Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ اور یہ اکثر عقل نہیں رکھتے۔
(103 ۔ 104) ۔ مسند سعید بن منصور اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اوپر کی آیت میں یہ ذکر جو گذرا کہ لوگ طرح طرح کے سوال آنحضرت سے کرتے تھے ان سوالوں میں ایک سوال بعض لوگوں نے ان جانوروں کی بابت بھی کیا تھا جن جانروں کا اس آیت میں ذکر ہے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 3 ؎ حاصل آیت کا یہ ہے کہ ملت ابراہیمی میں اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو حرام نہیں فرمایا قریش میں جو یہ رسم ہے کہ بکری یا اونٹنی پانچ جھول جب جن چکے تھے اس کے کان چیر کر اس اور بتوں کے نام سانڈہ جانوروں اور جس اونٹ کی نطفہ سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں اس کو ان لوگوں نے حرام ٹھہرا رکھا ہے اور اس حرام ٹھہرانے کا اللہ کا حکم اور ملت ابراہیمی کا ایک مسئلہ جو یہ لوگ گنتے ہیں یہ محض غلط اور اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے بلکہ عمرو بن عامر خزاعی کی ٹھہرائی ہوئی یہ ایک رسم ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ان جانوروں کے حرام کرنے کی رسم قریش میں عمرو بن عامر نے جاری کی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اب میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا کہ اس کی انتڑیاں دوزخ کی آگ میں نکلتی ہوئی پڑی تھیں اور وہ ان کو کھینچتا ہوا پھر رہا تھا اور دوزخ میں جل رہا تھا 1 ؎ مسند احمد اور طبرانی اور مغازی ابن اسحاق اور تاریخ محمد بن حبیب میں مرفوع اور موقوف روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ ملت ابراہیمی کو چھوڑ کر بت پرستی کی رسم اسی عمرو بن عامر نے ڈالی ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کے زمانہ میں جو بت زمین میں دب گئے تھے شیطان کے بہکانے سے اس نے وہ بت جدہ سے کھود کے لاکر مسجد حرام میں کعبہ کے گرد کھڑے کئے تھے اول اول اسی شخص نے دی ابراہیمی کو بدلا قوم جرہم کے بعد خزاعہ قوم کے حوالہ میں جب بیت اللہ آیا تو اس وقت یہ شخص قوم خزاعہ کا سردار تھا 2 ؎۔ بحیرہ اونٹنی جو پانچ جھول جنے ایسی اونٹنی کے کان چیز کر اس کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ سائبہ وہ اونٹنی جو بیمار کے صحت پانے کی یا کسی اور کام کی نذریں میں بتوں کے نام پر چھوڑ جاتی تھی وصیلہ وہ بکری جو سات جھول جن چکی ہو ایسی بکری بھی ہوں کے نام پر چھوڑی جاتی تھی حام وہ اونٹ جس کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوئے ہوں۔ ان جانوروں کے ذکر کے بعد فرمایا ان میں کے اکثر لوگوں کی یہ نادانی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے جانوروں کو پتھر کی مورتوں کے نام پر چھوڑ کر ان جانوروں کے گوشت کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیتے ہیں اور اپنی عقل سے اس کو اللہ کا حکم اور ملت ابراہیمی کا ایک مسئلہ جانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے شرک کا کوئی حکم کسی شریعت میں نازل نہیں فرمایا اس لئے ایسی شرک کی باتوں کو اللہ کا حکم ٹھہرانا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے ان میں کے اکثر ان نادان پچھلے لوگوں کو فرمایا جو ناسمجھی سے اپنے بڑوں کی بےسند باتوں پر چلتے تھے۔ آگے سورة انعام میں آوے گا { لَوْ اَنَّا اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْکِتَابُ لَکُنَّا اَھْدٰی مِنْہُمْ } (6۔ 157) جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی آخر الزمان ﷺ کے نبی ہونے اور قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اہل مکہ یہ پرزور کیا کرتے تھے کہ اہل کتاب کی طرح ہم میں سے بھی کوئی نبی ہوں اور ان کی معرفت ہم پر کتاب آسمانی نازل ہو تو ہم اہل کتاب سے بڑھ کر راہ راست پر ہویں عرب کے لوگ بہ نسبت اور قوموں نے اپنے آپ کو زیادہ عقل مند گنتے تھے اس لئے انکا یہ گمان تھا کہ اگر ان میں کوئی نبی ہوں اور کتاب آسمانی نازل ہو تو ان میں اور قوموں سے بڑھ کر ہدایت پھیلے آگے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ جب ان کی یہ آرزو پوری ہوئی کہ ان میں نبی بھی آگے اور کتاب آسمانی بھی اتری تو ان کی عقل کا یہ حال ہے کہ اپنے بڑوں کی لکیر کے فقیر ہیں۔ نبی کی نصیحت قرآن کی ہدایت کا کچھ اثر ان کے دل پر نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہزاروں ایسی مثالیں ان کی آنکھوں کے سامنے ہیں کہ معاملات دنیا میں کسی نقصان کا سامنا بڑوں کی چال میں ہوتا تو کوئی چھوٹا ایسے موقع پر بڑے کی چال ہرگز نہیں چلتا پھر دین میں کیا ان لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ اگر ان کے بڑے صاحب عقل اور دین کا راستہ جاننے والے ہوتے تو ایسی بےسود باتوں کو ملت ابراہیمی کیوں ٹھہراتے۔ صحیح بخار و مسلم کی ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک جگہ گذرچ کی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اپنی نصیحت کی مثال بارش کی اور لوگوں کی مثال بری زمین کی فرمائی ہے 1 ؎ یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے آیت اور حدیث کو ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اگرچہ جس طرح مینہ اچھی اور بری سب زمین پر یکساں برستا ہے اسی طرح اللہ کے رسول کی معرفت قرآن کی نصیحت و نیک و بد سب لوگ سنتے ہیں مگر جس طرح مینہ کے اثر سے بری زمین سے ثمر رہتی ہے اسی طرح علم الٰہی میں جو لوگ بد قرار پا چکے ہیں وہ قرآن کی نصیحت سے یوں ہی بےثمرہ رہتے ہیں جس طرح قریش کے بےبہرہ رہنے کا ذکر اس آیت میں ہے کہ وہ نہ اچھی بات کو پہچانتے ہیں نہ اچھے برے باپ دادا کو، بلکہ بالکل اندھوں کی طرح اپنے بڑوں کی لکیر کے فقیر ہیں۔
Top