Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 150
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَ : اور رُسُلِهٖ : اس کے رسولوں وَيُرِيْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّفَرِّقُوْا : فرق نکالیں بَيْنَ : درمیان اللّٰهِ : اللہ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم مانتے ہیں بِبَعْضٍ : بعض کو وَّنَكْفُرُ : اور نہیں مانتے بِبَعْضٍ : بعض کو وّ : اور َيُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَّخِذُوْا : پکڑیں (نکالیں) بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : ایک راہ
بیشک جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ اور چاہتے ہیں کہ فرق کریں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی راہ نکالیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ لا وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا لا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا ج وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًامُّہِیْنًا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ع ” بیشک جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ اور چاہتے ہیں کہ فرق کریں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی راہ نکالیں۔ یہی لوگ درحقیقت پکے کافر ہیں۔ اور ہم نے ان کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے یہی لوگ ہیں عنقریب اللہ تعالیٰ انھیں ان کا اجر دے گا۔ اور اللہ بخشنے والارحم کرنے والا ہے۔ “ (النسآء : 150 تا 152) کفر کی اقسام اس سے پہلے مشرکین اور منافقین پر تنقید گزر چکی ہے۔ مشرکین عرب نے خود اپنا نام مشرک اختیار کر کے اپنے عقائد کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیا۔ اور منافقین پر ایک طویل تنقید اور ان کی مختلف صفات اور علامتوں کا ذکر بھی ہم نے پڑھا ہے۔ جس کے بعد ان کی پہچان اور ان کے تعین میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ البتہ کفر کی کوئی ایک شکل نہیں۔ مختلف قسم کے عقائد کے حاملین کو کافر کہا گیا۔ اس لیے بعض دفعہ کافر کی پہچان میں غلطی ہوجاتی ہے۔ اور اہل کتاب تو خود اپنے بارے میں کفر کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرتے تھے۔ سورة بقرہ میں دوسرے رکوع کی پہلی آیت میں ” وَمِنَ النَّاسِ “ کے لفظ سے انھیں کا دعویٰ ذکر کیا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت کو مانتے ہیں تو پھر ہم مومن نہیں تو اور کیا ہیں ؟ لیکن قرآن کریم نے انھیں کافر قرار دیا۔ خود مسلمانوں کے اندر بھی معلوم ہوتا ہے یہ غلط فہمی پائی جاتی تھی کہ اہل کتاب پیغمبروں کو اور کتابوں کو مانتے ہیں ‘ آخرت کو تسلیم کرتے ہیں تو اپنی ساری غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود وسرے کافروں جیسے تو نہیں ہوسکتے۔ یقینا ان میں اور دوسرے کفار میں فرق ہے اور ہمیں اس فرق کا لحاظ کرنا چاہیے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفر کی ہر تقسیم کو ذکر فرمانے کے بعد اس کے حاملین کو کافر قرار دیا۔ فرمایا کچھ کافر تو ایسے ہیں جو نہ اللہ کو مانتے ہیں نہ اس کے رسولوں کو مانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے کافر ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں۔ وہ کیمونسٹوں اور ملحدین کی طرح کائنات کی عجیب و غریب توجیہہ کرتے ہوں گے لیکن ہمیں اس وقت اس سے سروکار نہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر تو ایمان رکھتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے ‘ لیکن اس کے رسولوں کو نہیں مانتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ‘ بیشمار مخلوقات پیدا فرمائیں۔ انہی میں سے انسان کو بڑی عظمت کے ساتھ پیدا فرمایا اور اسے جوہرِ عقل سے نوازا۔ کائنات کی ہر مخلوق کو زندگی گزارنے کے لیے حواس کی رہنمائی بخشی اور انسان کو عقل اور ادراک کی قوت دے کر ان سب پر بالا دست بنادیا۔ اب انسان اس بات کا مجاز ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر جیسے چاہے زندگی گزارے۔ وہ اپنے لیے جیسے چاہے آئین و قانون بنائے ‘ زندگی کے مختلف شعبوں کو اجتماعی دانش کے مطابق اتفاق کے ساتھ چلانے کی کوشش کرے۔ رسالت اور نبوت کی رہنمائی کی انسانوں کو کوئی ضرورت نہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو ماننے کے ساتھ ساتھ نبوت و رسالت کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم جس نبی کو چاہیں گے مانیں گے اور جس کو نہیں چاہیں گے نہیں مانیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کے اس حق کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ انسانوں کی اصلاح کے لیے رسول بھیجے ‘ لیکن اسے علی الاطلاق تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں رسولوں پر ایمان ہم اپنی شرائط پر لائیں گے ‘ خدا کی شرائط پر نہیں۔ ہم ایمان کی شرائط بھی اپنی صوابدید پر مقرر کریں گے۔ اس طرح سے وہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک راستہ نکالنا چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں اور رسالت و نبوت کو بھی تسلیم کرتے ہیں ‘ اس لیے کہ یہ اسلام کا تقاضا ہے۔ لیکن کس نبی کو ماننا ہے اور کسے نہیں ماننا اس کا فیصلہ ہم اپنی صوابدید سے کریں گے۔ اس طرح سے وہ کفر اور اسلام کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ اسلام کا تقاضا تو بالکل واضح اور سادہ سا ہے۔ کہ تم اگر مسلم ہو تو اللہ کی ہر بات کو مانو اور کافر ہو تو پھر تم اپنی مرضی میں آزاد ہو۔ مسلم ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد اللہ کے کسی حکم کے مقابلے میں چون و چرا کی گنجائش نہیں رہتی۔ وہ جب بھی اور جس کو بھی نبی یا رسول بناکے بھیجے ‘ اس پر ایمان لانا اللہ پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اور اس میں ذرا سی حیل و حجت ایمان کو کفر سے بدل دیتی ہے۔ ان اہل کتاب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مانا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے سے انکار کردیا۔ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو تسلیم کیا لیکن آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد یہود و نصاریٰ دونوں نے آپ ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اس طرح سے دونوں کافر ہوگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جو پیغمبر بھی اللہ کی طرف سے آیا اس پر ایمان لانا ایمان کا تقاضا تھا۔ اور اب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ان پر بھی ایمان لانا ایمان کا تقاصا ہے۔ جو شخص بھی ایمان کے کسی تقاضے سے بھی انکار کرتا ہے وہ بالکل اسی طرح کافر ہے جیسے اللہ کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایمان اپنی شرائط پر لانا چاہتا ہے اور ایمان کے لیے پیغمبر کا انتخاب بھی خود کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بندہ بھی ہے اور خدا بھی۔ کیونکہ جب وہ ایمان لاتا ہے تو بندہ بن جاتا ہے اور جب وہ اللہ کے کسی رسول کا انکار کرنا اور پھر ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا اپنا حق سمجھتا ہے تو وہ اللہ کی خدائی میں اپنے آپ کو شریک کرتا ہے۔ اور یہ جرم چونکہ اہل کتاب کر رہے ہیں اس لیے فرمایا کہ یہ لوگ پکے اور صریح کافر ہیں۔ اس لیے کسی کو ان کے کفر میں شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کے یہاں اجر وثواب اور نجات کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اللہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لائے اور ان کے درمیان انھوں نے کوئی تفریق نہیں کی۔ انھوں نے مکمل طور پر اپنے آپ کو مسلم ثابت کیا۔ اور ایمان کو اپنی شرائط سے وابستہ نہیں کیا بلکہ ہرحال میں اللہ کی مخلصانہ اطاعت کی۔
Top