Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 12
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا سَتُغْلَبُوْنَ : عنقریب تم مغلوب ہوگے وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم ہانکے جاؤگے اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمِهَادُ : ٹھکانہ
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جائو گے اور تم سب جمع کر کے دوزخ کی طرف ہانکے جائو گے اور وہ جہنم بہت ہی بری آرام گاہ ہے3
3۔ بلا شبہ جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کر رکھی ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ ان کے مال کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد اور ایسے ہی لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے ان لوگوں کا حال اور ان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ جیسا فرعون والوں کا اور ان کا جو آل فرعون سے پہلے ہو گزرے ہیں کہ انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ، چناچہ اس تکذیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ اے پیغمبر ﷺ ! جن لوگوں نے دین حق کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم لوگ بہت جلد مغلوب کئے جائو گے یعنی دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھ سے اور آخرت میں تم لوگ جہنم کی طرف جمع کر کے ہانکے جائو گے اور وہ جہنم بہت ہی بری آرام گاہ اور رہنے کا برا ٹھکانہ ہے۔ ( تیسیر) داب کے معنی ہیں کسی کام میں محنت کرنا ، یہاں شان حال اور عادت و طریقہ مراد ہے۔ مھد کے معنی فرش قرار گاہ آیت کا تعلق کفار قریش سے یا اہل کتاب سے ہے یا دونوں سے بھی ہوسکتا ہے اگرچہ جنگ بدر کا تعلق صرف کفار قریش سے تھا اور ان ہی کی ہزیمت اور مغلوبیت کے متعلق آیت میں پیشین گوئی ہے لیکن مدینہ کے یہود بھی انجام کے منتظر تھے اور بظاہر جنگ کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔ مال اور اولاد کا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بیکار ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل ہو کر اللہ تعالیٰ کی بات نہ چلنے دیں دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عنایت کے بغیر مال اور اولاد ان کافروں کی نجات کے لئے کافی ہوجائے۔ حضرت حق نے دونوں صورتوں کی آیت میں نفی فرما دی ، ایندھن کا مطلب سورة بقرہ کے تیسرے رکوع میں بیان ہوچکا ہے۔ وقود اس کو کہتے ہیں جس سے آگ روشن کی جائے اور آگ جلائی جائے اور یہ جو فرمایا کداب آل فرعون اس کے کئی طرح معنی کئے گئے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے کرتوت بھی ویسے ہی ہیں جیسے فرعون والوں کے اور ان سے پہلے لوگوں کے کرتوت تھے فرعون سے پہلے لوگ جیسے عاد ثمود قوم لوط وغیرہ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کفار کا طریقہ اور ان کی عادت اور ان کا حال بھی رسولوں کی تکذیب کرنے میں اور ان پر عذاب کے نازل ہونے میں ویسا ہی ہے جیسے آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کافر بھی اسی طرح دوزخ کا ایندھن ہوں گے اور مال و اولاد ان کے بھی اسی طرح بیکار ہوں گے جیسے آل فرعون اور ان کے پیش رو لوگوں کا ہوچکا ہے۔ ہم نے اوپر کہا ہے کہ آیت میں یہود بھی مراد ہوسکتے ہیں چناچہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب مسلمان اہل بدر کو شکت دے کر واپس ہوئے تو آپ نے بنی قینقاع میں ہود کو جمع کر کے فرمایا کہ تم لوگ اسلام قبول کرلو مبادا تمہارا حشر بھی ویسا ہی ہو اہل بدر کا ہوا اس پر یہودی نے جواب دیا آپ کفار قریش پر ہم کو قیاس نہ کیجئے۔ یہ لوگ ان پڑھ اور نا تجربہ کار ہیں اگر پڑھے لکھے لوگوں سے ہاتھ ملائے تو آپ کو حقیقت معلوم ہوجائے گی اور آپ کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ ہم جیسے لوگوں سے جنگ کرنا آسان نہیں ہے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں ہی پر عذاب نازل کیا ، کفار قریش پر قتل اور قید کی مصیبت آئی اور یہود پر قتل ، قید ، جلا وطنی اور جزیہ مقرر کیا گیا ۔ مقاتل کا قول ہے کہ آیت کا تعلق کفار مکہ سے ہے ۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب بدر کی ہزیمت مدینہ کے یہود کو معلوم ہوئی تو انہوں نے آپس میں کہا کہ یہ دینی نبی ہے جس کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہم کو بشارت دی تھی کہ اس کا جھنڈا ناکام ہوکر نہیں لوٹے گا ۔ اس پر بعض یہود نے کہا جلدی نہ کرو ابھی ایک دو واقعات اور ہونے دو پھر آخری رائے قائم کرنا ۔ چنانچہ احد کی جنگ جب مسلمانوں کے حق میں نا ساز گارہوئی تو یہ لوگ شک میں پڑگئے ۔ اور ان لوگوں نے نقص عہد کیا اور کفار عرب کو کعب بن اشرف بھڑکاتا پھر اور آخر یہود کا بھی وہ انجام ہوا جو ہم اوپر عرض کرچکے ہیں ۔ بہر حال آیت کا تعلق خواہ کفار قریش سے ہو خواہ مدینہ کے یہود سے ہو خواہ دونوں سے ہو لیکن عام نہیں ہے بلکہ خاص کافروں کے متعلق ہے اس لئے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ہر جگہ کے کافر تو مغلوب نہیں ، البتہ قیامت کے عذاب میں سب شریک ہیں اور آخرت کا عذاب سب کو شامل ہے۔ بئس المھاد کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرار گاہ بہت بری ہے جو یہ اپنے لئے تیار کر رہے ہیں یا وہ آرام گاہ بہت بری ہے جو ان کے لئے مقرر کی گئی ہے ۔ دونوں تقدیروں پر مراد اس سے جہنم ہے اب آگے بدر میں جو کچھ ہوا اس کا مختصر سا ذکر فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت اور بعض خرق عادت حالات کو شامل ہے۔ ( تسہیل)
Top