Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کے مال ان کو دیتے رہا کرو اور پاک مال کو ناپاک مال سے نہ بدلو اور ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ ملاکر خورد برد نہ کرو یقیناً ایسا کرنا بڑا گناہ ہے2
2 اور یتامیٰ یعنی بن باپ کے بچوں کا مال انہی کو دیتے رہو اور حسب ضرورت انہی پر خرچ کرتے رہو اور اچھی چیز کو بری چیز سے نہ بدلو اور ان بن باپ کے بچوں کا مال اپنے اموال کے ساتھ ملاکر خود برد نہ کرو یقیناً ایسا کرنا یعنی اچھی چیزوں کو بری چیزوں سے بدلنا یا ہوتے سا تھے بلاضرورت ان کے مال سے نفع حاصل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اوصیا اور اولیاء کو چاہئے کہ ان کے پاس یتیموں کا جو مال ہو وہ اس مال کو یتامیٰ کی ضروریات پر خرچ کرتے رہیں اور حسب ضرورت ان کو دیتے رہیں اور ان کے مال میں ادل بدل نہ کریں کہ اچھی چیز ان کے مال میں سے نکال لیں اور بری چیز ان کے مال میں رکھ دیں۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوا کرتا تھا اسی طرح ان کے اموال کو اپنے اموال میں شامل کرکے خورد برد نہ کریں کہ اپنے مال کے ساتھ ان کا مال کھاجائیں اور ہوتے سا تھے بلاضرورت ہم نے اس لئے کہا کہ اگر یہ نگراں اور پرورش کرنے والا مالدار ہو تو ایسا کرنا حرام ہے البتہ اگر فقیر ہو تو دستور کے موافق حق الخدمت کے طور پر کچھ کھا سکتے ہے جس کا حکم آجائے گا۔ اسی لئے ہم نے عرض کیا ہے کہ ہوتے سا تھے ان کا مال اپنے مال میں ملاکر نہ کھاجائو۔ اس قسم کی کارروائی کرنا کہ اچھا مال نکال کر اس کی جگہ برا رکھ دینا یا ہوتے سا تھے ان کا مال کھا جانا بڑا گناہ ہے۔ جو مطلب آیت کا ہم نے بیان کیا ہے یہ اس شان نزول کی بنا پر ہے جو ابن جریر نے سدی سے نقل کیا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یتیم کے ریوڑ میں سے موٹی بکری نکال کر اپنے ریوڑ میں سے دبلی اور بیمار بکری یتیم کے ریوڑ میں ملا دیتے تھے اسی طرح یتیم کے مال میں سے کھرا دینار نکال کر اس کے مال میں کھوٹا دینار رکھ دیتے تھے اور کہتے تھے بکری کی جگہ بکری اور دینار کی جگہ دینار۔ اس ادل بدل کو اللہ رب العزت نے حرام فرمایا اس تقدیر پر تبدل کے معنی تغیر کے ہوں گے اور مطلب یہ ہوگا کہ حلال مکتب کو حرام منعقب سے نہ بدلو۔ یعنی تم نے جو مال کمایا ہے وہ حلال ہے اور یتیم کا جو مال تم نے غصب کیا تو وہ اس غصب کرنے کی وجہ سے حرام ہے تو ہلال کو حرام سے نہ بدلو ! اگرچہ ولا تتبدلو الاخبیث بالطیب کا مفہوم بہت ہی عام ہے۔ اور بہت سے معنی ہوسکتے ہیں مثلاً کفر کو ایمان سے نہ بدلو یا بری عادت کو اچھی عادت سے نہ بدلو ۔ یا بداخلاق عورت کو خوش اخلاق عورت سے نہ بدلو یا بری تجارت کو اچھی تجارت سے نہ بدلو۔ غرض ! الفاظ میں بڑی گنجائش ہے لیکن یہاں مطلب وہی ہے جو ہم نے عرض کیا ہے اور یہ جو فرمایا ان کے مال اپنے مال میں شامل کرکے خورد برد نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مال میں بےجا تصرف نہ کرو یہ مطلب نہیں ہے کہ بس ان کا مال کھائو نہیں اور جو کچھ چاہے کرو۔ جیسا کہ بعض بدمعاملہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کے کھانے کی ممانعت کی ہے کپڑا بنانے کی ممانعت نہیں کی ہے۔ کھانے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ مال کا اہم مفاد اور بڑی غرض کھانا اور پیٹ پالنا ہے ورنہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یتیم کا مال اپنے مال میں شامل کرکے کھائو نہیں اور جس طرح چاہے اس کا مال اڑائو۔ اور دوسرے پارے میں جو اختلاط کی اجازت دی ہے اس پر اس ممانعت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہاں ملانے سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ یتیم کا مال کھا جائیں بلکہ وہاں اس دشواری کا دور کرنا ہوتا ہے جو علیحدہ علیحدہ توا چولہارکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہاں غرض شامل کرنے سے اس کا مال تلف کرنا ہے اور چونکہ فقیر کو حق الخدمت کے طور پر یتیم کے مال میں سے خدمت کی اجرت لینا جائز ہے جیسا کہ چند آیتوں کے بعد آجائے گا اس لئے ہم نے ہوتے سا تھے اور بلاضرورت کی قید لگائی ہے۔ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں۔ اپنے بعض اکابر نے ولا تاکلوا اموالھم کا ترجمہ اس طرح کیا ہے اور ان کے مال مت کھائو اپنے مالوں کے رہنے تک ! اس ترجمہ میں اگر کاش یہ مشکل نہ ہوتا تو ایک خوبی یہ ہے کہ الی اپنے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور الی کو مع کے معنی میں لے کر ترجمہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور ایک خوبی اس ترجمہ میں اور بھی ہے جس کو اہل علم سمجھتے ہیں کہ اس ترجمہ سے یتیم کا مال کھانے کی حرمت ثابت ہوئی ہے خواہ وہ تبدیل کے بعد ہو یابلا تبدیل ہو۔ (واللہ اعلم) آیت زیر بحث کا ایک دوسرا شان نزول وہ ہے جس کو ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ غطفان کا ایک آدمی تھا اس کے پاس اس کے یتیم بھتیجے کا بہت مال تھا۔ جب وہ بھتیجا بالغ ہوگیا تو اس نے چچا سے اپنا مال طلب کیا۔ چچا نے انکار کردیا۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کو سن کر یتیم کے چچا نے کہا۔ اطعنا اللہ ورسولہ نعوذ باللہ من الحرب الکبیر یعنی ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں اور کسی بڑے گناہ کے مرتکب ہونے سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ اس شان نزول کی بنا پر بعض حضرات نے واتو الیتیمی اموالھم کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ یتیموں کو جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کے مال سپرد کردو اور دیدیو۔ اس تقدیر پر اول تو یتیم کے معنی میں بالغ یتیم کرنا ہوگا حالانکہ یتیم اس بن باپ کے بچے کو کہتے ہیں جو بالغ نہ ہوا ہو۔ بالغ ہوجانے کے بعد پھر عرفاً اور شرعاً اس پر لفظ یتیم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نیز ہم نے اس لئے اس کو اختیار نہیں کیا کہ بالغوں کا حکم مستقلاً آگے آرہا ہے اگر یہاں بھی وہ معنی لئے جائیں تو بلاوجہ تکرارہوگی۔ بہرحال اس معنی سے بھی ہم کو انکار نہیں اور اس کی بھی گنجائش ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے اولیا اور اوصیام تم یتیموں کے مال کی حفاظت کرو کسی طرح اس مال کو نقصان پہنچانے کے درپے نہ ہو اور جب وہ یتیم اس مال کی واپسی کے مستحق ہوجائیں تو وہ مال بلاکم وکاست ان کے سپردکردو۔ (واللہ اعلم، ) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جس لڑکے کا باپ مرجائے تو اس کے بڑوں کو تقلید ہے کہ اس کے مال میں ہاتھ نہ ڈالیں اور بدل نہ لیں احتیاط سے رکھیں جب بالغ ہو تو حوالہ کردیں۔ (موضح القرآن) حوب کے معنی حضرت عبداللہ بن عباس نے گناہ اور ظلم کئے ہیں ہم نے حبر الامت کا ایک قول اختیار کرلیا ہے۔ تبدل کے معنی میں صاحب روح المعانی نے بڑی سیر حاصل بحث کی ہے جو صاحب تفصیل پسند کرتے ہوں وہ روح المعانی ملاحظہ فرمائیں۔ اب آگے اسی سلسلے میں یتیموں کے اور حقوق بیان کرتے ہیں۔ مثلاً زمانہ جاہلیت میں بعض اولیا یہ بھی کرتے تھے کہ کسی یتیم لڑکی کو مالدار دیکھا اور خوبصورت سمجھا تو اس کو نکاح میں لے آئے۔ اور چونکہ خود پرورش کنندہ ہوتے تھے اور دوسرا کوئی شخص اس لڑکی کی وکالت کرنے والا نہ ہوتا تھا اس لئے اس خوبصورت اور مالدار لڑکی کا مہر اس کی حیثیت سے بہت کم مقرر کرلیا کرتے تھے۔ خود ہی اس لڑکی کے سرپرست اور خودہی نکاح کرنے والے اور اپنے نکاح میں لانے والے اور خود ہی مہر مقرر کرنے والے۔ اس طرز عمل سے یتیموں کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نقصان کے اس طریقہ پر بھی تنبیہ فرمائی۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top