Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔
تفسیر خازن وغیرہ میں جو سعید بن جبیر کی معتبر سند سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ غطفان قبیلہ میں ایک شخص کے پاس اس کا یتیم بھتیجا پرورش پاتا تھا۔ جب وہ لڑکا ہوشیار ہوا تو اس نے اپنے باپ کا مال چچا سے مانگا چچا نے مال دینے سے انکار کردیا۔ یہ جھگڑا آنحضرت کے پاس آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1۔ تو اس آیت کا حکم سن کر چچا نے اپنے بھتیجے کو مال دے دیا اور اس لڑکے نے وہ سب مال خیرات کردیا آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ بیٹے کو خیرات کا اجر ملا اور باپ پر مال کے جمع کرنے کا وبال باقی رہا۔ اور اکثر رشتہ دارلوگ یتیموں کا اچھا مال رکھ کر اس کے عوض میں اپنا ناکارہ مال یتیموں کو دے دیتے تھے یا کھا جاتے تھے۔ ان دونوں باتوں سے بھی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منع فرمایا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یتیم کا مال کھا جانا۔ شرک کرنا جادو کرنا۔ کسی کو ناحق قتل کرنا۔ جہاد سے بھاگنا۔ پارسا عورتوں پر بدکاری کا بہتان باندھنا۔ سود کھانا۔ یہ سات بڑے گناہ ہیں۔ جن سے آدمی ہلاک ہوجاتا ہے 2۔ ان سے بچو۔ حوب کے معنی گناہ کے ہیں۔
Top