Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 89
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ١ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں مواخذہ کرے گا تمہارا اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : ساتھ لغو کے فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں میں وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : وہ مواخذہ کرے گا تمہارا بِمَا : بوجہ اس کے جو عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ : مضبوط گرہ باندھی تم نے قسموں کی فَكَفَّارَتُهٗٓ : تو کفارہ ہے اس کا اِطْعَامُ : کھانا کھلانا عَشَرَةِ : دس مَسٰكِيْنَ : مسکینوں کا مِنْ اَوْسَطِ : اوسط درجے کا مَا تُطْعِمُوْنَ : جو تم کھلاتے ہو اَهْلِيْكُمْ : اپنے گھروالوں کو اَوْ كِسْوَتُهُمْ : یا کپڑ پہنانا ان کو اَوْ : یا تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ : آزاد کرنا ایک گردن کا فَمَنْ : تو جو کوئی لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھنا ہیں ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ : تین دن کے ۭذٰلِكَ : یہ كَفَّارَةُ : کفارہ ہے اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا اِذَا حَلَفْتُمْ : جب تم قسم کھاؤ ۭ وَاحْفَظُوْٓا : اور حفاظت کیا کرو اَيْمَانَكُمْ ۭ : اپنی قسموں کا كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهِ : اپنی آیات کو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کریگا۔ لیکن پختہ قسموں پر (جنکے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا۔ تو اسکا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔ جب تم قسم کھالو (اور اسے توڑ دو ) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔
امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق اس آیت کے شان نزول تفسیر ابن جریر اور خازن وغیرہ میں جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ترک دنیا کے طور پر جب بعض صحابہ نے قسم کھا کر بعض چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں اور اوپر کی آیت یا ایھا الذین امنوا لاتحرموا طیبات ما احل اللہ لکم میں اس کی ممانعت نازل فرمائی تو ان صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت ہم لوگوں نے حلال چیزوں سے باز رہنے کی جو قسم کھائی تھی اس قسم کا اب کیا حکم ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎۔ سورة بقرہ میں گذر چکا ہے کہ تکیہ کلام کے طور پر واللہ باللہ یا ایسے اور لفظ آدمی کے منہ سے جو نکل جاتے ہیں ایک بات کو کوئی شخص سچ گمان کر کے اس پر قسم کھا بیٹھے اور حقیقت میں وہ بات اس طرح سے نہ ہو یہ صورتیں قسم میں داخل نہیں ہیں نہ ان کا کچھ کفارہ ہے۔ انہی صورتوں کو یمین لغو کہتے ہیں۔ کفارہ کے قابل وہی قسم ہے جو دلی ارادہ سے ہو۔ اس دلی ارادہ کی قسم پر قائم نہ رہنے کی حالت میں اس کے کفارہ کی یہی چار صورتیں ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے کہ یا دس مسکینوں کو کھانا کھلا دیا جاوے یا کپڑا پہنا دیا جاوے یا ایک بردہ آزاد کردیا جاوے۔ ان تینوں باتوں میں سے کسی بات کا بھی مقدور نہ ہو تو تین روزے رکھے جاویں ان روزوں کے پے درپے ہونے اور یا نہ ہونے میں کھانے کی جگہ کچا اناج دیا جاوے تو اسی مقدار میں کپڑوں کی گنتی میں۔ بردہ کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے میں سلف کا اختلاف ہے جس کی تفصیل بڑی کتابوں میں ہے 2 ؎۔ بیچ کی راس کے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ بہت اعلیٰ درجہ کا نہ بالکل ادنیٰ درجہ کا بلکہ متوسط درجہ کا ہو۔ قسموں کے تھامنے کا یہ مطلب ہے کہ بلا ضرورت قسم کے کھانے میں جلدی نہ کی جاوے۔ احکام الٰہی کے احسان ماننے اور شکر گزاری کرنے کا یہ مطلب ہے کہ ان احکام کے موافق عمل کیا جاوے سورة بقرہ میں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو میری ہر ایک قسم ایسی ہوگی کہ قسم کھانے کے بعد کو بات اگر اس سے بہتر میں دیکھ پاؤں گا جس پر میں نے قسم کھائی ہے تو فورا قسم کا کفارہ دے کر میں اس بہتر کام کو کرلوں گا 1 ؎۔ قسم کی حالت پر قائم رہنے یا نہ رہنے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جو اللہ کے رسول نے اپنی امت کو سکھائی ہے۔
Top