Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور دے دو یتموں کو ان کے مال اور نہ تبدیل کرو خبیث مال کو طیب مال کے ساتھ اور نہ کھائو ان کے مالوں کو اپنے مالوں کے ساتھ بیشک یہ بڑا گناہ ہے
ربط آیات گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا کہ اس اللہ سے ڈر جائو جس کے واسطے سے تم سوال کرتے ہو۔ اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ، پھر جوڑے جوڑے بناکر لاتعداد مردوں اور عوتوں کو پھیلادیا۔ نیز یہ بھی تاکید فرمائی کہ قرابت داروں کے حقوق سے متعلق ڈر جائو۔ انسانی حقوق کی ادائیگی میں رشتہ داروں کے حقوق کو اولیت حاصل ہے۔ نہیں لازم طور پر ادا کرو غرض یہ کہ اجتماعی حقوق کے سلسلے میں اللہ نے تقویٰ کو سب سے پہلے بیان فرمایا۔ یتموں کے حقوق اب حقوق کی تفصیل بیان ہورہی ہے اور حقوق کے سلسلے میں یتیموں کے حقوق کو مقدم رکھا گیا ہے۔ چناچہ اگلی 10 آیتوں تک یتامی کے حقوق کی بات آرہی ہے۔ یتیم چونکہ بےبس اور کمزور ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انہی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ واتوالیتمی اموالھم یتیموں کو ان کے مال دے دو ۔ یتامیٰ یتیم کی جمع ہے۔ اور اس کا معنی ہے الگ ہونے والا صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ عربی محاورہ ہے ، اصطلاح اور زبان کے مطابق جس کا باپ مرجائے وہ سن بلوغت تک یتیم کہلاتا ہے جب لڑکا ، لڑکی بالغ ہوجائیں تو وہ یتیم کی فہرست سے نکل جاتے ہیں۔ بالغ ہونے پر وہ مکلف یا ذمہ دار ہوجاتے ہیں اور ان پر قانون کی پابندی لازم آجاتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے لایتم بعد احتلام یعنی احتلام وارد ہونے کے بعد ، یتیمی وارد نہیں رہتی۔ لایتم بعد بلوغ یہ بھی فرمایا کہ بالغ ہونے پر یتیمی زائل ہوجاتی ہے بہرحال یتیم وہ ہے جس کا باپ اس کی کم سنی میں فوت ہوجائے۔ البتہ دیگر انواع یعنی حیوانات ، پرندوں وغیرہ میں یتیم بچہ وہ سمجھا جاتا ہے جس کی ماں اس کی کم سنی میں فوت ہوجائے۔ عام اصول یہی ہے۔ البتہ جو شخص بالغ ہوجائے وہ بلوغت کے ابتدائی زمانے میں بھی یتیم ہی کہلاتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے واتو الیتمی یتیموں کو دے دو ۔ اس سے مراد وہ ییم ہے جو نئے نئے سن بلوغت کو پہنچے ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ جب یتیم سن بلوغت کو پہنچ جائیں تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ اب وہ سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ اچھے برے میں تمیز کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ان کے حقوق ان کو لوٹادو۔ اس سورة کی چھٹی آیت میں بھی اسی طرح آتا ہے۔ حتی اذا بلغوا النکاح یعنی جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ، بالغ ہوجائیں تو ان کے مال ان کو لوٹادو۔ جیسا کہ گزشتہ دور میں بیان ہوچکا ہے نزول قرآن کے زمانے میں عورتوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی تھی۔ ان کی حق تلفی ہوتی تھی اسلام نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ قانون کی نگاہ میں مردوزن یکساں ہیں البتہ مردوں کو ایک درجہ عورتوں پر فوقیت حاصل ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد عوتوں کو ذلیل سمجھنے لگیں۔ ان کے حقوق ضائع کریں یا ان پر کسی قسم کی زیادتی کریں۔ عرب لوگ عورتوں کی طرح یتیموں کے ساتھ بھی بڑی زیادتی کرتے تھے۔ یتیم کو وراثت کا جائز حصہ نہیں دیتے تھے۔ بلکہ ان کا حصہ ان کے متولی کھا جاتے تھے۔ یتیموں کے سرپرست عام طور پر بھائی چچا ، یا تایا وغیرہ ہوتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں یہ لوگ یتیموں کا مال ہڑپ کرجاتے تھے اور وہ بےچارے دردر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے رہ جاتے تھے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور کے صحافی سعد ؓ جنگ احد میں شریک ہو کر شہید ہوئے اس کی بچیاں یتیم رہ گئی ہیں۔ مگر مرحوم کے مال پر اس کے بھائی نے قبضہ کرلیا ہے۔ اب ان بچیوں کی گزراوقات اور ان کے نکاح کا بندوبست کیسے ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة ہذا کی آیت یوصیکم اللہ فی اولادکم… نازل فرمائی۔ چنانچہ یتیموں کی حق رسی کے متعلق سورة بقرہ ، سورة ہذا اور دیگر بہت سے مقامات پر سخت تاکید آئی ہے ، یہاں پر بھی آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کی حفاظت ، نگرانی ، تربیت اور ان کے مال کی حفاظت کے متعلق بڑی سخت تاکید کی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے انا وکافل الیتیم کھاتین یعنی میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا قیامت کے دن اس طرح ہوں گے جس طرح انگشت شہادت اور درمیانی انگلی قریب قریب ہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا ! حضور ! میرا خاوند فوت ہوگیا ہے میں اس کی تین یتیم بچیوں کی پرورش کررہی ہوں۔ آپ نے فرمایا لقد حظرت بحظار شدید دون النار تو نے دوزخ کی آگ کے سامنے بڑی سخت بڑھ لگادی ہے ، وہ باڑھ تجھے جہنم میں جانے تے روک دے گی۔ بہرحال یتیموں کی پرورش شخصی فرض بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات اسی مد میں آتے ہیں۔ غریبوں ، مسکینوں اور کمزوروں کو ان کا حق ادا کرنا اجتماعی ذمہ داری ہے کسی مزدور یا کسان کا حق غصب کرنا قطعی حرام ہے۔ ہر کارخانے دار اور زمیندار پر لازم ہے کہ وہ اپنے کارندوں کے حقوق کی حفاظت کرے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اعط کل ذی حق حقہ ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو۔ یہ ہمارے دین کا اہم اصول ہے۔ آج کل بڑے بڑے ادارے یتیموں اور مسکینوں کے نام پر فنڈ اکھٹا کرکے کھاجاتے ہیں الاماشاء اللہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ہر حق دار کو اس کا حق ملنا چاہیے جو رقم جس مقصد کے لیے اکٹھی ہوئی ہے۔ اسی پر خرچ ہونی چاہیے۔ حلال میں حرام کی ملاوٹ آگے فرمایا ولا تتبدلوالخبیث بالطیب نہ تبدیل کرو گندے مال کو پاک مال کے ساتھ ، یہاں پر خبیث وطیب سے مراد حلال و حرام ہیں۔ یتیم کا مال تمہارے حق میں خبیث ہے اسے اپنے پاک مال کے ساتھ مت تبدیل کرو۔ یتیم کا مال اپنے مال میں ملاکرکھانے کی کوشش کروگے تو تمہارے پاک میں خباثت کی ملاوٹ ہوجائے گی۔ ایسا نہ کرو۔ سورة بقرہ میں اللہ نے عام قانون کے طور پر فرمایا لاتاکلو اموالکم بینکم بالباطل ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھائو۔ فرمایا یایحل لامر مسلم ان یا کل مال اخیہ الا بطیب نفسہ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کا مال ناجائز طریقے سے کھائے سوائے خوشی اور رضا کے۔ غرض یہ کہ تمہارے حق میں یتیم کا مال حرام ہے۔ اسے پاک مال کے ساتھ مت ملائو۔ غصب شدہ مال چوری اور دھوکہ فریب سے حاصل کردہ مال حرام ہے ، اس سے بچو۔ حرمت کی حکمت اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حرام قرا ردی ہے وہ لازماً تمہارے حق میں مضر ہے۔ اسی طرح جس چیز کو خبیث فرمایا ہے۔ وہ بھی انسانی جسم کے لیے مہلک ہوسکتی ہے جیسے نھی عن الدوا الخبیث حضور ﷺ نے خبیث دوائی استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ زہر خبیث ہے اور یہ لازماً مہلک ہے ، اسی طرح دم مسفوح میں خباثت ہے اور اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ نذر بغیر اللہ میں روحانی خباثت پائی جاتی ہے اس لیے یہ بھی ما اھل بہ لغیر اللہ کے تحت حرام ہے۔ مردار اسی لیے حرام ہے کہ وہ مضر صحت ہے۔ سور کا گوشت بھی اسی قبیل سے ہے اور حرام ہے۔ غرض یہ کہ ہر حرام چیز میں کوئی نہ کوئی ظاہری یا باطنی خباثت ہے جس کی بناء پر وہ چیز ممنوع قرار دی گئی ہے۔ چوری ، جوئے ، رشوت یا غبن کا مال بظاہر تو ویسے ہی ہے جیسا حلال مال ہوتا ہے مگر خبیث ہونے کی بنا پر ناپاک ہے اس کے استعمال سے انسان میں نجاست ہی پیدا ہوگی۔ جو جسمانی اور روحانی ہر دو لحاظ سے مضر ہے۔ اکل حرام آگے فرمایا ولا تاکلو اموالھم الی اموالکم اور ان کے مالوں کو اپنے مالوں کے ساتھ ملاکر مت کھائو۔ مقصد یہ ہے کہ اگر تم یتیم کے مال کو اپنے مال کے ساتھ اس لیے ملاتے ہو تاکہ مشترکہ کھانے میں یتیم کا حصہ نسبتاً کم آئے گا اور اس طرح اس کا مال محفوظ رہے گا۔ پھر تو یہ درست ہے کیونکہ تمہاری نیت صحیح ہے ۔ تم یتیم کے مال کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کرنا چاہتے ہو۔ اسی طرح اگر تم یتیم کا مال اپنے مال کے ساتھ ملاکر مشترکہ کاروبار کرتے ہو ، کسی صنعت میں لگاتے ہو مشترکہ کھیتی باڑی کرتے ہو تاکہ یتیم کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بہتر ہے برخلاف اس کے اگر تم اپنا مال اور یتیم کا مال اس لیے ملاتے ہو کہ بدنیتی سے اس کا مال ہضم کیا جائے۔ کھانے میں شامل کرکے اس کے حصے میں زیادہ خرچہ ڈال دیا۔ یا تجارت میں لگایا جائے تو اس کو نفع تھوڑا دیا خود حصد رسدی سے زیادہ لے لیا جائے تو ہی اشتراک جائز نہیں ہوگا ، اسی کے متعلق فرمایا لاتاکلو اموالھم الی اموالکم بدنیتی سے اس کا مال کھانے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون ہے۔ سورة بقرہ میں اسی بات کے متعلق فرمایا کہ اگر تم یتیموں کو اپنے ساتھ ملالو ، تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ بشرطیکہ نیک نیت ہو کیونکہ والا یعلم المفسد من المصلح حوب کبیر فرمایا اگر ناجائز طریقے سے یتیموں کا مال کھائو گے تو انہ کان حوباً کبیرا بیشک یہ بہت بڑا گنا ہے لفظ حوب اور حوب دونوں گناہ کے معنی میں آتے ہیں۔ اور یہ الفاظ ظلم کا معنی بھی دیتے ہیں۔ جیسے عربی شاعر نے کہا ؎ انی وماکلفتمون من مزکم لیعلم من اھسی واعق واحویا یعنی تم نے جو مجھے تکلیف دی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شب گزار جان لے کہ تم نافرمان اور ظالم قوم ہو۔ دعا میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں۔ اللھم اقبل توبتی واغفر حوبتی اے اللہ میری توبہ قبول کرلے اور میرے گناہ معاف فرمادے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ یا اور اس کا تذکرہ حضور ﷺ کے سامنے بھی کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان طلاق ام ایوب لحوب ام ایوب کو طلاق دینا بڑے ہی گناہ کی بات ہے یا ظلم کی بات ہے۔ چناچہ حضرت ابو ایوب نے اپنا ارادہ پوراہ نہ کیا بلکہ طلاق دینے سے باز رہے۔ الغرض ! فرمایا یتیموں کے مال کو بدنیتی سے کھانا بہت بڑا گنا ہے تمہارے لیے یہ خبیث مال ہے اور قطعی حرام ہے یتیموں کے مال کی حفاظت کا قانون بیان کرنے کے بعد اگلی آیت میں یتیم لڑکیوں کے نکاح کا تذکرہ آرہا ہے۔ دس آیات تک یتیموں کے مال اور ان کے متعلق دیگر مسائل آئیں گے۔
Top