Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 89
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ١ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ
: نہیں مواخذہ کرے گا تمہارا
اللّٰهُ
: اللہ
بِاللَّغْوِ
: ساتھ لغو کے
فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ
: تمہاری قسموں میں
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
يُّؤَاخِذُكُمْ
: وہ مواخذہ کرے گا تمہارا
بِمَا
: بوجہ اس کے جو
عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ
: مضبوط گرہ باندھی تم نے قسموں کی
فَكَفَّارَتُهٗٓ
: تو کفارہ ہے اس کا
اِطْعَامُ
: کھانا کھلانا
عَشَرَةِ
: دس
مَسٰكِيْنَ
: مسکینوں کا
مِنْ اَوْسَطِ
: اوسط درجے کا
مَا تُطْعِمُوْنَ
: جو تم کھلاتے ہو
اَهْلِيْكُمْ
: اپنے گھروالوں کو
اَوْ كِسْوَتُهُمْ
: یا کپڑ پہنانا ان کو
اَوْ
: یا
تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ
: آزاد کرنا ایک گردن کا
فَمَنْ
: تو جو کوئی
لَّمْ يَجِدْ
: نہ پائے
فَصِيَامُ
: تو روزے رکھنا ہیں
ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ
: تین دن کے
ۭذٰلِكَ
: یہ
كَفَّارَةُ
: کفارہ ہے
اَيْمَانِكُمْ
: تمہاری قسموں کا
اِذَا حَلَفْتُمْ
: جب تم قسم کھاؤ ۭ
وَاحْفَظُوْٓا
: اور حفاظت کیا کرو
اَيْمَانَكُمْ ۭ
: اپنی قسموں کا
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: بیان کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اٰيٰتِهِ
: اپنی آیات کو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: تم شکر ادا کرو
خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کریگا۔ لیکن پختہ قسموں پر (جنکے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا۔ تو اسکا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔ جب تم قسم کھالو (اور اسے توڑ دو ) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔
آیت نمبر
89
:۔ مسئلہ نمبر : (
1
) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : لایوخذکم اللہ بالغو فی ایمانکم، اللغو کا معنی سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ فی ایمانکم کا معنی ایمانکم ہے (
1
) (احکام القرآن للنیا طبری) ایمان جمع ہے یمین کی (جس کا معنی ہے قسم) بعض ئلماء نے فرمایا : یمین، یمن سے فعیل کے وزن پر ہے اس سے مراد برکت ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے یمین سے اس لیے تعبیر فرمایا، کیونکہ یہ حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ یمین کا لفظ مذکر، مونث استعمال ہوتا ہے اس کی جمع ایمان اور ایمن آتی ہے زہیر نے کہا : فتجمع ایمن منا ومنکم مسئلہ نمبر : (
2
) ۔ اس آیت کے نزول کے سبب میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کے نزول کا سبب وہ لوگ ہیں جنہوں نے کھانے، پینے، اور پہننے اور نکاح میں سے حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کیا، انہوں نے اس پر قسمیں اٹھائیں تھیں جب یہ آیت نازل ہوئی آیت : لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم تو انہوں نے کہا : ہم اپنی قسموں کا کیا کریں ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس قول کی بنا پر معنی یہ ہوگا جب تم قسم اٹھاؤ پھر اسے لغو کر دو یعنی اس کے حکم کو کفارہ دینے کے ساتھ ساقط کر دو اور کفارہ دے دو وہ تو اللہ اس کی وجہ سے تم سے مواخذہ نہیں کرے گا بلکہ مواخذہ تو اس پر ہوگا جس پر تم قائم رہے اور اسے لغو نہ کیا یعنی کفارہ نہ دیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ قسم کسی چیز کو حرام نہیں کرتی۔ یہ امام شافعی کی دلیل ہے کہ قسم کے ساتھ حلال کی تحریم متعلق نہیں ہوتی حلال کو حرام کرنا لغو ہے جیسا کہ حرام کو حلال کرنا لغو ہے جیسے کوئی کہتا ہے : استحللت شرب الخمیر میں نے شراب پینے کو حلال کیا۔ پس اس قول کی بنا پر آیت تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال کو حرام کرنا لغو قرار دیا ہے، کیونکہ وہ خود حرام نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : لا یواخذکم اللہ بالغو فی ایمانکم یعنی حلال کو حرام کرنے کیساتھ۔ عوایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کے یتیم بچے بھی تھے اور مہمان بھی تھا۔ وہ رات کے وقت اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد لوتے تو پوچھا : کیا تم نے میرے مہمان کو کھانا کھلا دیا ہے ؟ انہوں نے کہاـ: ہم تمہارے انتطار میں تھے۔ حضرت عبداللہ نے کہا ؛ اللہ کی قسم ! میں اس رات کھانا نہیں کھاؤں گا، مہمان نے کہاـ: میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ یتیموں نے کہا : ہم بھی نہیں کھائیں گا۔ جب حضرت عبداللہ نے سب کا انکار دیکھا تو کھانا کھایا اور دوسرے لوگوں نے بھی کھایا پھر وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور صورت حال عرض کی آپ ﷺ نے فرمایا :" تو نے الرحمن کی اطاعت کی اور شیطان کی نافرمانی کی "۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ (
