Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور دیکھو بےباپ بچوں کا مال ان کے حوالے کر دو ایسا نہ کرو کہ ان کی اچھی چیز کو اپنی ناکارا چیز سے بدل ڈالو اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا جلا کر خورد برد کر دو ، یقینا ایسا کرنا بڑی ہی گناہ کی بات ہے
معاشرہ اسلامی کے حقوق میں سے بےباپ بچوں کے حقوق کا تذکرہ کیا جا رہا ہے : 6: اس سلسلے میں سب سے زیادہ مستحق بےباپ بچے تھے لہٰذا ان کا ذکر سب سے پہلے کردیا۔ یہ بےباپ بچے کون ہیں ؟ وہی جو یتیم ہیں مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ ان یتیموں کے نگران و محافط ہوں ان کو چاہیے کہ ان کا مال الگ رکھیں اپنے مال کے ساتھ ملا کر ان کے مالوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ وہ بےباپ بچہ جو باپ کے سایہ محبت و عاطفت سے محروم ہے جماعت کے ہر رکن کا فرض ہے کہ اس کو محبت آغوش میں لے ، اس کو پیار کرے ، اس کی ہر طرح خدمت کرے۔ اس کے متروکہ مال و اسباب کی حفاظت کرے۔ اس کی تعلم و تربیت کی فکر رکھے عقل و شعور کے پہنچنے کے بعد اس کے باپ کی متروکہ جائیداد اس کو واپس کر دے اور اس کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرے۔ گویا یہ وہ احکام ہیں جو مکہ کا ایک بےباپ بچہ جو علم الٰہی میں اس کا رسول تھا اور وقت آنے پر رسول بنا کر مبعوث کیا گیا وہ اپنے ساتھ لایا۔ عربوں میں روزانہ کے قتل و غارت اور بد امنی کے باعث یتیموں کی کثرت رہتی تھی مگر جیسا کہ چاہیے ان کو غور و پرداخت کا سامان نہ تھا۔ اپنے باپ کی وراثت سے وہ محروم رہتے تھے۔ کیونکہ چھوٹے بچوں کو وہ وراثت نہیں دیا کرتے تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری ج : 4 ص 170) اور اس وقت کے سنگدل عربوں میں عام طور پر ان کے ساتھ رحم و شفقت کا جذبہ بھی مطلق نہ تھا۔ قرآن کریم میں ان کی اس بدسلوکی کا ذکر بار بار کیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : اَرَیْتَ الَّذیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ فَذٰلِکَ الِّذِیْ یَدُعُ الْیَتِیْمَ ” کیا آپ نے اس کو دیکھا جو انصاف کو جھٹلایا ہے۔ وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ “ ایک جگہ ان متولیوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جو یتیموں کے جوان ہونے کے ڈر سے ان کے آباد و اجداد کی متروکہ وراثت کو جلد جلد ہڑپ کر جانا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ ایسی برائی کے مرتکب ہونے میں ذرا جھجھک محسوس نہ کرتے۔ چناچہ الٰہی ہے : کَلَّا بَلْ لاَ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (الفجر : 20 , 18:89) ” نہیں ، ہرگز نہیں ! بلکہ بات در اصل یہ ہے کہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور نہ ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے پر آمادہ کرتے ہو اور مردے کا مال پورے کا پورا سمیٹ کا کھا جاتے ہو اور دنیا کے مال پر جی بھر کر ریجھتے ہو اور جمع کرنے میں حلال و حرام میں بھی نہیں کرتے ہو۔ “ اسلام سے پہلے کسی مذہب میں اس واجب الرحم فرقہ کے ساتھ رحم و شفقت اور ان کی امداد و پرورش کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس مظلوم فرقہ کی اصل داد رسی کا وقت اس وقت آیا جب مکہ کا یتیم ہونے والا دین کامل کی شیریعت لے کر آیا اور وحی الٰہی نے سب سے پہلے خود اس کو خطاب کر کے یاد دلایا کہ : اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِماً فَاٰوٰی (الضحیٰ : 6:93) ” کیا تجھ کو اللہ نے بےماں باپ نہیں پایا پھر اس نے تجھ کو پناہ دی۔ “ اب تو بھی ایسا ہی کر کہ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلاَ تَقْھَرْ (الضحیٰ ) ” پس یتیم کو مت ڈانٹ ڈپٹ۔ “ (9:93) رسول مکرم و نبی معظم ﷺ مکہ مکرمہ میں بےبسی کے عالم میں رہے۔ یتیموں کے متعلق اخلاقی ہدایات فرماتے رہے اور قریش کے جفا پیشہ رئیسوں کو اس بیکس اور بےسہارا گروہ پر رحم و کرم کی دعوت دیتے رہے اور مسلسل مکی زندگی میں آپ ﷺ کو یہ تعلیمات وحی ہوتی رہیں۔ دولت مندوں کو غریبوں کے ساتھ فیاضی کی تلقین کے سلسلہ میں فرمایا گیا کہ انسانی زندگی کی گھاٹی کو پار کرنا اصل کامیابی ہے۔ اس گھاٹی کو تم کیوں کر پاس کرسکتے ہو ؟ فرمایا ظلم و ستم کے گرفتاروں کی گردنوں کو چھڑا کر بھوکوں کو کھانا کھلا کر اور یتیموں کی خدمت کر کے۔ چنانچہ ارشاد ہو : اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ (بلد : 15 , 14:90) ” یا بھول والے دنوں میں کسی رشتہ اور یتیم کو کھانا کھلانا۔ “ اس طرح نیکو کار لوگوں اور بختہ وروں کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھرھھ : 8:76) ” اس کی محبت کی خاطر کسی غریب و یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ “ اب ہجرت کرکے آپ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لاتے ہیں اور گروہ کہ ان کی اچھی چیز کو اپنی ناکارہ چیز سے بدل ڈالو اوسر ان کا مال اپنے مالوں کے ساتھ ملا جلا کر خورد برد کرو “ یتیموں کے مال کو ناجائز طریقوں سے کھانا معمولی قسم کی برائی نہیں بلکہ جرم عظیم ہے : 7: پھر ظاہر ہے کہ جتنا بڑا ظلم ہوگا اتنی بڑی اس کو سزا ہوگی۔ اس لئے فرمایا کہ ” یتیموں کا مال ناجائز طریقوں سے کھانا بڑی ہی گناہ کی بات ہے۔ “ وہ بڑی ہی گناہ کی بات کیا ہے ؟ فرمایا کان کھول کر سن لو اور اچھ طرح یاد رکھو۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا (النساء : 10:4) ” جو لوگ یتیموں کا مال ناانصافی سے خورد برد کرلیتے ہیں تو وہ یاد رکھیں۔ کہ یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اپنے پیٹ میں آگ کے انگاری بھر رہے ہیں اور عنقریب یہ لوگ دوزخ میں جھونک دئیے جائیں گے۔ “ ” یَاکُلُوْنَ “ کے معنی خورد برد کیوں ؟ اس لئے کہ ” یَاکُلُوْنَ “ سے مراد اس جگہ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ ناجائز مصروف ہے اور ناجائز مصروف کو خورد برد کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے تاکہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ایسے مال کو کھانا تو پیٹ میں آگ بھرنے کے مرادف ہے لیکن باقی مصف میں لے آنے میں تو کوئی قباحت نہیں اور ویسے بھی زمین کھا جانا ، مکان کھا جانا ، کو ٹھی اور کار کھا جانا ، سونا اور چاندی کھا جانا اور اسی طرح مال ومویشی کھا جانا کے مطلب کو ساری دنیا سمجھتی ہے اور قرآن کریم بھی انسانوں ہی کی زبان میں ناذل کیا گیا ہے۔ اس لئے ان ساری باتوں سے جو کچھ لوگ سمجھتے ہیں وہی قرآن کریم کی بھی مراد ہے۔ سیدھا سادا اور صاف مطلب چھوڑ کر لفظی معنوں میں الجھاؤ وہی پیدا کرتے ہیں جن کی اپنی نیت میں فتور ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے شب معراج میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اونٹ کے لبوں کی طرح تھے کہ بالائی لب سکٹر ہوا دونوں نتھنوں پر تھا اور نچلا ہونٹ سینہ پر لٹکا ہوا۔ جہنم کے کارندے ان کے منہ میں دوزخ کے انگارے اور پتھر بھر رہے تھے۔ میں نے پوچھا جبرئیل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال بےجا طور پر کھاتے تھے۔ “ (رواہ ابن جریر و ابن ابی حاتم من حدیث ابن سعید الخدری ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ قبروں سے کچھ لوگوں کو ایسی حالت میں اٹھائے گا کہ ان کے منہ سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ کون لوگ ہوں گے فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے انگارے بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں۔ “ (ابن ابی شیبہ نے مسند میں اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں حدیث کو بیان کیا) ۔ اس پوری آیت کا ماحصل یہ ہوا کہ جب تک وہ بچے ہیں ان کا مال انہیں پر صرف کرو اگر تم اپنے پاس سے مال خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے یا صرف کرنا نہیں چاہتے اور جب وہ بڑے ہوجائیں تو جو ان کا اصل مال ہے وہ ان کو واپس کر دو ۔ ایسا نہ کرو کہ ٹوٹل پورا کرنے کے لئے ان کی اچھی اشیاء کو اپنی نکمی اشیاء سے بدل کر ٹوٹل پورا کر دو ۔ ایسا نہ کرنا بڑی ہی گناہ کی بات ہے۔
Top