اس واقعہ کی تفصیل ہے جس کا اجمالی ذکر سورة البقرۃ اور سورة المائدۃ میں بھی آچکا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عذاب ان گروہوں میں سے صرف اس گروہ پر آیا تھا جو گناہ میں براہ راست ملوث تھا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نہی عن المنکر کرنے والے لوگوں کے بارے میں واضح طور پر بتادیا گیا : اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ کہ ہم نے ان کو بچالیا جو بدی سے روک رہے تھے اور جو گناہگار تھے ان کے بارے میں بھی صراحت سے بتادیا گیا : وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَءِیْسٍم کہ ہم نے پکڑ لیا ان لوگوں کو جو گناہ میں ملوث تھے ایک بہت ہی برے عذاب میں۔ جب کہ تیسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کوئی شخص براہ راست کسی گناہ کا ارتکاب کرنے سے بچا رہتا ہے تو فریضہ نہی عن المنکر میں کوتاہی ہونے کی صورت میں بھی وہ دنیا میں اس گناہ کی پاداش میں آنے والے عذاب سے بچ جائے گا۔ یہ نظریہ در اصل بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے اور اس کے پیچھے وہ انسانی نفسیات کار فرما ہے جس کے تحت انسان ذمہ داری سے فرار چاہتا ہے اور پھر اس کے لیے دلیلیں ڈھونڈتا اور بہانے تراشتا ہے۔ اسی طرح کی بات کا تذکرہ سورة المائدۃ کی آیت 105 کی تشریح کے ضمن میں بھی ہوچکا ہے۔ اس آیت کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق رض کو خصوصی خطبہ ارشاد فرمانا پڑا تھا کہ لوگو ! تم عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْج لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ط کا بالکل غلط مفہوم سمجھ رہے ہو۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دعوت و تبلیغ ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ‘ بلکہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ تم اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرو ‘ اپنا فرض ادا کرو ‘ لیکن اس کے باوجود بھی اگر لوگ کفر یا گناہ پر اڑے رہیں تو پھر ان کا وبال تم پر نہیں ہوگا۔ یہاں اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ نہی عن المنکر نص قرآنی کے مطابق فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس ماحول میں اللہ تعالیٰ کے کسی واضح حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہو تو ان حالات میں گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو نہ روکنا ‘ نہی عن المنکر کا فرض ادانہ کرنا ‘ بذات خود ایک جرم ہے۔ لہٰذا اس واقعہ میں اَلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا کے زمرے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اگرچہ براہ راست تو گناہ میں ملوث نہیں تھے ‘ لیکن مجرموں کو گناہ کرتے ہوئے دیکھ کر خاموش تھے۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کی نافرمانی سے لوگوں کو نہ روکنے کے جرم کے مرتکب ہو رہے تھے۔ اس ضمن میں نص قطعی کے طور پر ایک حدیث قدسی بھی موجود ہے اور ایک بہت واضح قرآنی حکم بھی۔ پہلے حدیث ملاحظہ فرمائیں ‘ یہ حدیث مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے مرتب کردہ خطبات جمعہ میں شامل کی ہے۔ حضرت جابر رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا۔ قَالَ : یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلاَناً لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ قَالَ : فَقَالَ : اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَ عَلَیْہِمْ ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتََمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ 1 اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو وحی کی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں پر الٹ دو۔ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ‘ اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی دیر بھی تیری معصیت میں نہیں گزاری۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الٹو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر ‘ اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی میری غیرت کی وجہ سے متغیر نہیں ہوا۔ یعنی اس کے سامنے میرے احکام پامال ہوتے رہے ‘ شریعت کی دھجیاں بکھرتی رہیں اور یہ اپنی ذاتی پرہیزگاری کو سنبھال کر ذکر اذکار ‘ نوافل اور مراقبوں میں مصروف رہا۔ یہ دوسروں سے بڑھ کر مجرم ہے ! اب اس سلسلے میں نص قرآنی کے طور پر سورة الانفال کی آیت 25 کا یہ واضح حکم بھی ملاحظہ کرلیجئے : وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج اور ڈرو اس فتنہ عذاب سے جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہیں ہوگا جو تم میں سے گنہگار ہیں۔ یعنی جب کسی قوم میں بحیثیت مجموعی منکرات پھیل جائیں اور اس وجہ سے ان کے لیے اس دنیا میں کسی اجتماعی سزا کا فیصلہ ہوجائے تو پھر ایسی سزا کی لپیٹ میں صرف گنہگار لوگ ہی نہیں آئیں گے۔ اس لحاظ سے یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ مگر آیت زیر مطالعہ میں اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ کے الفاظ میں امید دلائی گئی ہے کہ جو لوگ اپنی استطاعت کے مطابق ‘ آخری وقت تک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں بچا لے گا۔
Top