1
) تفسیر طبری، جلد
8
، صفحہ
613
مسئلہ نمبر : (
3
) ۔ شریعت میں قسم کی چار صورتیں ہیں : دو میں کفارہ ہے اور دو میں کفارہ نہیں ہے۔ دارقطنی نے اپنی سنن میں حدثنا عبداللہ محمد بن عبد العزیز حدثنا خلف بن ہشام حدثنا عبشر بن لیث عن حماد عن ابرہیم عن علقمتہ عن عبداللہ کے سلسلے سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : قسمیں چار ہیں دو میں کفارہ ہے اور دو میں کفارہ نہیں، وہ دو قسمیں جن میں کفارہ نہیں ہے وہ اسی طرح ہیں کہ کوئی شخص قسم اٹھائے کہ اللہ کی قسم ! میں ایسا ایسا نہیں کروں گا، پھر وہ ایسا کر دے۔ کوئی شخص کہے : اللہ کی قسم میں ایسا ایسا کروں گا، پھر وہ نہ کرے۔ اور وہ دو قسمیں جن کا کفارہ نہیں ہے وہ اس طرح ہیں کہ کوئی شخص قسم اٹھائے : اللہ کی قسم ! میں نے ایسا ایسا نہیں کیا، حالانکہ اس نے کیا تھا۔ کوئی شخص قسم اٹھائے میں نے ایسا کیا تھا، حلان کہ اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ ابن عبدالبر نے کہا : سفیان ثوری نے اپنی جامع میں ذکر کیا ہے۔ مروزی نے ان سے یہ ذکر کیا ہے، سفیان نے کہا : ایمان (قسمیں) چار ہیں دو کا کفارہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کہے : اللہ کی قسم ! میں ایسا نہیں کروں گا پھر وہ ایسا کرے یا کہے : اللہ کی قسم ! میں ایسا کروں گا پھر وہ ایسا نہ کرے۔ وہ دو قسمیں جن کا کفارہ نہیں دیا جاتا وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص کہے : اللہ کی قسم ! میں نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ اس نے ایسا کیا تھا یا کہے : میں نے ایسا کیا تھا، حالانکہ اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ مروزی نے کہا : پہلی دو قسموں میں علماء کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ سفیان نے کہا اور دوسری دو قسمیں ان کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، اگر قسم اٹھانے والے نے قسم اٹھائی کہ اس نے ایسا ایسا نہیں کیا یا اس نے ایسا ایسا کیا تھا وہ اپنے گمان میں سچا ہے تو اس پر گناہ نہیں اور امام مالک، سفیان ثوری اور اصحاب الرائے کے قول کے مطابق اس پر کفارہ نہیں۔ اسی طرح احمد اور ابوعبید نے کہا ہے : امام شافعی نے فرمایا : اس پر گناہ نہیں اور اس پر کفارہ ہے۔ مروزی نے کہا : اس میں امام شافعی کا قول قوی نہیں، فرمایا : مگر قسم اٹھانے والے نے قسم اٹھائی کہ اس نے ایسا ایسا نہیں کیا تھا، حالانکہ کے اس نے ایسا کیا تھا اس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا تھا تو وہ گناہگار ہے۔ اور اکثر علماء امام مالک، سفیان ثوری، اصحاب الرائے، امام احمد بن حنبل، ابوثور اور ابوعبید کے میں اس پر کفارہ نہیں ہے۔ امام شافعی فرماتے تھے : اس پر کفارہ ہے۔ فرمایا : بعض تابعین سے امام شافعی کے قول کی مثل مروی ہے۔ مروزی نے کہا : میرا میلان امام مالک اور امام احمد کے قول کی طرف ہے، فرمایا : رہی یمین لغو، اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ یمین لغو انسان کا یہ قول ہے : لا واللہ، بلی واللہ۔ وہ اپنی بات میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہے جب کے نہ وہ قسم کو منعقد کرنے والا ہوتا ہے اور نہ اس قسم کا ارادہ ہوتا ہے۔ امام شافعی نے کہا : یہ جھگڑنے، غصہ اور جلدی کے وقت کہا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان یہ قاف کی تخفیف کے ساتھ العقد سے مشتق ہے۔ عقد کی دو قسمیں ہیں حسی جیسے رسی کا باندھا ،۔ حکمی جیسے عقد بیع، شاعر نے کہا : قوم اذا عقدوا عقدا لجارھم شدوا العناج و شدوا فوقہ الکربا اور یمین منعقدہ، یہ العقد سے منفعلتہ کے وزن پر ہے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
653
