Al-Qurtubi - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔
آیت نمبر 2۔ اس آیت میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) (آیت) ” واتوالیتمی اموالھم “۔ یتامی سے مرادیتیم لوگ ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” والقی السحرۃ سجدین “۔ (الاعراف) سجود کے ساتھ سحر نہیں تھا، اسی طرح بلوغ کے ساتھ یتیم نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کو یتیم ابی طالب کہا جاتا ہے۔ (2) (جامع البیان، جلد 3۔ 4، صفحہ 283) ان کی صحبت کی وجہ سے واتوا کا مطلب ہے اعطوا اور ایتاء کا معنی الاعطاء ہے، لفلان اتو یعنی فلاں کے لئے عطا ہے، یہ ابو زید کا قول ہے اتوت الرجل اتوہ اتاوۃ یعنی میں نے اسے یہ رشوت دی، یتیم وہ ہوتا ہے جو ابھی بالغ نہ ہو۔ سورة بقرہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے، یہ خطاب اولیاء اور اوصیاء کو ہے۔ مقاتل اور کلبی کے قول میں غطفان کے ایک شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی جس کے پاس یتیم بھتیجے کا بہت سا مال تھا، جب یتیم بالغ ہوا تو اس نے مال کا مطالبہ کیا اس کے چچا نے اس کو منع کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، چچا نے کہا : ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں بڑے گناہ سے اور مال واپس کردیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جو نفس کے بخل سے بچایا گیا اور اس طرح لوٹ آیا تو وہ اس کے گھر میں اترے گا “ یعنی جنت میں اترے گا جب اس نوجوان نے مال پر قبضہ کرلیا تو اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کردیا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اجر ثابت ہوا اور بوجھ باقی ہوا، پوچھا گیا : یارسول اللہ ﷺ یہ کیسے ہوا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : غلام کے لیے اجر ثابت ہوا اور اس کے باپ پر بوجھ باقی ہے۔ (3) (جامع اسباب النزول، جلد 2، صفحہ 93، قدیمی کتب خانہ) کیونکہ وہ مشرک تھا۔ مسئلہ نمبر : (2) یتیموں کو مال دینا دو اعتبار سے ہو سکتا ہے ایک یہ ہے کھانا اور لباس جاری کرنا جب تک کہ ولایت ہو کیونکہ ممکن نہیں مگر یہ اس کے لیے ہے جو کلی طور پر لینے اور خود رائے رکھنے کا مستحق نہ ہو جیسے چھوٹا اور بڑا بےوقوف، دوسرا یہ کہ مال حوالے کرکے عطا کرنا اور یہ ابتلا اور ارشاد کے وقت ہوتا ہے، اس وقت اسے یتیم مجازا کہا جاتا ہے معنی ہوگا جو یتیم تھا، یہ استصحاب الاسم (٭) (یہ ایک اصطلاح ہے جس کی وجاحت ماقبل سے ہو رہی ہے یعنی بالغ ہونے سے کیونکہ تیم تھا اسی وجہ سے یتیم کہا گیا) ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” والقی السحرۃ سجدین “۔ (الاعراف) ترجمہ : گر پڑے جادوگر سجدہ کرتے۔ نبی کریم ﷺ کو یتیم ابی طالب کہا جاتا تھا اور جب ولی کو یتیم کی رشد کا یقین ہوجائے تو اس کا مال اس سے روکنا اس پر حرام ہے اور وہ گنہگار ہوگا، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : جب وہ پچیس سال کا ہوجائے تو ہر حال میں اس کو مال دیا جائے گا کیونکہ اسی عمر میں وہ سنجیدہ ہوجائے گا۔ میں کہتا ہوں : جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رشد کے محسوس کرنے کا ذکر نہیں کیا اور اس ارشاد میں ذکر فرمایا۔ (آیت) ” وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح، فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم “۔ ترجمہ : اور آزماتے رہو یتیموں کو یہاں تک کہ وہ پہنچ جائیں نکاح (کی عمر) کو پس اگر محسوس کرو تم ان میں دانائی تو لوٹا دو انہیں ان کے مال “۔ ابوبکر رازی حنفی نے ” احکام القرآن “ میں لکھا ہے کہ جب ایک جگہ رشد مقید نہیں ہے اور دوسری جگہ مقید ہے کہ ان دونوں مقامات کا استعمال واجب ہے، پس میں کہتا ہوں : جب پچیس سال کا ہوجائے اور وہ ابھی سفیہ (بےوقوف) ہو اور اس سے دانائی محسوس نہ ہو تو پھر بھی اس کو مال دینا واجب ہے اور اگر اس سے عمر میں کم ہو اور دانائی محسوس نہ ہو تو مال دینا واجب نہیں اس طرح دونوں آیتوں پر عمل ہوجائے گا (1) (احکام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 49) امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : جب یتیم دانائی کو پہنچ جائے تو وہ سنجیدہ ہونے کی صلاحیت میں ہوگا اور جب سنجیدہ ہونے کی صلاحیت میں ہوگا تو پھر یتیم کی علت اور یتیم اسم کی وجہ سے اس کا مال دینا کیسے صحیح ہوگا ؟ یہ بہت بعید ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ باطل ہے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے خصوصا ان کی اپنی اصل پر کہ مقدرات قیاس سے ثابت نہیں ہوتیں بلکہ وہ نص کی جہت سے لی جاتی ہیں، اس مسئلہ میں کوئی نص نہیں ہے، حجر کے بارے میں علماء کے اقوال آگے ذکر ہوں گے۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” لا تتبدلوا الخبیث بالطیب “۔ یعنی یتیم کے مال سے موٹی بکری کو دبلی بکری سے مت بدلو، عمدہ درہم کو کھوٹے درہم سے مت بدلو، لوگ زمانہ جاہلیت میں دین کے نہ ہونے کی وجہ سے یتیموں کے مال کھانے سے نہیں ڈرتے تھے وہ یتیموں کے مال سے عمدہ اور بہتر لے لیتے تھے اور ردی اموال سے اسے بدل لیتے تھے اور کہتے اسم کے بدلے اسم، راس کے بدلے راس، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں اس برائی سے منع کیا، یہ سعید بن مسیب، زہری، سدی، ضحاک رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا قول ہے اور یہی آیت کا ظاہر ہے۔ (2) (جامع البیان للطبری، جلد 3۔ 4، صفحہ 284) بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے یتیموں کے مال نہ کھاؤ یہ حرام اور خبیث ہے اور طیب وپاکیزہ کو نہ چھوڑا اور وہ تمہارے اپنے مال ہیں۔ مجاہد (رح)، ابو صالح (رح) اور باذان (رح) نے کہا : یتیموں کے مال میں خبیث کھانے میں جلدی نہ کرو اور اللہ کی طرف سے رزق حلال کے انتظار کو مت چھوڑو (3) (ایضا، جلد 3، 4 صفحہ 285) ابن زید نے کہا : زمانہ جاہلیت کے لوگ عورتوں اور بچوں کو وارث نہیں بناتے تھے، بڑا میراث پر قبضہ کرلیتا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 6 دارالکتب العلمیہ) عطاء (رح) نے کہا : اس کا مطلب ہے تو اس یتیم پر نفع نہ اٹھا جو تیرے پاس ہے یہ چھوتا دھوکا ہے، یہ دونوں قول آیت کے ظاہر سے خارج ہیں کیونکہ تبدل الشی بالشی کا مطلب ہے کسی چیز کو دوسری چیز کی جگہ لینا، اسی سے بدل ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ ارشاد ہے۔ (آیت) ” ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم “۔ مجاہد (رح) نے کہا : یہ آیت انفاق میں خلط سے منع کرنے والی ہے عرب اپنے نفقہ (خرچ) کو یتیموں کے نفقہ کے ساتھ ملا دیتے تھے تو انہیں اس سے منع کیا گیا پھر۔ (آیت) ” وان تخالطوھم فاخوانکم “۔ (بقرہ : 220) ترجمہ : یعنی اور اگر (کاروبار میں) تم انہیں ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ سے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ ابن فورک نے الحسن سے روایت کیا ہے لوگوں نے اس آیت کی تاویل یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملانے کی نہی سے کی اور خود بخود اس سے اجتناب کرنے لگے پس سورة بقرہ کی آیت۔ (آیت) ” وان تخالطوھم فاخوانکم “ میں ان سے تخفیف کی گئی۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 6 دارالکتب العلمیہ) متاخرین کی ایک جماعت نے کہا الی بمعنی مع ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ہے (آیت) ” من انصاری الی اللہ “۔ (ال عمران : 52) قتبی نے یہ دلیل پیش کی ہے : یسدون ابواب القباب بضر الی عنن مستوثقات الاواصر : اس شعر میں مالی بمعنی مع ہے۔ لیکن یہ قول درست نہیں، محققین نے فرمایا الی اپنے معنی میں ہے اور اضافت کو متمضن ہے یعنی ان کے اموال کو نہ ملا ؤ اور کھانے میں اپنے اموال کے ساتھ جمع نہ کرو (3) (جامع البیان للطبری، جلد 3، 4 صفحہ 287) کی طرح خیال کریں اور پھر ان پر کھانے یا نفع اٹھانے کے اعتبار سے مسلط ہوجائیں۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” انہ کان حوبا کبیرا “۔ انہ میں ہ ضمیر سے مراد کھانا ہے، (آیت) ” حوبا کبیرا “۔ بڑا گناہ، حضرت ابن عباس ؓ اور حسن ؓ وغیرہما سے مروی ہے (4) (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 25، صفحہ 328، 136) کہا جاتا ہے : حاب الرجل یحوب حوبا جب کوئی گناہ کرے اس کی اصل اونٹ کو جھڑکنا ہے پھر گناہ کو حوب کہا گیا، کیونکہ اسے اس کے ساتھ جھڑکا جاتا ہے، دعا میں کہا جاتا ہے : اللھم اغفرحوبتی، یعنی اے اللہ میرا گناہ معاف فرما، الحوبۃ کا معنی حاجت بھی ہے دعا میں ہے الیک ارفع حوبتی یعنی میں تیری بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں۔ الحواب کا معنی وحشت بھی ہیی اسی سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ابوایوب کے بارے میں ہے : ” ام ایوب کی طلاق وحشت ہے۔ (5) (تفسیر کشاف، جلد 1، صفحہ 466) اس لفظ میں تین لغات ہیں، حوبا، بضم حاء، یہ عام قرات ہے اور اہل حجاز کی لغت میں حسن کے حوبا بفتحہ حا پڑھا ہے، اخفش نے کہا : یہ تمیم کی لغت ہے، مقاتل نے کہا : یہ حبش کی لغت ہے الحوب مصدر ہے اسی طرح الحیابۃ بھی مصدر ہے الحوب اسم ہے ابی بن کعب نے حابا پڑھا ہے مصدر کی بنا پر جسے القال مصدر ہے اسم ہونا بھی جائز ہے جیسے الزاد ہے، الحواب (واؤ کے بعد ہمزہ) کھلے مکان کو کہتے ہیں۔ الحواب پانی کو بھی کہتے ہیں، کہا جاتا ہے : الحق اللہ بہ الحوبۃ اللہ تعالیٰ نے اسے مسکنت اور حاجت لاحق کردی، اسی سے عربوں کا قول ہے : بات بحیبۃ سوا اس نے مسکنت میں رات گزاری، یا کی اصل واؤ ہے تحوب فلان یعنی گناہ کو اپنے نفس سے دور کیا اور عبادت کی۔ التحوب کا معنی پریشان ہونا بھی ہے، سخت چیخنا بھی ہے جیسے زجر وتوبیخ ہوتی ہے۔ لان یتحوب من کذا، فلان نے تکلیف محسوس کی، طفیل نے کہا : فذقوا کما ذقنا غداۃ معجر من الغیظ فیاکبادنا والتحوب : پس تم بھی مزا چکھو جس طرح ہم نے تکلیف اور غصہ کی وجہ سے اپنے جگروں میں فجر کی صبح مزا چکھا تھا۔
Top