Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 89
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ١ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں مواخذہ کرے گا تمہارا اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : ساتھ لغو کے فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں میں وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : وہ مواخذہ کرے گا تمہارا بِمَا : بوجہ اس کے جو عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ : مضبوط گرہ باندھی تم نے قسموں کی فَكَفَّارَتُهٗٓ : تو کفارہ ہے اس کا اِطْعَامُ : کھانا کھلانا عَشَرَةِ : دس مَسٰكِيْنَ : مسکینوں کا مِنْ اَوْسَطِ : اوسط درجے کا مَا تُطْعِمُوْنَ : جو تم کھلاتے ہو اَهْلِيْكُمْ : اپنے گھروالوں کو اَوْ كِسْوَتُهُمْ : یا کپڑ پہنانا ان کو اَوْ : یا تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ : آزاد کرنا ایک گردن کا فَمَنْ : تو جو کوئی لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھنا ہیں ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ : تین دن کے ۭذٰلِكَ : یہ كَفَّارَةُ : کفارہ ہے اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا اِذَا حَلَفْتُمْ : جب تم قسم کھاؤ ۭ وَاحْفَظُوْٓا : اور حفاظت کیا کرو اَيْمَانَكُمْ ۭ : اپنی قسموں کا كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهِ : اپنی آیات کو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
اللہ تعالیٰ موخذہ نہیں کرتا تم سے تمہاری خوینی بیہودہ قسموں کے بارے میں لیکن وہ مواخذہ کرتا ہے تم سے اس کے بارے میں جو تم نے پختہ طریقے پر قسمیں کھائی ہیں پس اس کا کفارہ کھانا کھلانا ہے دس مسکینوں کو درمیانے درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا اس مسکینوں کو کپڑا پہنادیا۔ گردن یعنی غلام آزاد کرنا ہے پس جو شخص نہ پائے ان میں سے کوئی چیز واپس اس کی قسم کا کفارہ تین دن کے روزے رکھنے سے ہوگا۔ یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جب تم قسم اٹھا بیٹھو اور محفوظ رکھو اپنی قسموں کو اسی طرح اللہ تعالیٰ یا ن کرتا ہے تمہارے لئے اپنے احکام تاکہ تم شکر ادا کرو
ملت و حزمت کا قانون یہود و نصاریٰ کی مذمت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تحلیل و تحریم کا ذکر فرمایا۔ سورة کی ابتداء میں بھی کھانے پینے کی محرمات کا بیان تھا کسی حلال چیز کو حرار قرار دے لینے کی کئی ایک صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی حلال چیز کو اعتقاد اً حرام سمجھے۔ ایسی صورت میں وہ اسلام سے خارج ہو کر کفر میں چلا جائے گا۔ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو از خود حرام قرار دے لیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی حلال چیز کو دل سے تو حرام نہیں سمجھتا مگر زبان سے اسے حرام کہتا ہے آگے اس کی بھی دو شکلیں ہیں۔ اگر حلال چیز کو نیکی سمجھ کر حرام کہتا ہے یا تقرب الی اللہ کے لئے زبان سے حرام کہتا ہے تو یہ بدعت اور رہبانیت ہے ، اس کا ترک واجب ہے اور اگر ایسی چیز کو زبان سے اس طور پر حرام کہتا ہے کہ اس میں قسم کا معنی پایا جاتا ہے وہ قسم بلا ضروتر ہے تو یہ گناہ کی بات ہے ، چناچہ آج کے درس میں ایسی ہی قسم کے ازالے کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ حلت و حرمت کی تیسری قسم بھی پہلے بیان ہوچکی ہے کہ اگر کوئی شخص جسمانی یا روحانی بیماری کے پرہیز کے طور پر کسی حلال چیز کو استعمال نہیں کرتا ، تو اس میں کوئی برئای نہیں اس کی اجازت ہے۔ جائز اور ناجائز قسم بہرحال کسی حلال چیز کو از خود حرام قرار دے لینا درست نہیں ہے اگر اس میں قسم کا معنی پایا جاتا ہے تو ایسی قسم کا توڑنا ضروری ہوجاتا ہے اور اس کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کہا گیا ہے ویسے بھی حضور ﷺ والسلام نے قسم کے متعلق یہ بات سمجھائی ہے کہ من حلف علی یومین فری غیر ھا خیراً منھا فلیات الذی ھو خیر ولب کفی عن یمینہ ۔ جو شخص کسی بات پر قسم اٹھا لیتا ہے پھر دیکھتا ہے کہ یہ بات تو اچھی نہیں ہے اس کے علاوہ دوسری بات اچھی ہے تو اسے وہ کام کرنا چاہئے جو بہتر ہے اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردینا چاہئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں خود بھی کسی چیز پر قسم اٹھا لیتا ہوں مگر دیکھتا ہوں کہ دوسری بات بہتر ہے وکفات عن یمینی ۔ تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں یعنی ایسی قسم کو توڑ دیتا ہوں حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ کسی شخص کا قسم پر اصرار کرنا بہتر نہیں ہے اسے قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کردینا چاہئے۔ ہاں اگر قسم کسی ایسی چیز پر اٹھائی ہے جس میں کوئی قباحت نہیں تو پھر قسم کو پورا کرنا چاہئے اور اگر وہ قسم معصیت سے متعلق ہے تو اسے فوراً توڑ کر کفارہ ادا کرے ایسی ہی معصیت کی قسم کے متعلق امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اسے توڑ دینے پر کفارہ ادا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے مگر امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ ایسی قسم کو توڑنا ضروری ہے کیونکہ وہ معصیت کی بات ہے البتہ اس کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ قسم اور اس کے متعلقات کا تذکرہ سورة بقرہ میں بھی ہوچکا ہے۔ تاہم یہاں پر اس کے کفارے کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ قسم کی تین اقسام قسم تین اقسام پر ہوتی ہے یعنی لغو ، غموس اور منعقدہ لغو کا معنی بیہودہ ہوتا ہے یعنی ایسی قسم جو بغیر ارادہ اور نیت کے زبان سے نکل جائے۔ عربوں کے ہاں یہ عام محاورہ تھا کہ وہ بات بات پر قسم اٹھاتے تھے لا واللہ بلی وللہ۔ حالانکہ ان کا دلی ارادہ قسم اٹھانے کا نہیں ہوتا تھا ، محض ان پر قسم کے الفاظ جاری ہوجاتے تھے۔ ایسی قسم پر نہ کوئی گرفت ہے اور نہ اس کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ لغو ہی کی دوسری قسم عموس قابل مواخذہ ہے۔ البتہ اس پر کفارہ نہیں۔ اس قسم کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق جھوٹی قسم اٹھا جانے کہ زید آیا تھا۔ مگر فی الحقیقت وہ نہ آیا ہو۔ ایسی قسم میں جھوٹ کی وجہ سے گناہ سر زد ہوتا ہے اس لئے اسے یمین غموس کہتے ہیں کیونکہ غمس کا معنی گناہ میں غوطہ مارنے کا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے شبہ کی بنا پر کوئی غلط قسم اٹھا لی تو وہ بھی لغو ہی شمار ہوگی۔ مثلاً کوئی شخص دور سے کوئی کالی چیز دیکھ کر کہتا ہے واللہ یہ تو انجن ہے مگر کچھ دیر بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ انجن نہیں بلکہ بھینس ہے۔ تو یہ بھی لغو ہے ، اشتباہ کی وج ہ سے ایسا ہوا ہے لہٰذا ایسی قسم پر بھی کوئی کفارہ نہیں۔ البتہ گزری ہوئی بات پر اگر کوئی شخص عمداً قسم اٹھا لے ، تو ایسا شخص گنہگار ہوگا مگر اس پر بھی کفارہ نہیں۔ لغو قسم کے متعلق سورة بقرہ میں بھی آیت گزر چکی ہے۔ ” لایواختکم اللہ بالغو فی ایمانکم ۔ اللہ تعالیٰ نہیں مواخذہ کرتا تمہاری لغوقسموں پر ” ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم ۔ مگر ان قسموں پر مواخذہ ہے جو تم دل کے ارادے سے اٹھاتے ہو مواخذہ میں دنیاوی اور اخروی دونوں مواخذے شامل ہیں دنیاوی مواخذہ یہ ہے کہ قسم اٹھانے والے کو کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے اور اخروی مواخذہ میں انسان گنہگار ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس آیت میں بھی قسم کے متعلق ویسے ہی الفاظ ہیں لا یوا خذ کم اللہ باللغو فی ایمانکم ۔ یعنی اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری بیہودہ قسموں کے متعلق مواخذہ نہیں کرتا۔ ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان۔ بلکہ ان قسموں پر مواخذہ کرتا ہے جو پختہ طریقے یعنی دل کے ارادے سے اٹھاتے ہو۔ قسم کی یہی قسم تیسری ہے جسے قسم منعقدہ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے کہ کوئی شخص یوں قسم اٹھائے کہ میں آنے والے زمانہ میں فلاں کام کروں گا یا نہ کروں گا اگر ایسی قسم کسی جائز کام کے لئے ہے اور اس شخص نے قسم کو پورا کردیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور اگر اس جائز قسم کو از خود توڑ دیا ہے تو اس کا کفارہ ادا کرن اہو گا ، جس کا ذکر آگے آ رہا ہے اور اگر یہی قسم کسی ناجائز کام کے لئے ہے تو اس کا توڑنا واجب ہوجاتا ہے۔ ایسی قسم کے کفارے کے متعلق امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ ضرورت نہیں ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ قسم توڑنے کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوگا۔ کفارہ اطعام مساکین ایسی ہی قسم کے کفارے کے متعلق ارشاد ہوتا ہے فکفارتہ اطعام عشرۃ مسکین۔ اس کا کفارہ دس مسکینوں اور محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ من اوسط ما تطعمون اھلیکم ۔ درمیانے درجے کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔ مقصد یہ ہے کہ کھانا اوسط درجے کا ہو۔ نہ ایسا کم ترکہ بالکل خشک روٹی ہے اور نہ بہت اعلیٰ درجے کا جس میں کئی قسم کے کھانے ہوں۔ اوسط درجے میں عام روٹی سالن آسکتا ہے جو عام طور پر لوگ گھروں میں کھتاے ہیں۔ تاہم دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہوگا خواہ گھر بلا کر کھلا دے یا ان کے ٹھکانے پر پہنچا دے ۔ اور مسکین میں وہ لوگ شمار ہوں گے جو زکواۃ کے مستحق ہوں۔ ان میں بلوغت کی شرط نہیں ہے۔ بالغ ہوں یا قریب البلوغ ان کو کھلانے سے کفارہ ادا ہوجائے گا۔ البتہ بہت چھوٹے بچے جو پورا کھانا نہیں کھا سکتے وہ ان میں شامل نہیں ہوں گے۔ کفارہ کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ کھانا پکاکر کھلانے کی بجائے ہر مسکین کو روزے کے فدیہ کے برابر اناج دے دے۔ اس لئے نصف صاع گندم یا ایک صاع کوئی دوسرا اناج دینا ہوگا۔ یعنی ا گر گندم دے تو دوسیر اور اگر کوئی دوسری جنس ہو تو چار سیر ادا کرے۔ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اناج یا اس کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے یہ کفارے کی پہلی صورت ہے ۔ کپڑا پہنانا کفارہ ادا کرنے کا دوسرا طریقہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا او کمسو تھم یا ان دس مساکین کو کپڑا پہنا دے۔ کپڑے کی مقدار کے متعلق فقہائے کرام اور محمد ثین عظام فرماتے ہیں کہ ہر مسکین کو اتنا کپڑا دینا چاہئے جس سے اس کا پورا جسم ڈھک جائے۔ مثلاً ایک بڑا کر نہ یا بڑی چادر دے دے تو کفارہ ادا ہوجائے گا۔ ایک بڑی شلوار سے بھی جسم کا اکثر حصہ ڈھک جاتا ہے ، لہٰذا یہ بھی دی جاسکتی ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ ہر ایک کو ایک ایک جوڑا کپڑے دے دے جسے پہن کر آدمی با سہولت نماز ادا کرسکے۔ غلام کی آزادی فرمایا قسم کے کفارے کی تیسری صورت یہ ہے او تحریم رقبۃ یا غلام آزاد کرنا ، دنیا میں غلامی کا رواج صدیوں پرانا ہے نزول قرآن کے زمانے میں بھی پوری دنیا میں موجود تھا۔ یہ شخصی غلامی ابھی گزشتہ صدی میں ختم ہوئی ہے البتہ اس کی جگہ اب اجتماعی غلامی نے لے لی ہے ۔ اب دنیا کی بڑی طاقتوں امریکہ روس اور انگریزوں نے پوری پوری قوموں اور ملکوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ کافر قوموں نے بڑے بڑے ملکوں پر بزور قبضہ کر کے انہیں اپنی کالونیاں بنا لیا اور وہاں کے باشندوں کو اقتصادی لحاظ سے یا انسانی حقوق کی نسبت سے غلام بنا لیا ، نو آبادیات کے بادل اب بہت حد تک چھٹتے جا رہے ہیں تاہم کچھ عرصہ قبل تک حالت یہ تھی کہ ریل کے ڈبے میں گورا اور کالا اکٹھے سفر نہیں کرسکتے تھے۔ یہاں ہندوستان میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس غلامی کا دوسرا بڑا نشانہ جنوبی افریقہ ہے۔ جس میں گاندھی نے اس غی لامی کے خلاف بہت تحریک چلائی ۔ جب انگریزوں کے ڈبے میں بیٹھنا تھا تو وہ اس کا سامان باہر پھینک دیتے تھے اور وہ کئی کئی دن تک ریلوے سٹیشن پر پڑا رہتا تھا۔ آخر بڑی جدوجہد کے بعد اس نے انگریزوں سے کچھ حقوق منوائے اور کالے لوگ بھی انگریزوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کرنے لگے۔ جب اسلام کا ظہور ہوا تو اس انٹرنیشنل رواج کی اصلاح کا حکم دیا گیا۔ غلاموں پر ظلم و ستم کو حرام قرار دیا گیا۔ فرمایا یہ بھی تمہارے بھائی ہیں ، کسی وجہ سے تمہارے زیر اثر آگئے ہیں۔ ان سے ہمدردی کا سلوک کرو جو خود کھاتے ہو انہیں بھی کھلائو اور جو خود پہنتے ہو انہیں بھی پہنائو۔ غلاموں سے زیادہ مشقت نہ لو۔ اگر کام مشکل ہو تو خود بھی ان کے ساتھ ہاتھ بٹائو یہ حضور ﷺ کی تعلیم کا اثر تھا کہ اسلام میں داخل ہو کر غلاموں نے بڑی بڑی خدمات انجام دیں۔ ان میں بڑے بڑے فقیہہ اور محدث پیدا ہوئے جنہیں نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اسلام نے غلاموں کو نہ صرف ان کے حقوق دلانے بلکہ کما حقہ ، ان کی عزت افزائی بھی کی۔ چونکہ اسلام کی نظر میں غلامی ایک غیر فطری چیز ہے اس لئے اسلام نے مختلف طریقوں سے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب بھی دی۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ کسی غلام کو آزاد کرنے والے شخص کا ہر ہر عضو اس آزادی کے بدلے میں جہنم کی آگ سے آزاد ہوجائے گا۔ مختلف جنایات میں غلام کی آزادی کو کفارہ قرار دیا۔ چناچہ روزہ کھا جانے کا کفارہ ، قتل کے کفارہ میں مومن غلام کی آزادی کی شرط ہے ، دیگر جنایات میں مومن یا کافر ، بچہ یا بڑا ، عورت یا مرد کوئی بھی کفارہ کے طور پر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ غرضیکہ قسم کے کفارہ کے متعلق فرمایا کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا انہیں کپا پہنائے یا ایک غلام آزاد کرے۔ تین روزے کفارے کی تین صورتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا فمن لم یجد جو شخص ان تین میں سے کوئی صورت نہ پائے ۔ یعنی نہ تو وہ کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتا ہو اور نہ کپڑاپہنانے کی اور سا کے پاس غلام بھی نہ ہو جسے آزاد کرسکے تو فرمایا فمیام ثلثۃ ایام ۔ تو تین دن کے روزے رکھے۔ کفارہ ک یہ چوتھی صورت ہوئی۔ بشرطیکہ پہلی تین صورتوں میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہو۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ، حضرت ابی ابن کعب اور عبداللہ بن مسعود کی روایت میں آتا ہے فصیام ثلثۃ ایام متابعہ اب یعنی یہ تین روزے متواتر رکھتا ہوں کے ان کے درمیان وقفہ نہیں ہونا چاہئے۔ رمضان کے روزوں کی قضا میں تو ایسی پابندی نہیں ہے۔ قضا روزے آمدہ سال تک کسی وقت بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ رمضان کے روزے بعض اوقات سفر یا بیماری کی وجہ سے فضا ہوجاتے ہیں یا عورتوں کے حیض و نفاس کے دوران چھوٹ جاتے ہیں ، وہ پورے سال میں کسی بھی وقت رکھے جاسکتے ہیں۔ تاہم قسم کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنا ضروری ہے فقہائے کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کفارے کے دو روزے رکھے اور اس کے بعد اس کے پاس اتنا مال آگیا جس سے وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے یا کپڑا پہنا سکتا ہے یا ایک غلام آزاد کرسکتا ہے۔ تو روزوں سے کفارہ ادا نہیں ہوگا بلکہ اسے پہلی تین صورتوں میں سے کوئی ایک پوری کرنا ہوئی۔ قسموں کی حفاظت فرمایا ذلک کفارۃ ایمانکم۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ البتہ یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا چاہئے۔ بعد میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ کفارہ قسم توڑنے سے پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے مگر امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ پہلے قسم توڑے اس کے بعد کفارہ ادا کرے۔ تو فرمایا یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا ازالہ اذا خلقتء جب تم قسم اٹھا بیٹھو۔ واحفظوا ایمانکم اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ یعنی قسم اٹھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے ، اس سے بچنے کی کوشش کرو اور اگر کسی معاملہ میں گواہ موجود نہ ہوں اور قسم کے بغیر چارہ نہ ہو تو پھر اس کی اجازت بھی ہے اور اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر قسم اٹھا کر توڑ دی جائے تو اس کو کفارہ کی ادائیگی لازم ہو جئاے گی۔ قسم کی حفاظت کا یہ مطلب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رہے کہ قسم صرف اللہ کے نام کی کھائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کی قسم درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آدمی قسم اٹھاتا۔ اس کے پاس دلیل نہیں ہوتی اور نہ دو گواہ پیش کرسکتا ہے۔ لہٰذا فریق ثانی کو یقین دلانے کے لئے قسم اٹھاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب و الشہادت کا نام لے کر یا اس کی کوئی صفت بیان کر کے بات کرتا ہے کہ اگر وہ غلط بیانی کرتا ہے تو اس اللہ تعالیٰ کی سزا سے نہیں بچ سکے گا جو ہر چیز کو جانتا ہے۔ فرمایا کذلک یبین اللہ لکم ایت ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں۔ آیت کا معنی ، دلیل نشانی معجزہ یا حکم ہوتا ہے۔ یہاں پر حلت و حرمت کے احکام مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں واضح طور پر بیان فرما دیا ہے کہ کون کون سی چیز حلال ہے اور کونسی حرام ہے۔ لعلکم تشکرون۔ تاکہ تم اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرسکو ، اس نے تمہیں جہالت سے نکال کر واضح راستہ بنا دیا ہے کہ فلاں فلاں مشکل کا فلاں فلاں حل ہے۔ ان احکام کے ذریعے تم گناہ سے بچ سکتے ہو اور اپنے آپ کو پاک کرسکتے ہو لہٰذا ان احکام پر عمل کر کے اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو۔ کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت کا ذکر اس سورة میں خاص طور پر کیا گیا ہے۔ سابقہ سورتوں میں خون ، مردار ، خنزیر کے گوشت اور نذر بغر اللہ کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ تحلیل و تحریم کی بعض چیزوں کا ذکر یہاں بھی آ گیا ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں بعض دیگر محرمات کا ذکر آ رہا ہے۔
Top