) اس سے مراد یہ ہے کہ مستقبل میں کسی کام کے کرنے کا پختہ ارادہ کرے پھر وہ کام کرلے یا کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرے اور پھر وہ نہ کرے، جیسا کہ پہلے گزرا ہے یہ وہ قسم ہے جس کو استثنا اور کفارہ حلال کرتا ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ عقدتم عین کے بعد الف بھی پڑھا گیا ہے گا عل کے وزن پر، یہ نہیں ہوتا مگر اکثر دو میں۔ کبھی دوسرا وہ ہوتا ہے جس کے لیے کلام میں قسم اٹھائی جاتی ہے جس کے ساتھ کلام واقع ہوتی ہے یا اس کا معنی ہے : ماعاقدتم علیہ الایمان، کیونکہ عاقد، معنی میں عائد کے قریب ہے پس حرف جر کے ساتھ متعدی کیا گیا، کیونکہ یہ عائد کے معنی میں ہوتا ہے۔ عاھد دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے، دوسرا حرف جر کے ساتھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : ومن اوفی بما عھد علیہ اللہ (الفتح :
10
) یہ اس کی طرح ہے جیسے : نادیتم الی الصلوۃ کو الی کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے، حالانکہ اس کا باب یہ ہے کہ تو کہتا ہے : نادیت زیدا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : و نادینہ من جانب الطور الایمن (مریم :
52
) جب نادینا دعوت کے معنی میں ہو تو الی کے ساتھ متعدی کیا جائے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ (حم السجدہ :
33
) پھر عاقدتم عیلہ الایمان کے قول میں وسعت کی گئی تو حرف جر حذف کیا گیا پس فعل مفعول کے ساتھ مل گیا اور عاقد تم وہ بن گیا۔ پھر ھا کو حذف کیا گیا جیسے فاصدع بما تومر (الحجر :
94
) میں حذف کیا گیا یا فاعل بمعنی فعل ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قتلھم اللہ (توبہ :
30
) یعنی قتلھم اللہ کبھی باب مفاعلہ کلام عرب میں فاعلت کے معنی کے بغیر واحد کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے تیرا قول ہے : سافرت، ظاھرت، عقدتم۔ قاف کی تشدید کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ مجاہد نے کہا : اس کا معنی ہے تصدتم یعنی قصدتم۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ تشدید تکرار کا تقاضا کرتی ہے پس اس پر کفارہ نہیں مگر جب تکرار کرے۔ اس کا وہ حدیث رد کرتی ہے جو نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا :" اللہ کی قسم ! میں انشاء اللہ قسم نہیں اٹھاؤں گا۔ پھر اس کے علاوہ کام کو بہتر دیکھوں گا مگر میں وہ کام کروں گا جو بہتر ہوگا اور میں قسم کا کفارہ دے دوں گا "۔ اس حدیث میں قسم کے کفارہ کے وجوب کا ذکر فرمایا جس میں تکرار نہیں ہے۔ ابوعبید نے کہا : تشدید باربار قسم اٹھانے کا تقاضا کرتی ہے۔ میں امن میں نہیں ہوں کہ جو اس قرأت کے ساتھ پڑھے اس پر ایک قسم میں کفارہ لازم نہ ہو حتی کہ وہ تکرار کرلے۔ یہ قول اجماع کے خلاف ہے۔ نافع نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر جب مؤکد قسم کے علاوہ بھی قسم توڑتے تو دس مساکین کو کھانا کھلاتے اور جب قسم کو مؤکد کرتے تو غلام آزاد کرتے، کسی نے نافع سے پوچھا : قسم مؤکد کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا : کسی چیز پر باربار قسم اٹھانا۔ مسئلہ نمبر : (
5
) ۔ یمین غموس میں اختلاف ہے کیا یہ منعقدہ ہے یا نہیں ؟ جمہور علماء کے نزدیک یہ جھوٹ، فریب اور مکر کی قسم ہے یہ منعقد نہیں ہوتی اور نہ اس پر کفارہ ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : یہ یمین منعقدہ ہے، کیونکہ یہ دل کا فعل یہ خبر کے ساتھ معقود ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسم کے ساتھ متصل ہے اور اس میں کفارہ ہے۔ صحیح پہلا قول ہے۔ ابن المنذر نے کہا : یہ امام مالک بن انس اور ان کے متبعین مدنی علماء کا قول ہے، یہی امام اوزعی اور اہل شام میں سے ان کے ہمنوا علماء کا قول ہے یہی قول ثوری اور اہل عراق کا ہے۔ یہی قول امام احمد، اسحاق، ابوثورا اور ابوعبید، اصحاب الحدیث اور اہل کوفہ میں سے اہل الرائے کا ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا : نبی کریم ﷺ کا ارشاد حدیث : من حلف علی یمین فرای غیرھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیر ولیکفر عن یمینہ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
2
، صفحہ
48
) اور نبی کریم ﷺ کا ارشادحدیث : فلیکفر عن یمینہ ویاتی الذی ھو خیر۔ دلالت کرتا ہے کہ کفارہ اس شخص پر واجب ہوتا ہے جو کسی فعل کی مستقبل میں کرنے کی قسم اٹھاتا ہے، پھر اسے نہیں کرتا یا کسی فعل کے نہ کرنے کی قسم اٹھاتا ہے، پھر وہ اسے کردیتا ہے۔ مسئلہ میں دوسرا بھی قول ہے وہ یہ ہے کہ وہ کفارہ دے اگرچہ وہ گناہگار ہوگا اگر اس نے جان بوجھ کر قسم اٹھائی ہوگی۔ یہ امام شافعی کا قول ہے : حضرت ابوبکر نے کہا : ہم کوئی خبر نہیں جانتے ہیں جو اس قول پر دلالت کرتی ہو اور کتاب وسنت پہلے قول پر دلالت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ولا تجعلوا اللہ عرضتہ لایمانکم ان تبروا و تتقوا وتصلحوا بین الناس (بقرہ :
