Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 12
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا سَتُغْلَبُوْنَ : عنقریب تم مغلوب ہوگے وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم ہانکے جاؤگے اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمِهَادُ : ٹھکانہ
(اے پیغمبر ﷺ ! ) کافروں سے کہہ دو کہ تم (دنیا میں بھی) عنقریب مغلوب ہوجاؤ گے اور (آخرت میں) جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بری جگہ ہے
(12 ۔ 13) ۔ ابو داؤد اور بیہقی اور تفسیر ابن منذر بن بسند میں معتبر عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب قریش کو مسلمانوں کے ہاتھ سے جنگ بدر میں صدمہ پہنچا جس کا قصہ سورة انفال میں آئے گا تو اس پر یہود نے آنحضرت ﷺ سے ذکر کیا کہ قریش اناڑی اور لڑائی سے ناواقف تھے جس دن آپ سے اور ہم لوگوں سے لڑائی ہوگی اس دن قدر کھل جائے گی کہ لڑائی ایسی ہوتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1۔ اللہ سچا ہے اور اللہ کا کلام سچا ہے۔ آخر کو وہ یہ ہوا جو اس آیت میں تھا کہ ان یہودیوں میں سے بنی قریظہ قتل ہوئے اور بنی نضیر نکالے گئے باقی یہود پر وہ سالانہ خراج قائم ہوگیا جس کو جزیہ کہتے ہیں اور پھر یہ تو ان لوگوں کی دنیا کی آفتیں ہوئیں اور وہ عذاب آخرت کا جس کا ذکر آیت میں ہے اس کی سختی کا تو کچھ ٹھکانا نہیں بدر کی لڑائی کے بعد جو یہود نے عرب کی ناواقفی فن جنگ پر اپنی نخوت ظاہر کی تھی اور اپنی واقف کاری فن جنگ کا دعویٰ کیا تھا آیت کے آخر پر اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اسلام اللہ کے نزدیک ایک دین حق ہے اور اللہ ہمیشہ سے حق کا مددگار ہے اس لئے اللہ کی مدد سے اہل اسلام کو باوجود قلت لشکر اور قلت سامان جنگ کے جو فتح حاصل ہوئی ہے وہ کچھ اسی بدر کی لڑائی پر منحصر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس دین حق کی ہمیشہ ایسی مدد کرے گا اس لڑائی میں مسلمانوں کے تین سو تیرہ آدمی تھے اور دوگھوڑے اور چھ زرعیں اور آٹھ تلواریں تھیں اور مشرکین مکہ ہزار کے قریب تھے اور لڑائی کا سامان بھی ان کے ساتھ بہت کچھ تھا اس صورت میں دشمنوں کی فوج اگرچہ مسلمانوں کے تین گنی تعداد سے بھی زیادہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ ایک حکمت تھی کہ دشمن کی فوج عین لڑائی کے وقت مسلمانوں کو اپنی فوج سے دو چند نظر آئے اور ان کی ہمت لڑنے کے لئے بندھی رہی اور لڑائی سے پہلے ہر ایک لشکر کے آدمی دوسرے لشکر کے آنکھوں میں بالکل تھوڑے سے جچے جس کے سبب سے ہر ایک گروہ لڑنے پر آمادہ ہوگیا اور لڑائی شروع ہوگئی اور سورة انفال کی آیت { وَاِذْ یُرِیْکُمُوْھُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً وَّ یُقَلِلُکُمْ فِیْ اَعْیُتِہِمْ } (8۔ 44) کو ملا کر پر ہنے سے یہ مطلب خوب سمجھ میں آتا ہے فتح غیر متوقہ کے اور اسی حکمت کے جتلانے کے لئے آخر کو فرمایا ہے کہ اس بدر کی لڑائی سے سمجھ دار لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔
Top