Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 57
وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا١ؕ اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ نَّتَّبِعِ : اگر ہم پیروی کریں الْهُدٰى : ہدایت مَعَكَ : تمہارے ساتھ نُتَخَطَّفْ : ہم اچک لیے جائیں گے مِنْ اَرْضِنَا : اپنی سرزمین سے اَوَ : کیا لَمْ نُمَكِّنْ : نہیں دیا ٹھکانہ ہم نے لَّهُمْ : انہیں حَرَمًا اٰمِنًا : حرمت والا مقام امن يُّجْبٰٓى : کھنچے چلے آتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف ثَمَرٰتُ : پھل كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے (قسم) رِّزْقًا : بطور رزق مِّنْ لَّدُنَّا : ہماری طرف سے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں (اور یہ) رزق ہماری طرف سے ہے ؟ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے
57 تا 60۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کا یہ قول بیان فرمایا تھا جس کو وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے عذر میں پیش کرتے تھے کہ ہم نبی آخر الزمان پر ایمان لاویں گے تو مکہ کے گردو نواح کی بستیوں کے لوگ مخالفت دینی اور مذہبی کے پیدا ہوجانے کے سبب سے بڑی مخالفت اور دشمنی سے ہمارے ساتھ پیش آنے لگیں گے جس سے ہماری راحت اور ہمارے امن میں بڑا فتور پڑجاوے گا ایک جواب تو اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے اس عذر کا اوپر فرمایا تھا جس کا حاصل یہ تھا کہ ان لوگوں کی یہ نادانی ہے جو مکہ کے امن کو یہ لوگ اپنی تدبیر کا نتیجہ خیال کرتے ہیں ان کی تدبیر سے کچھ مکہ میں امن نہیں ہے بلکہ اللہ کے حکم سے آدمیوں اور جانوروں کو اللہ کے گھر میں امن حاصل ہوا ہے ان آیتوں میں اہل مکہ کی اس بات کا یہ دوسرا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے گردونواح کی بستیوں کے لوگوں سے ڈر کر اگر یہ اہل مکہ ایمان نہ لاویں گے تو یہ خیال ان کا غلط ہے کہ پھر یہ امن سے بیٹھے رہیں گے بلکہ ان کے ایمان نہ لانے سے اللہ اور اللہ کے رسول کو ان سے مخالفت پیدا ہوجاوے گی اور ملک شام اور مدینہ کے راستہ میں بہت سی بستیاں انہوں نے اس طرح کے اللہ اور اللہ کہ رسولوں کے نافرمان لوگوں کی ویران پڑی ہوئی دیکھی ہیں یہ یاد رکھیں کہ ان کا بھی یہی آخر انجام ہونے والا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ وہ جو لوگ غارت ہوگئے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہلاک کرنے سے پہلے اپنے رسول بھیج کر سمجھا دیا تھا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے اسی طرح ان اہل مکہ کے پاس بھی اللہ نے اپنا رسول بھیجا ہے اور ان پر طرح طرح کے احکام نازل کئے جاتے ہیں اور ہر طرح سے ان اہل مکہ کو سمجھا دیا جاتا ہے سمجھے کا وقت ابھی باقی ہے پھر اللہ کی نافرمانی کے سبب سے جب اللہ کا عذاب آجائے گا تو دنیا کا یہ چند روزہ عیش و آرام جدا ہاتھ سے جاتا رہے گا اور ایسے عذاب آخرت میں جدا پکڑے جاویں گے جس عذاب کی سختی کے سبب سے یہ دنیا کا چند روزہ عیش و آرام ان کو یاد بھی نہ رہے گا پھر یوں سمجھایا ہے کہ جس دنیا کے عیش و آرام اور امن کے قائم رہنے کے لیے یہ لوگ گردونواح کی بستیوں کے لوگوں کو اپنا دشمن بنانا نہیں چاہتے اور اس عذر سے یہ لوگ رسول وقت پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ان لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ بڑے بڑے عیش و آرام کے بندے جو ان سے پہلے تھے۔ وہ آخر کہاں گئے ؟ کیا ان میں کوئی ہمیشہ رہ کر عیش و آرام کرنے والا ہے پھر جو چیز آخر ہاتھ سے جانے والی ہے اس کی حفاظت کوئی کہاں تک کرے گا ایسی جانے والے چیز آج نہ گئی کل جاوے گی غرض ایسے ہاتھ سے جانے والے عیش و آرام کے پیچھے یہ لوگ اپنے اس ہمیشہ کے عیش و آرام کو جو خاک میں ملاتیں ہیں جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی فرماں برداروں کے لیے فرمایا ہے تو یہ بالکل ان کی نادانی اور کم عقلی کی بات ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں قریش کو سمجھایا ہے اسی کی تفسیر آنحضرت ﷺ نے شداو ؓ بن اوس کی معتبر روایت میں فرمائی جس کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے یہ حدیث اوپر گذر چکی 1 ؎ ہے یہاں بھی اس حدیث کا حاصل مطلب بیان کیا جاتا ہے تاکہ قرآن شریف کی تفسیر صحیح حدیث سے ہوجاوے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں عقلمنددہ شخص ہے جو اپنے نفس کو خواہش دنیوی سے روکے اور کہ دنیا میں رہ کر ایسے کام کرے جو عاقبت میں اس کے کام آویں اور بیوقوف وہ شخص ہے جو دنیا میں عقبیٰ سے بیخبر اور غافل رہے اور پھر عاقبت میں بھلائی کی توقع رکھے صحیح مسلم کے حوالہ سے انس ؓ بن مالک کی روایت ایک 2 ؎ جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخ کے پہلے جھونکے کے بعد اللہ کے فرشتے دنیا کے بڑے بڑے عیش و آرام والوں سے پوچھیں گے کہ جس عیش و آرام دنیوی کے غفلت میں تم اس عذاب سے بےفکر رہے اس عذاب کے آگے وہ عیش و آرام تم کو کچھ یاد ہے تو وہ قسمیں کھا کھا کر جواب دیویں گے کہ نہیں۔ اسی طرح جنت میں داخل ہوتے ہی جنتیوں سے پوچھیں گے کہ دنیا میں تنگ دستی کے صبر کے اجر میں تم نے جنت کا عیش و آرام پایا اس عیش و آرام کے آگے تم کو دنیا کی اس تنگ دستی کی تکلیف کچھ یاد ہے تو وہ بھی قسمیں کھا کھا کر کہویں گے کہ کہ نہیں اس حدیث کو ان آیتوں کو تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی جس راحت کے جاتے رہنے کے خوف سے یہ لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی مخالفت پر آمادہ ہیں اور مکہ کے گرد و نواح کے رہنے والے مشرکوں سے ڈر کر اس مخالفت کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور انہوں نے اپنے نزدیک اس مخالفت پر آمادہ رہنے کے سبب سے مکہ میں آرام سے بیٹھنے کی راحت جو پیدا کی ہے اوس راحت کی غفلت میں اسلام اور تنگ دست اہل اسلام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں قیامت کے دن اس مخالفت کی سزا میں جب یہ لوگ پکڑے جاویں گے تو اس عقبیٰ کے عذاب کے آگے انکو یہ دنیا کی چند روزہ راحت یاد بھی نہ رہے گی اسی طرح اپنی راحت کے آگے یہ عیش کے بندے جن تنگ دست اہل اسلام کو حقیر جانتے ہیں جب ان تنگ دست اہل اسلام کو جنت کی ہمیشہ کی راحت ملے گی تو وہ اپنی دنیا کی تنگ دستی کی تکلیف کو بالکل بھول جاویں گے۔ (1 ؎ بحوالہ مشکوۃ 451 باب استحباب المال والعمر للطاعۃ۔ فصل دوسرا۔ ) (2 ؎ بحوالہ مشکوۃ باب صفہ النار واہلہا۔ )
Top