Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا
: اور دو
الْيَتٰمٰٓى
: یتیم (جمع)
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
وَلَا
: اور نہ
تَتَبَدَّلُوا
: بدلو
الْخَبِيْثَ
: ناپاک
بِالطَّيِّبِ
: پاک سے
وَلَا
: اور نہ
تَاْكُلُوْٓا
: کھاؤ
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
اِلٰٓى
: طرف (ساتھ)
اَمْوَالِكُمْ
: اپنے مال
اِنَّهٗ
: بیشک
كَانَ
: ہے
حُوْبًا
: گناہ
كَبِيْرًا
: بڑا
اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔
اسلام یتموں کے حقوق کی حفاظت کا علمبردار ہے قول باری ہے (واتو الیتامی اموالھم ولا تتبدل الخبیث بالطیب۔ یتیموں کا مال ان کو واپس دوا اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو) حسن سے مروی ہے کہ یتیموں کے مال کے متعلق جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے انھیں اپنے خاندان کے افرادبناکررکھنے سے نہ صرف گریز کرتا شروع کردیا، بلکہ یتیم لوگوں نے حضور ﷺ سے ان کی شکایت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم۔ یتیموں کے متعلق لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ کہوجس طرزعمل میں ان کے لیے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہت رہے اگر تم اپناخرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ تمہارے بھائی ہیں) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہاں راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ یہاں اس آیت سے یہ مراد ہے کہ یتیموں کو۔ جب وہ بالغ ہوجائیں۔ ان کا مال ان کے حوالے کردیاجائے۔ اس لیے کہ اہل علم کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے یتیم کو اس کا مال حوالے کردیناواجب نہیں ہوتا۔ وادی کو ایک دوسری آیت کی بناپرغلطی لگی ہے۔ اس کے متعلق ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انھیں ابوداؤد نے، انھیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انھیں جریرنے عطا سے انھوں نے سعیدبن جبیر سے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت (ولا تقربوا مالایتیم الابالتیھی احسن، یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر صرف اسی طریقے سے جو سب سے بہترہو) نیز (ان الذین یاکلون اموال الیتا می ظلما انما یاکلون فی بطورنھم نارا۔ جو لوگ ازراہ ظلم یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں، تو وہ اپنے پیٹوں کو آگ سے بھرلیتے ہیں) نازل فرمائی تو جس شخص کے زیرکفالت کوئی یتیم تھا، اس نے اس کا کھانا پینا علیحدہ کردیا حتی کہ اگر اس کا پس خوردہ بیچ رہتا تو اسے رکھ دیتا اور یتیم ہی کوا سے کھانا پڑتایا یہ کہ وہ خراب ہوجاتا، اس طریق کار سے بڑی وقتیں پیش آئیں اور لوگوں نے حضور ﷺ سے ان دقتوں کا ذکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم) نازل فرمائی۔ اس کے بعد سرپرستوں نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے ساتھ ملالیا اس بارے میں یہی صحیح روایت ہے۔ رہ گیا قول باری (واتوالیتمی اموالھم) تو اس کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمامراد یہ نہیں لیا کہ یتیموں کو ان کا مال حوالے کردو، جبلہ وہ ابھی یتیمی کی حالت میں ہوں، یعنی بالغ نہ ہوئے ہوں، ان کا مال انھیں حوالے کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب وہ بالغ ہوجائیں اور سمجھ بوجھ کے آثاران میں نظرآنے لگیں ۔ ان پر یتیم کے اسم کا اس لیے اطلاق کیا گیا کہ یتیمی کا زمانہ گزارنے میں انھیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ جس طرح کہ عدت کے اختتام کے قرب کو بلوغ اجل یعنی مدت ختم کرلینے کا نام دیاگیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (فاذابلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن بمعروف جب یہ اختتام مدت کو پہنچ جائیں تو انھیں یا تو بھیلے طریقے سے اپنے عقدزوجیت میں روک لویابھلے طریقے سے انھیں جانے دو ) اس پر ترتیب آیت میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم جب تم ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگوتو لوگوں کو اس پر گواہ بنالو) بلوغ سے پہلے ان پر لوگوں کو گواہ بنانا درست نہیں ہوتا ، تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہاں بلوغ کے بعد کا زمانہ مراد ہے۔ پھر انھیں یتیم یا تو اس لیے کہا گیا کہ یتیمی کا دور نھونے حال ہی میں گزارا ہے یا اس لیے کہ وہ اپنے اپنے باپ سے محروم ہوگئے ہیں، جبکہ ایسی صورت میں عام مشاہدہ یہی ہوتا ہے کہ ان میں اپنی ذات کے لیے تصرفات کرنے دربطریق حسن اپنے امور کی تدبیر اور دیجھ بھال میں ضعف اور کمزوری کا پہلونمایاں ہوتا ہے۔ اس وقت ان میں وہ کیفیت نہیں ہوتی جو تجربہ کار اومنجھے ہومے لوگوں میں زندگی کے معاملات سلجھانے اور سوجھ بوجھ کی پختگی کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ یزیدبن مرمزنے روایت کی ہے کو بجدہ بن عامرنے حضرت ابن عباس ؓ کی لکھ کر پوچھا کہ یتیھی کو مدت کا انقطاع کب جاکرہوتا ہے ؟ آپ نے اسے جواب میں لکھا کہ جب اس میں سمجھ بوجھ کے آثاء نظر آنے لگیں تو اس کی یتیمی کا زمانہ نقطع ہوجاتا ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں۔ ایک شخص عمر کے (رح) لحاظ سے اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں آجاتی ہے لیکن ابھی تک اس سے یتیمی کی کیفیت ختم نہیں ہوتی۔ حضرت ابن عباس نے دراصل یہ بتایا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص پر یتیم کا لفظ اس کے بالغ ہوجانے کے بعد بھی اس وجہ سے منطبق ہوتا ہے کہ اس کی عقل میں ابھی پختگی نہیں ہوتی ہے اور اس میں سمجھ بوجھ کے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ اس طرح آپ نے ایک شخص پر یتیم کے اسم کے اطلاق کے لیے اس میں رائے کی کمزوری اور عقلی کی ناپختگی کو ضروری قراردیا۔ بعض دفعہ یتیم کے اسم کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جس کا باپ اسے چھوڑکر دنیا سے رخصت ہوچکا ہو۔ نیز ایسی عورت کو بھی یتیمہ کہاجاتا ہے جو اپنے شوہر کے بعد تنہارہ گئی ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (تشامرالیتیمۃ فی نفسھا۔ شوہر کے بغیر رہ جانے والی عورت سے اس کے نکاح کے بارے میں اس کی رائے معلوم کی جائے گی) اور ظلہ رہے کہ بالغ ہونے کی صورت مین نکاح کے معاملے میں اس کی رائے معلوم کی جاتی ہے۔ ایک شاعر کا شعر ہے۔ ؎ ان القبورتنکح الایامی النسوۃ الارامل الیتامی قبروں کا ان عورتوں کے ساتھ نکاح ہوتا ہے جو شوہروں کے بعد تنہارہ جاتی ہیں۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ جب کوئی شخص ادھیڑعمرکا یابوڑھا ہوجانے اس پر یتیم کے اسم کا اطلاق بنیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص ناقص العقل اور ضعیف الرائے ہو تو اس کے بارے میں بچپن کے زمانے سے اس کے قرب کے اعتبار کے سوا اور کوئی پارہ نہیں ہوتا۔ جبکہ بڑی عمر کی عورت کو اس وجہ سے یتیمہ کہاجاتا ہے کہ وہ شوہر کے بغیرآتی ہے۔ اور بڑی عمر کے مردکوباپ کے بغیر ہونے کی وجہ سے یتیم نہیں کہا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ اپنے کمسن بچے کی سرپرستی کرتا اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کے علاوہ اسے اپنے ساتھ رکھتا ہے اس لیے باپ کے بغیر رہ جانے کی صورت میں وہ یتیم کہلاتا ہے۔ اس بناپربا (رح) لغ ہوجانے کے بعد بھی جب تک اس کی حالت کمزور اور اس کی سمجھ بوجھ ناقص ہوتی ہے اسے یتیم کا نام دیاجاتا ہے، اس کے برعکس عورت کو یتیمہ اس لیے کہاجاتا ہے کہ وہ شوہر کے بغیر ہوتی ہے جس کی پناہ اور حفاظت میں وہ زندگی گزارتی ہے، اس لیے اگر وہ بوڑھی بھی ہوجائے اس کے ساتھ یہ نام چپکارہتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں بھی شوہر کا وجود اس کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو بچے کے لیے باپ کا وجودرکھتا ہے کیونکہ شوہرہی اس کی حفاظت کفالت اور نگرانی کا ذمہ دارہوتا ہے۔ اس لیے جب عورت شوہر سے محروم ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے اسے یہ باتیں حاصل ہوتی ہیں اسے یتیمہ کہاجاتا ہے، جس طرح کہ کم سن اور نابالغ بچے کو اس لیے یتیم کہاجاتا ہے کہ وہ اس شخص (یعنی باپ سے) محروم ہوتا ہے جو اس کی حفاظت اور کفالت کا ذمہ دارہوتا ہے۔ آپ نہین دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں) یعنی ان کی حفاظت اور نگہبانی کرنے اور ان کی ضروریات مہیا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ نیز ارشاد ہے (وان تقومواللیتمی بالقسط اور یہ کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو) اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کاقیم، یعنی حفاظت اور نگہبانی کرنے والا نیز اس کی ضروریات مہیا کرنے والاقراردیا جس طرح کہ یتیم کے وئی کو اس کا قیم قراردیا۔ حضرت علی ؓ اور حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ذمایا (لایتم بعد حلم عقل اور سمجھ بوجھ آجانے کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی) آپ کا قول دراصل یتیمی کی حقیقت کا بیان ہے اس بناپربلوغت کے بعد کسی کو یتیم کہنا مجازا ہوتا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ کمزور اورضعیف العقل پر یتیم کے اسم کی حضرت ابن عباس ؓ سے منقولی روایت کی روشنی میں ہم نے جس دلالت کا ذکر کیا ہے وہ ایک مسئلے میں ہمارے اصحاب کے قول صحت پر دال ہے مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے خاندان کے یتیموں کے لیے وصیت کرجائے اور اس خاندان کے افراد بےشمارہوں تو اس صورت میں ایسے یتیموں کے لیے یہ وصیت جاری ہوجائے گی جو فقیر اور تنگ دست ہوں گے، اس لیے کہ یتیم کا اسم اس پر دلالت کرتا ہے اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی جو ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے بیان کی انھیں حسن بن ابی الربیع نے انھیں جبدالرزاق نے، انھیں معمرنے حسن سے کہ ۔ دولت نادانوں کے حوالے نہ کی جائے قول باری (ولاتؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما، اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو) میں السفھاء، سے مراد تمھارانادان بیٹا اور تمھاری نادان بیوی ہے۔ پھر فرمایا : قول باری (قیاما) سے مرادتمھاری زندگی کے قیام کا ذریعہ ہے۔ یہ بھی ذک رہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (اتقوا اللہ فی الضعیفین الیتیم والمواۃ ووکمزوروں، یتیم اور عورت کے یارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو) حضور ﷺ نے یتیم کو ضعیف کا نام دیا۔ آیت میں مال حوالہ کرنے کے لیے سوجھ بوجھ کے آثار کے ظہورکوشرط قرار نہیں دیا گیا۔ ظاہر آیت کا تقاضایہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد یتیم کا مال اس کے حوالے کردیاجائے، خواہ اس میں عقل اور سمجھ کے آثارنظرآئیں یا نہ آئیں یا البتہ قول باری (حتی اذابلغوالنکاح۔ فان انستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالھم۔ یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمرکو پہنچ جائیں پھر اگرتم ان کے اندراہلیت پاؤتو ان کے مال ان کے حوالے کردو) میں اس کی شرط لگادی گئی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر بلوغت سے لے کر پچیس برس کی عمرتک عمل ہوگا۔ جب وہ اس عمر کی پہنچ جانے گا اور اس وقت بھی اس میں سمجھ بوجھ اور اہلیت کے آثارنظر نہیں آئیں گے تو بھی اس کا مال اس کے حوالہ کردینا واجب ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے۔ (واتوالیتامی اموالھم۔ یتیموں کو ان کا مال حوالے کردوم اس آیت کے مقتضی اور ظاہر پرپچیس برس کی عمر کے بعد عمل ہوگا۔ اس سے پہلے اہلیت کے وجود کے بغیر مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اہلیت اور سمجھ بوجھ کا پایاجانا مال حوالہ کرنے کے وجوب کی شرط ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے قابل قبول ہے کہ اس کے تحت دونوں میں سے ہر آیت کے ظاہر کے مقتضی اور فائدے پر عمل ہوجاتا ہے۔ اگرہم تمام حالتوں میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کا اعتبار کرلیں تو اس سے دوسری آیت کے حکم کا بالکلیہ اسقاط لازم آئے گا یہ دوسری آیت (واتوالیتامی اموالھم) ہے اس لیے کہ اس میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کی شرط موجود نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں کسی قرینہ اور سمجھ بوجھ کے آثار کے وجود کے بغیر مطلقا مال کو ان کے حوالہ کردینا واجب قراردیا ہے۔ جب زوآیتیں اس طرح داردہوں کہ ایک میں حکم کا ایجاب کسی قرینہ کو متضمن ہو اور دوسری آیت کسی قرینہ کو متضمن نہ ہو اور ہمارے لیے ان دونوں کے حکموں پر عمل کرکے فائدہ اٹھا ناممکن ہو، تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم ان دونوں کو صرف ایک کے فائدے تک محدودکرکے دوسری آیت کے فائدے کو ساقط کردیں۔ ہمارے بیان سے جب یتیم کو اس کا مال حوالے کرنے کا وجوب ثابت ہوگیا۔ کیونکہ قول باری ہے (واتوالتیامی اموالھم) نیز ترتیب آیت میں یہ قول بھی ہے (فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم) قویہ بات اس پر بھی دلالت کرگئی کہ مال پر قبضہ کرنے کے متعلق اس کا اقرار جائز ہے۔ کیونکہ قول باری (فاشھدواعلیھم) مال پر ان کے قبضہ کے اقرار کے سلسلے میں گواہ بنالینے کے جواز کو متضمن ہے۔ اس میں یتیم پر پابندی لگانے کی نفی اور اس کے تصرف کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے۔ اس لیے کہ جس شخص پر پابندی لگی ہو، اس کا اقراردرست نہیں ہوتا اور جس پر گواہ بنانا واجب ہوتا ہے اس کا اقرار جائز ہوتا ہے۔ قول باری ! ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب) کی تفسیر میں مجاہد اور ابوصالح سے مروی ہے کہ حرام کو حلال سے نہ بدلو۔ یعنی اپنے حلال رزق کا بدل جلدبازی کی بناپرحرام نہ بنالو کہ مثلا تم یتیم کا مال صرف کرنا شروع کردویہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے یا اسے اپنی تجارت میں لگادویا اسے اپنے لیے روک کریتیم کو کوئی اور مال دے دو ۔ اس صورت میں یتیم کا جو مال تم لوگے وہ حرام اور خبیث مال ہوگا اور تم اسے اپنا حلال مال دے دوگے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بطوررزق دیا ہے بلکہ تمہیں چاہیے کہ یتیموں کو ان کے اموال اصلی صورت میں حوالے کردو۔ یہ تفسیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ یتیم کے ولی اور سرپرست کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے مال میں سے اپنی ذات کے لیے قرضہ لے اور نہ ہی اس میں اس طرح ادل بدل کرے کہ اسے اپنے لیے روک کر اس کی جگہ یتیم کو کرٹی اور مال دے دے، تاہم اس تفسیر میں یہ دلالت نہیں ہے کہ ولی کے لیے یتیم کے مال میں خریدوفروخت کے ذریعے تصرف کرنا جانز نہیں ہے اس لیے کہ ممانعت تو صرف اس کی ہے کہ وہ یتیم کے مال کو اپنے لیے روک کر اس کی جگہ کوئی اور مال اسے دے دے ۔ اس تفسیر میں یہ دلالت بھی ہے کہ ولی کے لیے یتیم کے مال میں سے اپنی ذات کے لیے کوئی چیز اس کی قیمت کے برابر قیمت دے کر خریدلینا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ ولی کو اپنی ذات کے لیے یتیم کے مال میں کوئی اول بدل کرنے سے روک دیا گیا ہے اور یہ حکم استبدال کی تمام صورتوں کو شامل ہے اس سے صرف وہ صورت مستثنیٰ ہے جس کے جواز کی دلیل موجود ہو۔ امام ابوحنفیہ کے نزدیک جواز کی صورت یہ ہے کہ ولی یتیم کے مال میں سے جوچیزلے، اس کے بدلے میں اسے جوچیزدے، اس کی قیمت پہلی چیز کی قیمت سے زیادہ ہو۔ اس لیے کہ قول باری ہے ولا تقربوامال الیتیم الابالتیھی احسن۔ سعیدبن المسیب، زہری ضحاک اور سدی نے قول باری (ولاتتبدلوالخبیث بالطیب) کی تفسیر میں کہا ہے کہ جید یعنی کھرے کے بدلے کھوٹا مال اور پلے ہوئے قربہ جانور کے بدلے دبلاپتلاجانورنہ دو ۔ قول باری (ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاجاؤ) کی تفسیر میں مجابد اور سدی سے منقول ہے کہ یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملاکرنہ کھاؤ۔ انھیں یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملانے سے روک دیا گیا ہے۔ ملانے کی صورت یہ ہے کہ ولی یتیم کا مال بطورقرض لے لے اور اس طرح اس کا مال ولی کے ذمہ دین جائے اور پھر ولی اس مال اور اس کے منافع میں سے کھانے کا جواڑپیدا کرلے۔ قول باری ہے (انہ کان حوباکبیرا۔ یہ کارروائی بڑے گناہ کی بات ہے) ابن عباس ؓ ، مجاہد حسن اور قتادہ کا قول ہے، یہ بڑا گناہ ہے۔ آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ بالغ ہوجانے اور سمجھ بوجھ کے آثارظاہر ہونے کے بعد یتیموں کو ان کے مال واپس کرنا واجب ہوجاتا ہے، خواہ وہ اس کا مطالبہ نہ بھی کریں اس لیے کہ واپسی کا حکم مطلق ہے اس میں کوئی شرط نہیں ہے کہ یتیموں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہونے پر انھیں واپس کیا جائے، بلکہ واپس نہ کرنے پر عذاب کی دھمکی سنائی گئی ہے۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جس کے پاس کسی اور کا مال ہو اور وہ اسے واپس کرنا چاہے تو اس کے لیے مستحب طریقہ یہ ہے کہ واپسی پر لوگوں کو گواہ نبائے، کیونکہ قول بارے ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم) ۔ واللہ الموفق۔
Top