Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 150
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَ : اور رُسُلِهٖ : اس کے رسولوں وَيُرِيْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّفَرِّقُوْا : فرق نکالیں بَيْنَ : درمیان اللّٰهِ : اللہ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم مانتے ہیں بِبَعْضٍ : بعض کو وَّنَكْفُرُ : اور نہیں مانتے بِبَعْضٍ : بعض کو وّ : اور َيُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَّخِذُوْا : پکڑیں (نکالیں) بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : ایک راہ
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے پیغمبروں کے درمیان فرق رکھیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی پر تو ایمان لائے ہیں اور کسی کے ہم منکر ہیں،382 ۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ ایک راہ درمیانی نکالیں،383 ۔
382 ۔ یہ ارشاد کن لوگوں کی طرف ہے ؟ اس باب میں بہت کچھ بحث ہوئی ہے۔ بہرحال اتنا تو صاف ہے کہ اصل ارشاد یہود کی جانب ہے جو انبیاء سابقین میں سے بہتوں کے تو قائل تھے۔ لیکن اپنے ہی سلسلہ کے انبیاء میں سے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کے منکر تھے۔ اور پھر نبوت مصطفوی کے۔ لیکن قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ان کے تحت میں نہ صرف مسیحی آجاتے ہیں، جو نبوت مصطفوی کے تو صاف منکر، اور رسالت مسیح (علیہ السلام) کے بھی منکر ہو کر الوہیت مسیح (علیہ السلام) کے قائل ہوگئے ہیں۔ بلکہ آج کل کے بہت سے ” آزاد خیال “ اور ” روشن خیال “ بھی اس ذلیل میں آجاتے ہیں۔ یورپ میں ایک فرقہ (خدا پرستوں) کا کہلاتا ہے، اور ہندوستان میں برہموسماج ہے، یہ لوگ توحید کے تو قائل ہیں۔ لیکن عقیدہ وحی ونبوت کے منکر ’ یہ سب مثالیں اسی ناقص اور غلط ذہنیت کی ہیں، جسے اسلام بڑھانا اور پیدا کرنا نہیں۔ بلکہ مٹانا اور فنا کرنا چاہتا ہے۔ 383 ۔ جیسے دہلی کے ایک مغل بادشاہ اکبر نے کفر واسلام کو ملا جلا کر ایک ” دین الہی “ ایجاد کیا تھا۔ اور پھر تین پشتوں کے بعد ایک اور شہزادہ داراشکوہ نے بھی کچھ اسی قسم کی کوشش شروع کی تھی، اور بعض ملحد طبع آج بھی شرک و توحید، کفر واسلام کو مخلوط وممزوج کرکے طرح طرح کے خوشنما ناموں کے ساتھ ایک نئے دین کی ترکیب واختراع کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی نظر دین اسلامی کی وحدت، اور اس کے عقائد وارکان کے اندرونی نظم وارتباط پر سرے سے ہے ہی نہیں !
Top