Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 150
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَ : اور رُسُلِهٖ : اس کے رسولوں وَيُرِيْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّفَرِّقُوْا : فرق نکالیں بَيْنَ : درمیان اللّٰهِ : اللہ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم مانتے ہیں بِبَعْضٍ : بعض کو وَّنَكْفُرُ : اور نہیں مانتے بِبَعْضٍ : بعض کو وّ : اور َيُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَّخِذُوْا : پکڑیں (نکالیں) بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : ایک راہ
جو لوگ خدا سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہے کہ تم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور ایمان اور کفر کے بیچ میں ایک راہ نکالنی چاہتے ہیں
(150 ۔ 152) ۔ منافقوں کے ذکر کے بعد ان آیتوں میں یہود کا ذکر ہے۔ قرآن شریف میں اکثر جگہ منافقوں کا اور یہود کا ذکر اس لئے ساتھ آیا ہے کہ منافقوں کی اور یہود کی حالت ملتی جلتی ہے کیونکہ جس طرح منافق لوگ ظاہر میں اپنے آپ کو اسلام کا پابند کہتے ہیں اور حقیقت میں اسلام کے پابند نہیں ہیں۔ بہت سی آیتیں تورات کی انہوں نے بدل ڈالی ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بدسلوکی انہوں نے کی وہ بالکل تورات کے برخلاف ہے تورات کے موافق نبی آخر الزماں کا پہلے انہیں اقرار تھا۔ لیکن نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے کے بعد ان کی نبوت کے منکر ہوگئے جو ان کا انکار تورات کے برخلاف ہے۔ عبادہ بن صامت ؓ کی صحیحین میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کو وحدہ ٗ لا شریک اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور مجھ کو اللہ کا رسول جانے گا وہ جنت میں جائے گا 2۔ یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے کیونکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ توحید ہر رسول کی شریعت میں ہے اس لئے جو لوگ بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعضوں کو نہیں مانتے وہ توحید کے منکر اور اصل کافر ہیں۔ یہی مطلب حدیث کا ہے کہ جب تک یہود لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزماں کی نبوت کو تسلیم نہ کریں ان کی توحید پوری ہے نہ یہ جنتی ہوسکتے ہیں اسی واسطے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ بعض رسولوں کے منکر ہیں۔ منکر ہو کر اپنے آپ کو صاحب توحید اور ایمان دار جو کہتے ہیں شریعت موسوی اور شریعت محمدی کے علاوہ ان کا ایجاد کیا ہوا جدید راستہ ہے دونوں شریعتوں میں جس کا کہیں ذکر نہیں ہے اور سوائے پتہ ہونے کے اس راستہ میں یہ کتنی بڑی خرابی ہے کہ جن رسولوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنانائب ٹھہرا کر بھیجا ہے ان کی نیابت کو جھٹلایا جاتا ہے جو اللہ کی شان میں ایک جھوٹ اور کفر ہے۔ اس کے بعد عبد اللہ بن سلام وغیرہ سچے یہود کا ذکر فرمایا جو تورات کے موافق نبی آخر الزمان اور سب انبیاء (علیہم السلام) کو مانتے ہیں۔ اور فرمایا یہ لوگ پورے ایمان در ہیں ان کو عقبیٰ میں بڑا اجر ملنے والا ہے اور ان کے کچھ گناہ ہوں گے تو ان کی توحید کے سبب سے اللہ غفور الرحیم ان کے وہ گناہ معاف کر دے گا۔ اللہ توحید کے گناہ معاف ہوجانے کی عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے اور موحد اہل کتاب کے بڑے اجر کے باب میں ابو موسیٰ اشعری ؓ کی صحیحین میں حدیث ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے جو شخص سب انبیاء کو مانے گا۔ قیامت کے دن اس کو دہرا اجر ملے گا 1۔
Top