Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 59
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب هَلْ تَنْقِمُوْنَ : کیا ضد رکھتے ہو مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم سے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَنَّ : اور یہ کہ اَكْثَرَكُمْ : تم میں اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
کہو کہ اے اہل کتاب ! تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو سوا اس کے کہ تم خدا پر اور جو (کتاب) ہم پر نازل ہوئی اس پر اور جو (کتابیں) پہلے نازل ہوئیں ان پر ایمان لائے ہیں اور تم میں اکثر بدکردار ہیں۔
معتبر سند سے تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابو الشیخ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز یہود نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ آپ کون کون سے نبی کو برحق جانتے ہو آپ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور سب انبیاء کا نام لیا۔ یہود حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا نام سن کر بہت چڑے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎ اور فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان یہود سے کہہ دو کہ تم میں اکثر لوگ گناہوں کی سرکشی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں جس کے سبب سے تم لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی پوری شہادت تھی جس کو تم نے بدل ڈالا ہے اور ایک سچی بات پر الٹے ہم سے جھگڑتے اور ہمارے دین کو عیب لگاتے ہو تم لوگوں میں ذرا بھی راستی اور انصاف ہو تو تم اقرار کرسکتے ہو کہ تمہارا جھگڑنا تورات کے برخلاف اور ہمارا دین بالکل اصل تورات کے موافق ہے۔ اس وقت تو یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں لیکن سورة النساء میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے قریب جب عیسیٰ (علیہ السلام) زمین پر آویں گے تو اس وقت ان کی نبوت کا اقرار کریں گے اسی طرح اب جو کوئی یہودی قریب المرگ ہوتا ہے اور عقبیٰ کی باتیں اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگتی ہیں تو اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بیشک اللہ کے رسول تھے مگر اس وقت کا یہ معلوم ہونا کچھ فائدہ مند نہیں کیونکہ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ اس وقت کی توبہ اس وقت کا اسلام غرض اس وقت کی کوئی نیک بات انسان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاتی صحیح بخاری اور مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 2 ؎ جس میں آنحضرت ﷺ نے سب انبیاء کو علاقی بھائی اور ان کی شریعتوں کو علاقی بھائیوں کی ماں فرمایا ہے 3 ؎۔ علاقی ان بھائیوں کو کہتے ہیں جن کا باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ توحید اور عبادت الٰہی کی نصیحت و تاکید کرنے میں سب انبیاء ایک ہیں ہاں ضرورت کے وقت کے لحاظ سے ہر شریعت میں حلال و حرام کے احکام جدا ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک نبی کی نبوت کے انکار سے تمام انبیاء کی نبوت کا انکار لازم آجاتا ہے کیونکہ اصل دین کی روح سے جب سب انبیاء ایک ہیں تو ان میں سے ایک کو جھٹلانا گویا سب انبیاء کو جھٹلانا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مثلاً قفط موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے اقرار سے یہود اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے اقرار سے نصرانی جو اپنی نجات کے خیال میں ہیں وہ ان کا خیال بالکل غلط ہے اسی واسطے نبی آخر الزمان ﷺ نے فرمایا کہ جو یہودی یا نصرانی میرا حال سن کر میری نبوت کا اقرار نہ کرے اس کی نجات ممکن نہیں ہے۔ چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت گزر چکی ہے۔
Top