224
) حضرت ابن عباس نے فرمایا : وہ شخص جو قسم اٹھاتا ہے کہ وہ قرابتداروں سے صلہ رحمی نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے کفارہ میں اس کے لیے نکلنے کی سبیل پیدا فرمائی اور اسے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کو نیکی نہ کرنے کا سبب بنائے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے اخبار اس پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ جس کے ساتھ انسان کسی کا حرام لیتا ہے تو یہ قسم کے کفارہ سے زیادہ گناہ ہے۔ ابن عربی نے کہا : قسم کی دو قسمیں ہیں : لغو اور منعقدہ۔ غالب طور پر لوگوں میں قسموں میں یہی ہوتی ہیں اس کے علاوہ کو چھوڑ (خواہ) وہ سو قسمیں بھی ہوں، کیونکہ اس پر کفارہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے فرمایا : ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! بڑے گناہ کون سے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :" اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا "۔ اس نے کہا : پھر کون سا گناہ ہے ؟ فرمایا :" والدین کی نافرمانی "۔ اس نے پوچھا پھر کون سا ہے۔ فرمایا :" یمین غموس ' میں نے کہا : یمین غموس کیا ہے ؟ فرمایا :" جس کے ساتھ کسی کا مال حاصل کرلے جب کہ اس قسم میں جھوٹا ہو '۔ مسلم نے حضرت ابوامامہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" جس نے کسی مسلمان کا حق قسم کے ذریعے حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آگ واجب کر دے گا اور اس پر جنت حرام کر دے گا "۔ ایک شخص نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! اگرچہ وہ مال تھوڑا سا بھی ہو ؟ فرمایا :" اگرچہ وہ کیکر کی چھڑی بھی ہو '۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" جس نے ایسی مضبوط قسم اٹھائی جس کے ساتھ اس نے کسی مسلمان کا مال حاصل کیا جب کہ وہ اس میں جھوٹا تھا تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے جب کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (
1
) (مسند امام احمد، حدیث نمبر
4212
) " آیت : ان الذین یشترون بعھد اللہ و ایمانھم ثمنا قلیلا الخ (آل عمران :
77
) اس پر کفارہ کا ذکر نہیں فرمایا اگر ہم اس پر کفارہ واجب کریں گے تو اس کا جرم ساقط ہوجائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا کہ وہ اس سے راضی ہوگا اور وہ اس وعید کا مستحق نہیں ہوگا جس کی دھمکی دی گئی ہے اور یہ کیسے نہ ہوگا جب کہ اس قسم اٹھانے والے نے جھوٹ اور غیر کے مال کو حلال سمجھنے کا فعل جمع کیا ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کی قسم کی تخفیف کی ہے اور اس کے ساتھ استہزا کیا ہے اور دنیا کی تعظیم کی۔ اللہ تعالیٰ نے جس کی بڑائی بیان کی اس کی اس نے اہانت کی اور جس کی اللہ نے تحقیر کی اس کی اس نے تعظیم کی، تیرے لیے یہی کافی ہے۔ اسی وجہ بعض علماء نے کہا : یمین غموس کو غموس کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ قسم اٹھانے والے کو آگ میں غوطہ دیتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) ۔ اگر کوئی شخص کسی نیکی کے نہ کرنے کی قسم اٹھائے، پھر اگر وہ اس نیکی کو کرے گا تو وہ حانث ہوجائے گا اور اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ کیونکہ قسم کی مخالفت پائی گئی ہے۔ اسی طرح جب کسی نے کہا : اگر میں یہ کروں پھر نہ کرے تو کفارہ لازم ہوگا۔ جب قسم اٹھائے کہ وہ ضرور ایسا کرے گا تو وہ فی الحال ایسا نہیں کریگاتو وہ حانث ہوگا مخالفت کے پائے جانے کی وجہ سے اگر وہ فعل کر دے گا تو وہ قسم کو پورا کرنے والا ہوگا، اسی طرح اگر کہا : اگر میں ایسا نہ کروں۔ مسئلہ نمبر : (
7
