Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 150
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَ : اور رُسُلِهٖ : اس کے رسولوں وَيُرِيْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّفَرِّقُوْا : فرق نکالیں بَيْنَ : درمیان اللّٰهِ : اللہ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم مانتے ہیں بِبَعْضٍ : بعض کو وَّنَكْفُرُ : اور نہیں مانتے بِبَعْضٍ : بعض کو وّ : اور َيُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَّخِذُوْا : پکڑیں (نکالیں) بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : ایک راہ
بلاشبہ جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ کے اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان راہ تجویز کرلیں
اللہ تعالیٰ پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا فرض ہے صاحب معالم التنزیل صفحہ 494: ج 1 میں لکھتے ہیں کہ آیت (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ) یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور توریت پر ایمان لائے اور عزیر (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لائے ان کے ساتھ کفر کیا اور انجیل اور قرآن کے بھی منکر ہوئے۔ ان لوگوں نے ایسا راستہ نکالا کہ اللہ پر تو ایمان لائیں اور اس کے رسولوں میں سے بعض پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں۔ جو شخص صرف اللہ پر ایمان لائے اور کسی رسول پر ایمان نہ لائے یہ بھی کفر ہے اور یہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا ہے اور بعض رسولوں پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کرے یہ بھی تفریق ہے۔ کیونکہ کسی ایک رسول کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔ صاحب روح المعانی صفحہ 4: ج 6 نے حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ آیت شریفہ میں یہود و نصاریٰ دونوں کا ذکر ہے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کا انکار کیا اور یہود و نصاریٰ حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور رسالت کے منکر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا جو دین ہے اسے دونوں جماعتیں چھوڑ بیٹھیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہر نبی پر ایمان لانا فرض ہے جن لوگوں نے کسی بھی نبی کا انکار کیا ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا (اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا) کہ یہ وہ لوگ ہیں جو پکے کافر ہیں ان کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ اور فرمایا (وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا) کہ ہم نے کافروں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا ہے۔ اہل کفر کا ذکر فرمانے کے بعد اہل ایمان کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور کسی بھی رسول کا انکار کر کے تفریق کرنے والے نہ بنے (یعنی خاتم النّبیین ﷺ کے امتی) یہ لوگ بڑے بڑے ثوابوں کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ثواب عطا فرما دے گا۔ مسلمانوں کے بارے میں سورة بقرہ کے ختم کے قریب ارشاد فرمایا (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ باللّٰہ وَ مَلٰٓءِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ) (ایمان لایا رسول اس پر جو اس کی طرف نازل کیا گیا اس کے رب کی طرف سے اور مومنین بھی ایمان لائے، سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر، اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر (انہوں نے کہا) کہ ہم تفریق نہیں کرتے اللہ کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان بھی) ۔ درحقیقت ایمان جبھی متحقق ہوتا ہے اور اللہ کے نزدیک معتبر ہوتا ہے جبکہ تمام ایمانیات پر ایمان لایا جائے۔ کوئی شخص فرشتوں کا منکر ہو، یوم آخرت کا منکر ہو۔ قرآن کی کسی آیت کا منکر ہو کسی شعائر اسلام کا منکر ہو۔ کسی بھی رسول کی رسالت اور کسی بھی نبی کی نبوت کا منکر ہو تو وہ اللہ کے نزدیک کافر ہوگا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو مانتا ہو۔ اللہ پر ایمان لانے میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ حکم فرمایا۔ یہ اہل اسلام ہی کی امتیازی شان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں اور رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی توقیر کرتے ہیں جس طرح انہیں یہ گوارا نہیں کہ حضرت خاتم النّبیین ﷺ کی شان اقدس میں کوئی نازیبا کلمہ کیا جائے اسی طرح انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ سیدنا موسیٰ یا سیدنا عیسیٰ (علیہما السلام) یا کسی بھی رسول یا نبی کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہی جائے۔ نصاریٰ کے پاس جو موجودہ انجیلیں ہیں ان میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) یا ان سے پہلے کسی بھی نبی کے بارے میں کوئی نازیبا بات آگئی ہے اس پر مسلمانوں ہی نے انہیں متنبہ کیا اور انہیں بتایا کہ یہ رسول اور نبی کی شان کے خلاف ہے اور دنیا میں جب کبھی بھی کسی فرد یا جماعت کی طرف سے کوئی ایسی بات اٹھتی ہے جس سے کسی بھی نبی کی شان میں کوئی حرف آتا ہو تو الحمد للہ مسلمان ہی خدائی فوج دار بن کر اس کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
Top