Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 150
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَ : اور رُسُلِهٖ : اس کے رسولوں وَيُرِيْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّفَرِّقُوْا : فرق نکالیں بَيْنَ : درمیان اللّٰهِ : اللہ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم مانتے ہیں بِبَعْضٍ : بعض کو وَّنَكْفُرُ : اور نہیں مانتے بِبَعْضٍ : بعض کو وّ : اور َيُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَّخِذُوْا : پکڑیں (نکالیں) بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : ایک راہ
جو لوگ منکر ہیں اللہ سے اور اس کے رسولوں ؑ سے اور چاہتے ہیں کہ فرق نکالیں اللہ میں اور اس کے رسولوں ؑ میں اور کہتے ہیں ہم مانتے ہیں بعضوں کو اور نہیں مانتے بعضوں کو اور چاہتے ہیں کہ نکالیں اس کے بیچ میں ایک راہ،
اسلامی مدار نجات ہے کسی مخالف مذہب میں نجات نہیں ہو سکتی
قرآن حکیم کے اس واضح فیصلہ نے ان لوگوں کی بےراہی اور کج روی کو پورا طرح کھول دیا ہے، جو دوسرے اہل مذاہب کے ساتھ روا داری میں مذہب اور مذہبی عقلاء کو بطور نوتہ اور ہبہ کے پیش کرنا چاہتے ہیں، اور قرآن و سنت کے کھلے ہوئے فیصلوں کے خلاف دوسرے مذہب والوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک نجات صرف اسلام میں منحصر نہیں، یہودی اپنے مذہب پر اور عیسائی اپنے مذہب پر رہتے ہوئے بھی نجات پاسکتا ہے، حالانکہ یہ لوگ سب رسولوں کے یا کم از کم بعض رسولوں کے منکر ہیں، جن کے کافر جہنمی ہونے کا اس آیت نے اعلان کردیا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف اور ہمدردی و خیر خواہی اور احسان و رواداری کے معاملہ میں اپنی مثال نہیں رکھتا، لیکن احسان و سلوک اپنے حقوق اور اپنی ملکیت میں ہوا کرتے ہیں، مذہبی اصول و عقائد ہماری ملکیت نہیں جو ہم کسی کو تحفہ میں پیش کرسکیں، اسلام جس طرح غیر مسلموں کے استھزا رواداری اور حسن سلوک کی تعلیم میں نہایت سخی اور فیاض ہے، اسی طرح وہ اپنی سرحدات کی حفاظت میں نہایت محتاط اور سخت بھی ہے، وہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردی خیر خواہی اور انتہائی رواداری کے ساتھ کفر اور رسوم کفر سے پوری طرح اعلان برات بھی کرتا ہے، مسلمانوں کو غیر مسلموں سے الگ ایک قوم بھی قرار دیتا ہے اور ان کے قومی شعائر کی پوری طرح حفاظت بھی کرتا ہے، وہ عبادت کی طرح مسلمانوں کی معاشرت کو بھی دوسروں سے ممتاز رکھنا چاہتا ہے جس کی بیشمار مثالیں قرآن و سنت میں موجود ہیں۔
اگر اسلام اور قرآن کا یہ عقیدہ ہوتا کہ ہر مذہب و ملت میں نجات ہو سکتی ہے تو اس کو مذہب اسلام کی تبلیغ پر اتنا زور دینے کا کوئی حق نہ تھا، اور اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینا اصولاً غلط اور خلاف عقل ہوتا، بلکہ اس صورت میں خود رسول کریم ﷺ کی بعثت اور قرآن حکیم کا نزول معاذ اللہ بیکار اور فضول ہوجاتا ہے اور رسول کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کا سارا جہاد بےمعنی بلکہ ملک گیری کی ہوس رہ جاتی ہے۔
اس معاملہ میں بعض لوگوں کو سورة بقرہ کی آیت نمبر 26 سے شبہ ہوا ہے، جس میں ارشاد ہے
ان الذین امنوا والذین ھادوا والنصری والصابئین من امن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحا فلھم اجرھم عندربھم ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون،”یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے اور نصاری اور صابین ان میں جو بھی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس محفوظ ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
اس آیت میں چونکہ ایمانیات کی پوری تفصیل دینے کے بجائے صرف ایمان باللہ و الیوم الآخر پر اکتفا کیا گیا ہے تو جو لوگ قرآن کو صرف ادھورے مطالعہ سے سمجھنا چاہتے ہیں، اس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ صرف اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھنا نجات کے لئے کافی ہے رسولوں پر ایمان شرط نجات نہیں اور یہ نہ سمجھ سکے کہ قرآن کی اصطلاح میں ایمان باللہ رسولوں پر ایمان شرط نجات نہیں اور یہ نہ سمجھ سکے کہ قرآن کی اصطلاح میں ایمان باللہ وہی معتبر ہے جو ایمان بالرسول کے ساتھ ہو، ورنہ محض خدا کے اقرار اور توحید کا تو شیطان بھی قائل ہے، قرآن کریم نے خود اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح فرما دیا ہے
فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدواوان تولو فانما ھم فی شقاق فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم (2: 731) ”یعنی ان کا ایمان اس وقت معتبر ہوگا جبکہ وہ عام مسلمانوں کی طرح ایمان اختیار کریں، جس میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول لازم ہے، ورنہ پھر سمجھ لو کہ وہی لوگ تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں، سو اللہ تعالیٰ آپ کی طرف سے ان کے لئے کافی ہے اور وہ بہت سننے والا ہے۔“
اور پیش نظر آیات میں تو اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بتلا دیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کے کسی ایک رسول کا بھی منکر ہو وہ کھلا کافر ہے اور اس کے لئے عذاب جہنم ہے، ایمان باللہ وہی معتبر ہے جو ایمان بالرسول کے ساتھ ہو، اس کے بغیر اس کو ایمان باللہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔
Top