Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 150
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَ : اور رُسُلِهٖ : اس کے رسولوں وَيُرِيْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّفَرِّقُوْا : فرق نکالیں بَيْنَ : درمیان اللّٰهِ : اللہ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم مانتے ہیں بِبَعْضٍ : بعض کو وَّنَكْفُرُ : اور نہیں مانتے بِبَعْضٍ : بعض کو وّ : اور َيُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَّخِذُوْا : پکڑیں (نکالیں) بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : ایک راہ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے برگشتہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ میں اور اس کے رسولوں میں تفرقہ کریں اور کہتے ہیں ہم ان میں سے بعض کو مانتے ہیں بعض کو نہیں مانتے اور اس طرح چاہتے ہیں ایمان و کفر کے درمیان کوئی راہ اختیار کر لیں
مسلمانوں کی اخلاقی حالت کو درست کرنے کا نسخہ الہی ! کوئی استعمال کرکے تو دیکھے : 238 : اخلاقی حیثیت سے یہ تینوں مر تبے الگ الگ ہیں یہاں کیسی صحیح تر تیب کے ساتھ بیان کیا ہے پہلادرجہ یہ ہے کہ انسان نے نیکی کی اور سا تھ ہی وہ اس کا اظہارا علان بھی کردیتا ہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ خلق سے داد لینے کی خواہش ایک حد تک طبعی ہے۔ وہ ظا ہر نہیں کرے گا تو داد ملے گی ؟ فرما یا نیکی تو یہ بھی ہے لیکن ـ” ان تُبدُواخَیراََ “ اس لئے اس سے اونچا درجہ یہ ہے کہ نیکی کرے اور خلق سے داد و صلہ کی پر وا ہی نہ رکھے بلکہ اس کو خلق کے علم میں آنے ہے نہ دے بشرطیکہ اس لئے اس کو اس کے بعد بیان فرمایا کی ” اَوتُخفُوہُ “ تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان کو نا گوار یاں پیش آئیں اور وہ انہیں نظر انداز کر جائے اور برائی کرنے والے سے بدلہ نہ لے اور ظا ہر ہے کہ یہ نفس کیلئے بہت ہی شا ق ہے اس لئے اس کا مر تبہ پہلی دو نوں نیکیوں سے بڑھ کر ہے یہی وجہ ہے کہ اس کو ” تَعفُوا عَن سُوئِِ “ کے الفاظ سے بیان فرمایا ۔ فرمایا اگر تم اس آخری مر تبہ پر فا ئز ہوگئے تو تم بہت ہی خوش قسمت ہوئے کیونکہ عَفُوََّا کی صفت تو اس مالک الملک کی ہے پھر کیا خوب ہے جو بندہ بھی اپنے آب کو اس کے رنگ میں رنگ لے ! تم بتا ئو کہ وہ خوش قسمت نہیں ہوگا اور کیا ہوگا ؟ پھر ساتھ ہی اللہ تعا لی کی صفت کا بھی اظہار فر مادیا کہ اللہ ہی کی تو ذات ہے جو قدیرّا ہے انسان نے اگر در گزر کی تو وہ بھی سو چے کہ وہ بدلہ لے ہی کہاں تک سکتا ہے ؟ انتقام پر قدرت کامل تو اللہ ہی کو حاصل ہے اور وہ عفو ودر گزر سے کام لیتا ہے اور لیتا ہی رہتا ہے۔ ذرا غور کرو کہ بندوں کو عفو و در گزر کی راہ پر لانے کا کتنا ہی مو ثر و حکیمانہ طر یقہ ہے ! اما م رازی (رح) جن کی نکتہ رسی قرآن فہمی میں قابل صدر شک ہے اس جگہ خوب فرما گئے کہ ” آیت کے ان دو مختصر فقروں میں سا را خلا صہ اخلاق بند کر کے رکھ دیا گیا اور اب کوئی جتنا کھو لنا چاہے ان دو نوں جملوں کی خوبی ختم ہونے والی نہیں اور شاہ اشرف علی تھانوی (رح) کی بیان القرآن کا یہ حصہ قابل دید ہے۔ اس مضمو ن کو قرآن کریم میں تصر یف آیات کے ذریعہ بھی سمجھا یا گیا ہے اور چو ن کہ انسان کا نفس ‘ بیو ی اور اولاد بعض اوقات ان اوصاکے راستے کی رکاوٹیں ہیں اس لئے جی چا ہتا ہے کہ ایک دو جگہو ن کا اشارہ دے دیا جائے چنا نچہ ارشاد الہی ہے کہ : ” اے لو گو جو ایمان لائے ہو ‘ تمہا ری بیو یوں ‘ تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزما ئش ہیں اور اللہ ہی وہ ذات ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔ “ (التغا بن 15 , 14:64) اور ایک جگہ ارشاد فر مایا : تم میں سے جو لوگ صا حب فضل اور صاحب مقدر ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا لیں کہ اپنے رشتے داروں ، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لو گوں کی مدد نہ کریں ۔ انہیں معاکردینا چا ہے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاکرے ؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔ “ (النور 24:22) ” برائی کا بدلہ ویسی ہی براہی ہے ، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ اللہ ظا لموں کو پسند نہیں کرتا اور جو لوگ ظلم ہونے کہ بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی ، ملا مت کے مستحق تو وہ ہیں جو دو سروں پر ظلم کرتے ہیں اورز مین میں ناحق زیا دتیاں کرتے ہیں ایسے لو گوں کیلئے درد ناک عذ اب ہے ہاں ! جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے تو یہ بڑی اولو العزمی کے کا موں میں سے ہے۔ “ الشو ری (43 , 40 , 42) (مز ید و ضا حت کیلئے عر وہ الوثقی جلد اول سورة البقرہ کی آیت 171 , 172 کا مطالعہ کریں ۔ ) اللہ اور اس کے رسو لوں سے انکار کرنے والوں کا کر دار کیا ہے ؟ 239: اس مضمو ن کو بار بار قرآن کر یم میں دہر ایا گیا ہے کہ اللہ کی سچائی اس کی سا ری با توں کی طرح اس کی عالمگیر بخشش ہے وہ نہ تو کسے خا ص زما نہ سے وابستہ کی جاسکتی ہے ، نہ کسی خا ص نسل و قوم سے اور نہ کسی خاص مذہبی گروہ بندی سے۔ تم نے اپنے لئے طرح طرح کی قو میتیں اور جغرافیائی اور حد بندیاں بنا لی ہیں لیکن تم اللہ کی سچائی کیئے کوئی ایسا امتیاز نہ گھڑو ۔ اس کی نہ تو کوئی قو میت ہے ، نہ نسل ہے ، نہ جغرافیائی حد بندی ہے اور نہ ہی جما عتی حلقہ بندی ہے وہ اللہ تعا لیٰ کے سور ج کی طرح ہر جگہ چمکتی اور نوع انسانی کے ہر فرد بشر کو روشنی بخشتی ہے اگر تم اللہ کی سچائی کے طا لب ہو تو وہ کسی نسل و قوم میں ہرگز تلاش نہ کرو اس لئے اس نے ” تَفُرِْتُق بَینَ ا لرُّسُلُ “ ‘ یا اللہ اور اس کے رسو لوں کے درمیان تفر قہ “ وے سختی سے منع کیا ہے وہ دکہتا ہے کہ راہیں صرف دو ہیں صرف دو ہیں ایمان کی اور کفر کی پھر ایمان کی راہ یہ ہے کہ بلا تفر یق سب کی تصدیق کی جائے یعنی سب کو ما نو اور انکار کی راہ یہ ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا انکار کرو ۔ یہاں کیس ایک کا انکار بھی وہی حکم رکھتا ہے جو سب کے انکار کا ہے۔ اس آیت سے یہ بات پھی واضح ہوجاتی ہے کہ اہل کتاب بلا شبہ اہل کتاب ہیں لیکن ان میں سے جو پکے کافر ہیں جن کے کفر میں جن کے کفر میں کسی طر حکا شبہ نہیں ان کو صا حب ایمان اہل کتاب کی طرح سمجھنا بھی نادانی کی بات ہے۔ جن اہل کتاب سے منا کحت اور اس طرح کی دو سری با توں اور میل جول کی اجا زت ہے وہ وہ اہل کتاب نہیں ہو سکتے جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں جن کو ” اِنَّالَّّذِینَتکفُرُونَ بِا للہ وَرُسلِہِ “ سے مخا طب کیا گیا ہے۔ بلا شبہ یہ وہ لوگ ہیں جو نام کے لحاظ سے اہل کتاب ہیں لیکن ان کے عقا ئد و اعمال اس بات پر گواہ ہیں کہ وہ کھلے کفر کے پر مرتکب ہوئے ہیں اور یہ وہی ہیں جو انبیاء کرام کو قتل کرنے والے بعض کو نبی ما ننے اور بعض کا انکار کرنے والے ہیں ۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لو گوں نے مسلما نوں کے گر و ہوں کو کفر کی نگا ہ سے دیکھا ہے ان کی نظر بھی اہل کتاب کے اس کھلے کفر کی طرف کیوں نہیں گئی اور انہوں نے سارے اہل کتاب کے سا تھ منا کحت اور میل جول کی اجا زت کس نا طے سے دی ہے اور یہ چو ک جہاں سے بھی ہوئی ہے رسالت اور عہد صحا بہ ؓ کا دا من ان با توں سے با لکل پاک ہے۔ جہاں بہت سے با تیں دین اسلام میں با ہر سے لا کر اسلام میں دا خل کرلی گئی ہیں حقیقت میں اس کا تعلق بھی انہیں میں سے ہے اسلام ایسے تسا مح سے با لکل منز ہ ہے۔ لیکن قو می نظر یات جو گھڑلے جا تے ہیں ان میں فہم و بصیرت سے کام لیا جانا ممنوع قرار دیا جاتا ہے چو ن کہ یہ بیما ری ہر قوم میں موجود ہے اس لئے اس معاملہ میں ساری قو موں کا اجتماع ہوجاتا ہے اور جب اجماع امت کے جا م سے بد اعتدلیوں کا تدارک ممکن نہ ہو تو اس اجماع امم کے نام سے ادیان میں دا خل ہونے والی چیزوں کا کوئی علاج کب ممکن ہو سکتا ہے ؟ اس لئے صا حب عقل و دا نش بھی انہیں کو کہا جاتا ہے جو امت کے یا امم کے یا امم کے ان نریوں کی حمایت میں لب کشائی کرتے ہیں ‘ دوسروں کے منہ میں ہمیشہ مٹی ہی ڈالی جاتی ہے اور ایسے رند کم ہی ہوتے ہیں جو کسی کے مٹی ڈالنے کی پر وا نہ کریں کیونکہ ان مگر مچھوں سے بیر لگا کر در یا میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ کو ن ہے جو مر نے کیلئے ہر وقت تیار رہے ؟ اگرچہ مر نا سب کیلئے لاز م ہی ہے۔
Top