Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 57
وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا١ؕ اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ نَّتَّبِعِ : اگر ہم پیروی کریں الْهُدٰى : ہدایت مَعَكَ : تمہارے ساتھ نُتَخَطَّفْ : ہم اچک لیے جائیں گے مِنْ اَرْضِنَا : اپنی سرزمین سے اَوَ : کیا لَمْ نُمَكِّنْ : نہیں دیا ٹھکانہ ہم نے لَّهُمْ : انہیں حَرَمًا اٰمِنًا : حرمت والا مقام امن يُّجْبٰٓى : کھنچے چلے آتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف ثَمَرٰتُ : پھل كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے (قسم) رِّزْقًا : بطور رزق مِّنْ لَّدُنَّا : ہماری طرف سے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور (یہ لوگ) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت پر آجائیں تو ہم اپنی سر زمین سے نکال باہر کیے جائیں کیا ہم نے ان کو امن وامان والے حرم میں جگہ نہیں دی ؟ جہاں ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں ، یہ رزق تو ہماری طرف سے ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر سمجھ ہی نہیں رکھتے
قریش مکہ ایک اعتراض اور اس کا دندان شکن جواب : 57۔ نبی کریم کے زمانے میں بھی مختلف طرح کے معترضین تھے اور جو کسی کے منہ میں آتا تھا کہہ دیتا تھا ‘ قریش کے بعض سرداروں کو یہ اعتراض تھا کہ باتیں تو آپ کی سچی ہیں اور ان کا جواب بھی ہم سے نہیں بن پڑتا لیکن دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر بھی تو کوئی عقل مندی نہیں ہے ذرا آپ یہ بھی تو سوچیں کہ ہمارے اردگرد بسنے والے سارے قبیلے بھی تو آخر کوئی دین رکھتے ہیں وہ کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ بقول آپ کے اگر ہم مشرک ہیں تو وہ بھی مشرک ہیں کیونکہ ان کا اور ہمارا ایک ہی دین اور ایک ہی مشرب ہے اگر ہم آپ کا دین قبول کرلیں تو وہ اکٹھے ہو کر ہم پر چڑھائی کردیں گے اور ہمیں اس سرزمین سے اس طرح اچک کرلیں جائیں گے جس طرح چیل مرغی کے بچے کو لے اڑتی ہے ہم اپنی بقا اور سلامتی کے لئے مجبور ہیں کہ اپنے پرانی دین و مذہب پر چلتے رہیں اور اتنا بڑا خطرہ مول نہ لیں ۔ اس لئے ہمارے خیال میں آپ کا لایا ہوا دین قبول کرنا ہماری قومی مصلحت کے بھی خلاف ہے اپنے باپ دادا کے دین کے بھی خلاف ہے اور اپنے اردگرد بسنے والی ساری قوموں اور قبیلوں کے بھی خلاف ہے لہذا آپ مہربانی کر کے اس دین کو پرچار بند کردیں اور اپنی قوم کو اتنے بڑے خطرہ سے دوچار نہ کریں ۔ ایسے معترضین کو اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی طرف سے جواب سنایا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ان مصلحین زمانہ پوچھو کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ بیت اللہ جس کو تم کعبہ بھی کہتے ہو کہ اس کا پاسبان تم کو کس نے بنایا ہے ؟ اور کس نے تم کو یہ اتنا بڑا شرف بخشا ہے کہ پوری دنیا سے لوگ اس کی طرف کھچے چلے آتے ہیں ؟ تم سمجھو یا نہ سمجھو یہ اسی اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا فضل و کرم ہے کیونکہ اسی نے ابراہیم جیسے جلیل القدر رسول کو مبعوث کیا جس نے اس منہدم شدہ بیت اللہ کو تمہارے لئے تعمیر کیا اور اس کی تولیت تم کو بخشی اور اس حرم کے احترام کی وجہ سے کوئی تم پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا اور صرف یہی نہیں بلکہ اگر کسی بدبخت کی نیت خراب بھی ہوجائے تو وہ غیب سے اس طرح کا سامان پید اکر دیتا ہے کہ وہ تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے اس زمین سے بھگا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ اپنے باپ کے قاتل کو بھی اس جگہ دیکھ کر آنکھ پھیر لیتے ہیں اور اس رب کریم نے مجھے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا ہے کسی کی کیا مجال کہ اگر تم اسلام قبول کرلو اور تم پر حملہ کرکے تمہاری تکا بوٹی کردے یہ تمہارا فرضی توہم ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں ہے میں تم سے کہتا ہوں کہ دوسرے قبائل جو تمہارے اردگرد بستے ہیں وہ تو اس انتظار میں ہیں کہ تم اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو اگر تم آج اسلام قبول کرلو تو سورج غروب ہونے سے پہلے فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوجائیں بلاشبہ تمہارا یہ کہنا ایک عذر لنگ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، پھر تم کو یہ کس نے پڑھنت پڑھائی ہے ؟ بلاشبہ یہ شیطان کا خدشہ ہے کہ اسلام لانے کی صورت میں تمہارے اردگرد کے قبائل تمہارا اقتصادی بائیکاٹ کردیں گے حالانکہ اس میں ذرا بھر بھی حقیقت نہیں ذرا غور کرو کہ مکہ اور اس کے گردو نواح میں تو ریگستان ہی ریگستان اور پہاڑہی پہاڑ ہیں اس جگہ تو معمولی کھیتی باڑی بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کے پھلوں سے تمہارے بازار بھرے پڑے ہیں اور تمہاری منڈیوں میں اجناس کی کوئی کمی موجود نہیں اس حرم کے زیر سایہ جو امن و عافیت تمہیں حاصل ہے اور جس کثرت سے پھل تمہاری طرف کھچے چلے آتے ہیں اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی تم خود سوچو کہ اگر کفر کی حالت میں تم کو اللہ رب العزت نے اپنی عنایات سے محروم نہیں کیا تو اگر تم اسلام لاؤ گے تو کیا اس کی رحمت یہ گوارا کرے گی کہ لوگ تم پر ایک ہی بار چڑھائی کرکے تباہ وبرباد کردیں یا تم پر رزق کے دروازے بند ہو کر رہ جائیں مکہ والے اس وقت کیا تھے ؟ ظاہر ہے کہ وہ کافر تھے پھر اس وقت کے کافروں کو جو خدشہ اسلام لانے کے باعث لاحق تھا کیا آج ساری اسلامی مملکتوں کو وہی خدشہ لاحق نہیں ؟ اگر ہے اور فی الواقع ہے تو ان کے کفر اور ہمارے اسلام میں فرق کیا ہے ؟ کیا ان وقت جہاں ان کا کفر ختم ہوتا تھا آج ہمارا اسلام وہاں سے شروع ہوتا ہے ؟ آج دنیا میں مسلمان کہلانے والوں کی تعداد کتنی ہے ؟ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جتنی تعداد ساری غیر مسلم قوموں کی ہے ان سے بہرحال زیادہ ہے آج تو ہم مٹتے مٹتے بھی کبھی جا کر مٹیں گے پھر ہم یقینا اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ وہ ہم کو مار کر خود زندہ رہیں گے یا رہ سکیں گے ؟ ہرگز نہیں اور حاشاء وکلا نہیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ جہاں جہاں وہ ہیں وہاں وہاں ہم بھی ہیں اور جہاں ہم ہیں وہ بھی پھر دنیا میں کوئی ایسا اسلحہ نہیں ہے اور نہ ہی یقینا ایسا اسلحہ تیار ہوگا کہ جہاں جہاں ہم ہیں وہ اسلحہ ہم کو مار دے گا اور وہ اس اسلحہ کی زد سے نکل جائیں گے ، پھر اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارے پاس بلاشبہ وہ طاقت وقوت بھی ہے جس کا مقابلہ آج تک کوئی طاقت وقوت نہ کرسکی اور رہتی دنیا تک کوئی طاقت وقوت بھی نہیں کرسکے گی لیکن ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اپنا تشخص قائم نہیں کر رہے اور خوف ہمیں کھائے جا رہا ہے جو اس وقت مکہ کے کافروں کو کھائے جا رہا تھا ، کیا آج رزق اللہ کے ہاتھ سے نکل کر غیروں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے ؟ کیا قرآن کریم کا یہ اعلان نعوذ باللہ صحیح نہیں کہ (آیت) ” رزقا من لدنا “۔ رزق ہماری طرف سے ہے ان کافروں کو تو یہ یقین دلایا گیا کہ ہرچیز کی فراوانی میں تمہاری کی تدبیر اور منصوبہ بندی کا کوئی دخل نہیں اگر ابراہیم کو اس جگہ کعبہ بنانے کا حکم ہی نہ دیا جاتا بلکہ کوئی اور جگہ منتخب کی جاتی یا اولاد اسمعیل کو اس کی خدمت پر مقرر نہ کیا جاتا تو کیا یہ مرکزیت ‘ یہ امن و عافیت ‘ یہ معاشی خوش حالی جو آج تم کو نصیب ہے تمہیں میسر ہوتی ؟ ہرگز نہیں یہ سب کچھ ہم نے بہم پہنچایا ہے اور تم پر لازم ہے کہ ہماری بات مانو اور اس دین رشد وہدایت کو کسی مزید تذبذب کے بغیر قبول کرلو اور قرآن کریم نے اس طرح کی جو بات اس وقت ان کفار مکہ کو کہی تھی آج وہ ہم کو کہہ رہا ہے کاش کہ ہمارے حکمران وعوام اور مذہبی پیشوا اور سیاسی راہنم اس بھی کان کھولیں اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں لیکن اکثر لوگ آج بھی اپنے خود ساختہ اندیشوں میں گھلے جا رہے ہیں اور یہ حقیقت انکی آنکھوں سے مستور ہی رہتی ہے کہ عزت و عافیت بخشنے والا ‘ پاکیزہ اور فراخ رزق عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور بلاشبہ وہی ہے واللہ تم تاللہ نہ امریکہ والے ہیں اور نہ لندن وفرانس والے نہ جرمنی والے ہیں اور نہ چین وروس کے بسنے والے ۔ اللہ کرے کہ ہم مسلمانوں کو یہ یقین آجائے اور ہم ان سارے غیر مسلموں پر یہ بات ثابت کردیں کہ ع ” مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا “
Top