Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور دیدو یتیموں کو ان کے مال اور مت بدلو خبیث مال کو اچھے مال سے، اور مت کھاؤ ان کے مالوں کو اپنے مالوں میں ملا کر، بیشک ایسا کرنا بڑا گناہ ہے۔
اموال یتامیٰ کے بارے میں تین حکم : پھر یتیموں کے اولیاء کو حکم دیا کہ تم ان کے مال ان کودے دو اچھے مال کو برے مال سے تبدیل نہ کرو۔ اور اپنے مال ان کے مالوں میں ملا کر نہ کھا جاؤ اس میں تین باتوں کا حکم فرمایا ہے۔ یتامیٰ کے اموال دے دو : اول یہ کہ جو یتیم بچے تمہاری پرورش میں ہیں ان کے مال جو انہیں میراث میں ملے ہیں یا کسی نے انہیں ہبہ کردیئے ان کے بالغ ہونے تک ان کے مالوں کو محفوظ رکھو اور بقدر ضرورت ان کے مالوں میں سے ان پر خرچ کرتے رہو۔ پھر جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو ۔ ایسا نہ کرو کہ جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا مال بلا وجہ اپنی تحویل میں رکھے رہو اور ان کو دینے سے منع کر دو ۔ اسباب النزول صفحہ 136 میں ہے کہ یہ آیت بنی غطفان کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی اس کی پرورش میں ایک یتیم بچہ تھا جو اس کے بھائی کا لڑکا تھا۔ جب یتیم بالغ ہوگیا تو اس نے اپنا مال طلب کیا۔ چچا نے اس کا مال سپرد کرنے سے انکار کردیا اس پر دونوں چچا بھتیجے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی چچا نے جب یہ آیت سنی تو کہا کہ ہم اللہ و رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور بڑے گناہ سے پناہ مانگتے ہیں یہ کہا اور یتیم کا مال اس کے حوالے کردیا۔ یتامیٰ کے اچھے مال کو برے مال سے تبدیل نہ کرو : دوم یہ فرمایا کہ برے مال کو اچھے مال سے تبدیل نہ کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ یتیم بچے جو تمہاری پرورش اور نگرانی میں ہیں جن کا مال تمہارے قبضہ میں ہے ان کے اچھے مال کو خود اپنے حصے میں اور اپنے گھٹیا مال کو اس کے عوض اس کے حساب میں لگا کر حساب پورا نہ کر دو ۔ اپنی اولاد کی خاطر لوگ یتیم کے ساتھ ایسا معاملہ کرتے ہیں کہ اچھی جائداد اور اچھا مال جو یتیموں کی ملکیت ہو اسے اپنا بنا کر اپنے نام رجسٹری کر وا لیتے ہیں اور یتیم بچوں کو گھٹیا مال دے دیتے ہیں۔ اور بعض مفسرین نے (وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بالطَّیِّبِ ) کا یہ معنی بھی بتایا ہے کہ اپنے حلال مال کو چھوڑ کر یتیموں کا مال نہ کھا جاؤ جن کا کھانا تمہارے لیے حرام ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو طیب کو چھوڑ کر خیانت کرکے دوسرے کا مال کھانے والے بن جاؤ گے۔ اور یہ مال چونکہ تمہارے لیے حرام ہوگا اس لیے خبیث ہوگا، یہ معنی بھی لفظ قرآنی سے بعید نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اپنا گھٹیا مال یتیم کے حصہ میں لگا کر اس کا اچھا مال لینا حرام ہے تو یہ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہوگا کہ ان کا مال بالکل ہی بلا بدل کے کھالیا جائے۔ یتامیٰ کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھا جاؤ : سوم : یہ ارشاد فرمایا کہ (وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ الآی اَمْوَالِکُمْ ) (اور یتیموں کے مالوں کو اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ) یتیم بچے جن لوگوں کی پرورش میں ہوتے ہیں ان میں جن کا مزاج خیانت والا ہوتا ہے ایسے لوگ مختلف طریقوں اور تدبیروں سے یتیموں کے مالوں کو اپنے مالوں میں ملا کر کھا جاتے ہیں کچھ لوگ تو غفلت اور بےدھیانی میں ایسا گزرتے ہیں کہ گھر کی مشترکہ ضرورتوں میں مال خرچ کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ یتیم بچے پر اس کے اپنے ذاتی مال میں سے کتنا خرچ ہوا اور اس کے مال میں سے مشترکہ ضروریات میں دوسروں پر کتنا خرچ ہوا ہے ؟ اور کچھ لوگ قصداً وارادۃً ایسا کرتے ہیں کہ یتیم بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے ہی ان کے مال کو کسی نہ کسی طرح اپنے نام میں یا اپنی اولاد کے نام میں لکھوا دیتے ہیں پھر جب وہ بالغ ہوجاتا ہے تو اسے اپنے مال میں سے ذرا بہت ملتا ہے یا بالکل ہی محروم ہوجاتا ہے۔ فائدہ : یتیم بچوں کا کھانا اپنے کھانے میں ملا کر پکانے کے بارے میں ضروری ہدایت سورة بقرہ کی آیت (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی) کی تفسیر میں گزر چکی ہے وہاں ملا حظہ کرلی جائے۔ آخر میں فرمایا (اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا) (یعنی یتیم کے مال میں خیانت کرنا بڑا گناہ ہے) ہر امانت داری کی خلاف ورزی گناہ ہے لیکن یہاں مستقل طریقہ پر یتیم کے مال میں خیانت کرنے پر تنبیہ فرمائی اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ گناہ ہے بلکہ یہ فرمایا کہ بڑا گناہ ہے جو لوگ یتیموں کے مالوں کے محافظ و متولی ہیں پوری آیت کو بار بار پڑھیں۔
Top