Al-Qurtubi - Al-Qasas : 57
وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا١ؕ اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ نَّتَّبِعِ : اگر ہم پیروی کریں الْهُدٰى : ہدایت مَعَكَ : تمہارے ساتھ نُتَخَطَّفْ : ہم اچک لیے جائیں گے مِنْ اَرْضِنَا : اپنی سرزمین سے اَوَ : کیا لَمْ نُمَكِّنْ : نہیں دیا ٹھکانہ ہم نے لَّهُمْ : انہیں حَرَمًا اٰمِنًا : حرمت والا مقام امن يُّجْبٰٓى : کھنچے چلے آتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف ثَمَرٰتُ : پھل كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے (قسم) رِّزْقًا : بطور رزق مِّنْ لَّدُنَّا : ہماری طرف سے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں (اور یہ) رزق ہماری طرف سے ہے ؟ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے
وقالوا ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا یہ مشرکین مکہ کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : قریش میں سے یہ بات حرث بن عثمان بن نوفل بن عبدمناف قرشی نے کی : اس نے نبی کریم ﷺ سے کہا : ہم جانتے ہیں کہ تیرا قول ہے لیکن ہمیں یہ خوف کہ عرب ہمیں اپنی سر زمین (مکہ) سے اچک لیں یہ خوف اس سے روکتا ہے کہ ہم تیرے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں اور تجھ پر ایمان لائیں گے، کیونکہ وہ سب ہمارے خلاف مجتمع ہیں اور ہم میں ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں یہ ان کی حجت بازیوں میں سے تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی حجت بازیوں کا جواب دیا اور کہا : اولم نمکن لھم حرماً امناً آمنا یہاں ذا امن کے منی میں ہے اس کی وجہ یہ تھی عرب دور جاہلیت میں ایک دوسرے سے غارت گری مچاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اہل مکہ حرم کی حرمت کی وجہ سے امن میں ہوتے جہاں بھی ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ بیت اللہ کی حرمت کی وجہ سے انہیں امن دیا۔ ان سے ان کے دشمن کو روکا انہیں ڈرنا چاہئے کہ عرب ان کے ساتھ جنگ میں ان کی حرمت کو حلال سمجھیں گے۔ تخطف سے مراد تیزی سے اچک لینا ہے، یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ یحییٰ بن سلام نے کہا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : تم میرے حرم میں امن میں ہوتے ہو، تم میرا رزق کھاتے ہو اور میرے غیر کی عبادت کرتے ہ۔ کہا : تم اس وقت خوف کھاتے ہو جب تم میری عبادت کرو گے اور مجھ پر ایمان لائو گے۔ یجبی الیہ ثمرت کل شیء تمام سر زمین اور تمام ملکوں کے پھل اس کی طرف جمع کئے جاتے ہیں، یہ حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء سے مروی ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : جبی الماء فی الحوض اس نے پانی کو حوض میں جمع کیا۔ جابیہ سے مراد بڑا حوض ہے۔ نافع اسے تحیی تاء کے ساتھ پڑھتے۔ یہ ثمرات کی وجہ سے ہے باقی قراء نے کل شیء کی وجہ سے یاء کے ساتھ پڑھا ہے، ابو عبید نے اسے پسند کیا ہے۔ کہا : اسم مونث اور فعل کے درمیان فاصلہ حائل ہے نیز ثمرات جمع ہیں، یہ مونث حقیقی نہیں۔ رزقا من لدنا یعنی ہماری جانب سے ولکن اکثرھم لایعلمون لیکن ان میں سے اکثر عقل نہیں کھتے، یعنی وہ استدلال سے غافل ہیں، یعنی وہ ذات جس نے زمانہ گزشتہ میں حالت کفر میں انہیں رزق دیا ہے اور انہیں امن دیا ہے اگر وہ اسلام لائے تب بھی انہیں رزق دے گا اور حالت اسلام میں کافر کو ان سے روکے گا۔ رزقاً مفعول لاجلہ کی وجہ سے منصوب ہے مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے نصب دینا جائز ہے کیونکہ تجی کا معنی ترزق ہے۔ اس کو یجنی پڑھنا بھی جائز ہے یہ جنا سے مشتق ہے یہ الی حرف جار کے ساتھ متعدی ہے جس طرح تیرا قول ہے، یجنی الیہ فیہ، فجنی الی الخافۃ خافہ سے مراد وانوں کیلئے برتن ہے۔
Top