) ۔ قسم اٹھانے والے کا قول :" میں ایسا ضرور کروں گا اور اگر میں ایسا نہ کروں "۔ یہ امر کے قائم مقام ہے اور " میں ایسا نہیں کروں گا اور اگر میں ایسا کروں " یہ نہی کے قائم مقام ہے۔ پہلی صورت میں وہ قسم کو پورا کرنے والا نہیں ہوگا حتی کہ وہ تمام کام کرے جس پر قسم اٹھائی گئی تھی اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی کہے : میں روٹی ضرور کھاؤں گا۔ پھر اس نے بعض روٹی کھائی تو وہ قسم کو پورا کرنے والا نہ ہوگا حتی کہ تمام کھائے۔ کیونکہ روٹی کے ہر جز پر قسم اٹھائی گئی تھی۔ اگر کہا : اللہ کی قسم میں کھاؤں گا۔ مطلقا کہا : تو وہ تھوڑی سی روٹی کھا کر بھی قسم کو پورا کرنے والا ہوگا جس پر روٹی کے اسم کا اطلاق ہوتا ہوگا، کیونکہ وجود میں اکل کی ماہیت کو داخل کرنے کی وجہ سے اور نہی کی صورت میں وہ حانث ہوجائے گا اس کم ازکم روٹی کے استعمال سے جس پر روٹی کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے، کیونکہ اس کا مقتضایہ یہ ہے کہ وجود میں۔۔ عنہ کے افراد میں سے کوئی فردداخل نہ ہو۔ اگر کسی نے قسم اٹھائی کہ وہ گھر میں داخل نہ ہوگا پھر اس نے ایک پائوں داخل کیا تو وہ حانث ہوجائے گا اس پر دلیل یہ ہے کہ ہم نے شارع کو پایا کہ پہلے اسم کے ساتھ تحریم کی جہت کو مغلظ کیا ارشاد فرمایا : آیت : ولا تنکحوا ما نکح اباوکم (النسائ :
22
) پس جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول نہیں کیا تو وہ اس کے باپ اور بیٹے پر حرام ہوجائے گی، پہلے اسم کے ساتھ تحلیل کی جہت میں اکتفا نہیں کیا فرمایا : لا حتی تذوتی عسیلتہ نہیں حتی کہ تو اس کا ذائقہ چکھ لے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء حسنی کے ساتھ قسم اٹھائی جائے گی جیسی الرحمن، الرحیم، السمیع، العلیم، الحلیم اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات علیا کے ساتھ قسم اٹھائی جائے گی جیسے اس کی عزت، اس کی قدرت، اس کا علم، اس کا ارادہ، اس کی کبریائی، اس کی عظمت، اس کا عہد، اس کا میثاق اور دوسری اس کی ذاتی صفات، کیونکہ ان کے ساتھ قسم بھی غیر مخلوق قدیم کے ساتھ قسم ہے، اس کے ساتھ قسم اٹھانے والے ذات کے ساتھ قسم اٹھانے والے کی طرح ہیں۔ ترمذی، نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے جب جنت کو دیکھا اور اللہ کی طرف واپس آئے تو کہا : تیری عزت کی قسم ! کوئی اس جنت کے متعلق نہیں سنے گا مگر وہ اس میں داخل ہوگا۔ اسی طرح آگ کے بارے میں کہا : و عزتک تیری عزت کی قسم ! ایسا نہیں کوئی اس کے بارے میں سنے اور پھر اس میں داخل ہو (
1
) (جامع ترمذی، کتاب صفتہ الجنتہ عن رسول اللہ ﷺ ، حدیث نمبر
2483
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ترمذی اور نسائی وغیرہ نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ ان الفاظ کے ساتھ قسم اٹھاتے تھے حدیث : لا و مقلب القلوب (
2
) (جامع ترمذی، کتاب النذوروالایمان عن رسول اللہ ﷺ ، حدیث نمبر
1460
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ایک روایت میں ہے حدیث : لاومصرف القلوب (
3
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الکفارات، حدیث نمبر
2082
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اہل علم کا اجماع ہے کہ جو قسم اٹھائے اور کہے واللہ یا باللہ یا تاللہ پھر حانث ہوجائے اس پر کفارہ ہے۔ ابن امنذر نے کہا : مالکی، شافعی، ابوعبید، ابوثور، اسحاق اور اصحاب الرائے کہتے ہیں : جس نے اللہ کے اسماء میں سے کسی اسم کے ساتھ قسم اٹھائی اور پھر حانث ہوجائے تو اس پر کفارہ ہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں : اور میں اس کے خلاف نہیں جانتا۔ میں کہتا ہوں : باب ذکر الحلف بالقرآن میں نقل ہے، یعقوب نے کہا : جس نے الرحمن کے ساتھ قسم اٹھائی پھر قسم توڑ دی اس پھر کفارہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : الرحمن اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہے، اس پر اجماع ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
9
) ۔ علماء کا وحق اللہ و عظمتہ اللہ وقدرۃ اللہ وعلم ولعمر اللہ و ایم اللہ میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے کہا : یہ تمام قسمیں ہیں ان میں کفارہ واجب ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : وحق اللہ و جلال و عظتہ اللہ و قدرۃ اللہ۔ قسم ہے، اگر اس سے قسم کی نیت کرے اگر قسم کی نیت نہ کرے تو قسم نہیں، کیونکہ اس میں احتمال ہے اس کا مطلب ہوگا اللہ کا حق واجب ہے اور اس کی قدرت ظاہر ہونے والی ہے۔ اور فی امانتہ اللہ میں فرمایا : یہ قسم نہیں ہے۔ ولعمر اللہ وایم اللہ اگر ان سے قسم مراد نہ لے تو قسم نہ ہوگی۔ اصحاب الرائے نے کہا : و عظمتہ اللہ و عذۃ اللہ و جلال اللہ و کبریاء اللہ و امانتہ اللہ پھر قسم توڑ دی تو اس پر کفارہ ہوگا۔ حق اللہ قسم نہیں ہے اور اس پر کفارہ بھی نہیں ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے جو رازی نے ان سے حکایت کیا ہے، اسی طرح عھد اللہ و میثاقہ و امانتہ قسم نہیں ہے۔ امام صاحب کے بعض اصحاب نے کہا : یہ قسم ہے۔ امام طحاوی نے کہا : یہ قسم نہیں ہے، اسی طرح جب کہا : وعلم اللہ تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک قسم نہ ہوگی۔ امام ابویوسف کا قول اس سے مختلف ہے انہوں نے کہا : یہ قسم ہے۔ ابن عربی نے کہا : امام صاحب نے یہ قول اس لیے فرمایا : کیونکہ علم کبھی معلوم کے معنی میں ہوتا ہے اور وہ محدث ہے پس وہ قسم نہ ہوگی اور وہ اس سے غافل رہے کہ قدرت بمعنی مقدور بھی استعمال ہوتی ہی ہر جواب جو وہ مقدور کے بارے میں کہیں گے وہی ہمارا معلوم کے بارے میں جواب ہوگا۔ ابن امنذر نے کہا : یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حدیث : وایم اللہ ان کان لخلیفا للا مارۃ اللہ کی قسم ! وہ امارت کا حقدار تھا۔ یہ آپ ﷺ نے حضرت زید اور ان کے بیٹے حضرت اسامہ کے واقع میں فرمایا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ علیہ عنہ فرماتے تھے و ایم اللہ۔ اسی طرح حضرت ابن عمر نے فرمایا : اسحاق نے کہا : جب ایم اللہ سے مراد قسم لے گا تو ارادہ اور دل کی عقد کے ساتھ قسم ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (
10
) ۔ قرآن کی قسم اٹھانے میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : ہر ایک عوض اس پر قسم ہوگی۔ حسن بصری اور ابن المارک کا یہی قول ہے، امام احمد نے فرمایا : میں کوئی ایسی دلیل نہیں جانتا جو اس کو رد کرے۔ ابوعبیدہ نے کہا : یہ ایک قسم ہوگی۔ امام ابوحنیفہ نے کہاـ: اس پر کفارہ نہیں ہے۔ قتادہ قرآن کے ساتھ قسم اٹھاتے تھے۔ احمد اور اسحاق نے کہا : ہم اس کو ناپسند کرتے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کے اسماء اور صفات کے علاوہ قسم منعقد نہ ہوگی، امام احمد بن حنبل نے فرمایا : جب نبی کریم ﷺ کی قسم اٹھائے گا تو قسم منعقد ہو جاے گیکیون کہ اس نے ایسی ذت کی قسم اٹھائی کہ ایمان کی تکمیل ان کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہوتی ہے اس پر کفارہ لازم ہوگا جس طرح اگر اللہ کی قسم اٹھاتاتو کفارہ لازم ہوتا۔ اس کو دو حدیث رد کرتی ہیں جو صحییں وغیرہما میں ثابت ہے رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب کو ایک قافلہ میں پایاجب کہ حضرت عمر اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دی " خبر دار اللہ تعالیٰ تمہیں آباء کی قسم سے منع کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے " (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
2
، صفحہ
46
) یہ اللہ کی ذات، اس کے اسماء اور اس کی صفات کے علاوہ ہر چیز کی قسم نہ اٹھانے میں حصر ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور اس کو مزید ابوداود اور نسائی وغیرہما کی روایت ثابت کرتی ہے جو حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" اپنے آباء اپنی امہات اور انداد کی قسم نہ اٹھائو اور قسم نہ اٹھائو مگر اللہ کی اور اللہ کی قسم نہ اٹھائو مگر جب تم سچے ہو " (
2
) (سنن ابن داود، کتاب الایمان۔۔۔۔ ، حدیث
2827
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پھر اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے جو کہتا ہے حضرت آدم و حضرت ابراہیم کی قسم تو وہ بھی کہتا ہے : اس پر کفارہ نہیں، حالانکہ یہاں بھی اس نے ایسی ذات کی قسم اٹھائی جن کے ساتھ ایمان مکمل ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) ۔ ائمہ نے روایت کی ہے اور یہ لفظ مسلم کے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" جس نے تم میں سے قسم اٹھائی اور اس نے لات کی قسم اٹھائی تو وہ الا الہ الا اللہ کہے (یعنی دوبارہ کلمہ پڑھے) اور جس نے اپنے ساتھی کو کہا : آئو میں تمہارے ساتھ جوا کھیلتا ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ صدقہ کرے "۔ نسائی نے حضرت مصعب بن سعد عن ایبہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم کسی معاملہ کا ذکر کر رہے تھے جب میرا زمانہ جہالت قریب تھا میں لات و عزی کی قسم اتھائی۔ مجھے کسی صحابی نے کہا : تو نے بہت برا کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے " تو نے جھوٹ کہا "۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس واقعہ کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا :" تم کہو لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر اور تین مرتبہ اپنی بائیں جانب تھوک دے اور اللہ تعالیٰ سے شیطان کی پناہ مانگ اور پھر کبھی ایسا نہ کہنا "۔ علماء نے فرمایا : جس نے ایسا کلمہ کہا اس کو رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد کلمہ پڑھنے کا حکم اس لفظ کے کفارہ کے لیے اور غفلت سے تذکیر کے لیے اور نعمت کی تکمیل کے لیے دیا تھا۔ لات کا ذکر خصوصی طور پر کیا، کیونکہ یہ اکثر لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوتا تھا۔ ان کے دوسرے بتوں کے ناموں کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح جس نے اپنے ساتھی سے کہا : آئو میں تمہارے ساتھ جوا کھیلوں گا تو اس کو صدقہ کرنا چاہیے۔ اس کے بارے کلام اسی طرح ہے جس طرح لات کے بارے میں ہے، کیونکہ وہ جوا کھیلنے کے عادی بن چکے تھے اور یہ باطل ذریعہ سے مال کھانا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) ۔ امام ابواحنیفہ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو کہتا ہے وہ یہودی یا نصرانی ہے یا اسلام سے بری ہے یا نبی سے بری ہے یا قرآن سے بری ہے یا اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا ہے یا اللہ عالی سے کفر کیا ہے، تو یہ قسم ہے اس میں کفارہ لازم ہے اور جب اس نے کہا : والیھودیتہ والنصرانیتہ والنبی والکعبتہ اگرچہ قسم کے صیغہ پر کہا تو اس پر کفارہ لازم نہیں ہوتا اور ان کی دلیل دارقطنی کی روایت ہے جو انہوں نے حضرت ابورافع سے روایت کی ہے کہ ان کے سردار عورت نے ارادہ کیا کہ وہ ان کے اور ان کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دے اس نے کہا : وہ ایک دن یہودیہ ہوگی، ایک دن نصرانیہ ہوگی اس کا ہر مملوک آزاد ہے اس کا جو مال ہے وہ اللہ کے راستہ میں ہے اور اس پر اللہ کے گھر کی طرف چل کر جانا ہے اگر اس نے ان کے درمیان جدائی نہیں کی، اس نے یہ مسئلہ حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت ام سلمہ سب سے پوچھا تو انہوں نے اس سے کہا : تو ہاروت وماروت کی مثل ہونا چاہتی ہے انہوں نے اسے قسم کا کفارہ دینے اور انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دینے کا کہا، انہوں نے حضرت رافع سے روایت کیا ہے فرمایا : میری مالکن نے کہا : میں تمہارے اور تمہاری بیوی کے درمیان جدائی کر ائوں گی۔ اس کا ہر مال کعبہ کی چوکھٹ کے لیے ہے۔ وہ ایک دن یہودیہ، ایک دن نصرانیہ، ایک دن مجوسیہ، اگر میں تیرے اور تیری بیوی کے درمیان جدائی نہ کرائوں۔ حضرت رافع نے فرمایا : میں ام المومنین ام سلمہ کی طرف گیا، میں نے کہا : میری مالکن چاہتی ہے کہ وہ میرے اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دے۔ حضرت ام سلمہ نے کہا : تو اپنی مالکن کے پاس جا اور اسے کہہ کہ تیرے لیے حلال نہیں، حضرت رافع نے کہا : میں مالکن کے پاس واپس آیا۔ میں حضرت ابن عمر کے پاس گیا انہیں یہ سارا واقع سنایا۔ پس وہ آئے حتی کہ دروازے پر پہنچ گئے فرمایا : یہاں ہاروت وماروت ہیں۔ اس عورت نے کہا : میں نے تمام مال کعبہ کی چوکھٹ کے لیے کردیا ہے فرمایا : پھر تو کس چیز سے کھائے گی۔ اس عورت نے کہا : میں نے کہا ہے میں ایک دن یہودیہ ہوں گی، ایک دن نصرانیہ ہوں، ایک دن مجوسیہ ہوں۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : اگر تو یہودی ہوگی تو تجھے قتل کیا جائے گا، اگر تو نصرانی ہوگی تو تجھے قتل کیا جائے گا، اگر تو مجوسی ہوگی تو تجھے قتل کیا جائے گا۔ اس عورت نے کہا : پھر تم مجھے حکم دیتے ہو ؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا : تو اپنی قسم کا کفارہ دے اور اپنے غلام اور لونڈی کو جمع کر۔ علماء کا اجماع ہے کہ قسم اٹھانے والا جب کہے : اقسم باللہ۔ تو یہ قسم ہے۔ اور اس میں اختلاف ہے جب کہے : اقسم یا کہے : اشھد لیکونن کذا وکذا اور باللہ نہ کہے تو امام مالک کے نزدیک ایمان ہوگی۔ جب باللہ کا ارادہ کیا ہو، اگر باللہ کا ارادہ نہ کیا ہو قسمیں نہ ہوں گی جن کا کفارہ دیا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، اوزاعی، حسن اور نخعی نے کہا : یہ دونوں صورتوں میں قسمیں ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : قسم نہ ہوگی حتی کہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذکر کرے۔ یہ مزنی کی امام شافعی سے روایت ہے۔ ربیع نے امام شافعی سے مالک کے قول کی مثل روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
14
) ۔ جب کہے : تجھے میں قسم دیتا ہوں تو ایسا ضرور کرے گا اگر تو اس کا ارادہ سوال ہے تو کفارہ نہیں ہے اور یہ قسم نہیں اور اگر قسم کا ارادہ ہے تو وہی حکم ہے جو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
15
) ۔ جو ایسی چیز کی قسم اٹھائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے لیکن اس کی صفات سے نہیں ہے جیسے و خلق اللہ و رزق اللہ و بیت اللہ۔ تو اس پر کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ یہ قسمیں جائز نہیں ہیں اس نے اللہ کے علاوہ کی قسم اٹھائی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) ۔ جب قسم منعقد ہوجائے گی تو اسے کفارہ حلال کرے گا یا استثنا۔ ابن الماجشون نے کہا : استثنا کفارہ کا بدل ہے وہ قسم کو حلال کرنے والا نہیں۔ ابن اقاسم نے کہا : یہ قسم کو حلال کرنے والا ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ فقہاء امصار کا مذہب ہے اور یہی صحیح ہے اس میں شرط ہے کہ وہ متصل ہو تلفظ کے ساتھ ہو، اس کی دلیل نسائی اور ابوداود کی روایت ہے جو حضرت ابن عمر سے مروی ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : جس نے قسم اٹھائی اور استثنا کردی تو پھر اگر وہ چاہے تو اس کام کو کرے چاہے تو ترک کر دے وہ قسم کو توڑنے والا نہ ہوگا اگر بغیر لفظ کے نیت کی یا متصل نہ کہا جب کوئی عذر بھی نہ تھا تو استثنا سے فائدہ نہ دے گی۔ محمد بن المواز نے کہا : استثنا قسم کے ساتھ اعتقادا متصل ہوگی اگرچہ آخری حرف کے ساتھ ہو۔ فرمایا : اگر وہ قسم سے فارغ ہوگیا پھر استثنا کی تو اسے نفع نہ دے گی، کیونکہ قسم مکمل ہوچکی تھی اور وہ استثنا سے خالی تھی، پس اس کے بعد استثنا کو وارد ہونا موثر نہ ہوگا جیسے بہت دیر کے ساتھ کہے تو موثر نہیں ہوتا۔ اس کو حدیث من حلف فاستثنی رد کرتی ہے، فاتعقیب کے لیے ہے اس پر جمہور اہل علم ہیں۔ نیز یہ تو اس تک پہنچاتا ہے کہ قسم حلال نہ ہو جس کو اس نے اٹھایا ہے اور یہ باطل ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا : ہمارے اصحاب کا اختلاف ہے کہ جب وہ اپنے نفس میں محلوف علیہ کی تخصیص کی استثنا کرے۔ ہمارے بعض اصحاب نے کہا : اس کا استثنا کرنا صحیح ہے جب محلوف لہ ظالم ہو۔ بعض نے فرمایا : استثنا صحیح نہیں ہے حتی کہ محلوف لہ اس کو سن لے۔ بعض نے فرمایا : جب استثنا کے ساتھ زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے تو صحیح ہے اگرچہ محلوف لہ (جس کے لیے قسم اٹھائی) نہ بھی سنے۔ ابن خویز منداد نے کہا : ہم نے کہا : دل میں اس کی استثنا صحیح ہے، کیونکہ قسموں کا اعتبار نیتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم نے کہا : یہ صحیح ہے حتی کہ وہ استثنا کے ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے، کیونکہ جس نے زبان اور ہونٹوں کو حرکت نہ دی تو وہ کلام کرنے والا نہ ہوگا استثنا کلام سے شمار ہوتی ہے جو کلام کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ ہم نے کہا : یہ کسی حال میں صحیح نہیں، کیونکہ یہ محلوف لہ کا حق ہے یہ اس کے مطابق واقع ہوتی ہے جو اس کے لیے حاکم پورا کرتا ہے جب قسم مخالف کے لیے اختیار پر نہ ہو بلکہ وہ اس سے حاصل کی گئی ہو تو واجب ہے کہ اس کے لیے اس میں حکم نہ ہو۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : ایک سال کے بعد بھی قسم کا استثنا پایا جائے گا۔ ابوالعالیہ اور حسن نے اس میں ان کی متابعت کی ہے اور انہوں نے اس قول کے ساتھ حجت قائم کی ہے آیت : والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر (الفرقان :
68
) کیونکہ اس کے سال بعد آیت : الا من تاب (الفرقان :
70
) نازل ہوا تھا۔ مجاہد نے کہا : جس نے دو سال بعد (انشاء اللہ) کہا، تو بھی جائز ہوگا۔ سعید بن جبیر نے کہا : اگر چار مہینے بعد استثنا کی تو جائز ہوگی۔ طائوس نے کہا : وہ استثنا کرسکتا ہے جب تک مجلس میں ہے۔ قتادہ نے کہا : اگر کھڑے ہونے یا کلام کرنے سے پہلے استثنا (ان شاء اللہ) کردی تو استثنا شمار ہوگی۔ امام احمد بن حنبل اور اسحاق نے کہا : جب تک اس معاملہ میں ہے استثنا (انشاء اللہ) کرسکتا ہے۔ عطا نے کہا : اس کے لیے اونٹنی کا دودھ دوہنے کی مقدار ہے۔ مسئلہ نمبر : (
17
) ۔ ابن عربی نے کہا : حضرت ابن عباس نے جس آیت سے حجت پکڑی ہے وہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ وہ علم الہی میں اور لوح محفوظ میں دونوں آیتیں متصل ہیں اس کے نزول میں تاخیر علم الہی کی حکمت کے پیش نظر ہے لیکن اس پر ایک عمدہ فرع مترکب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قسم اٹھانے والا جب کہے : اللہ کی قسم ! تو گھر میں داخل ہوئی اور تجھے طلاق، اگر تو گھر میں داخل ہوئی اس نے پہلی قسم میں انشاء اللہ دل میں کہا اور دوسری قسم میں دل میں ایسی بات نکالی جو استثنا کے مناسب تھی جو قسم اٹھا دیتا ہے خواہ وہ مدت ہو یا کوئی سبب ہو، کسی کی مشیت ہو اس نے محلوف لہ (جس کے لیے قسم اٹھائی) کے ڈر کی وجہ سے استثنا کو ظاہر نہ کیا تو یہ اس کو فائدہ دے گا اور دونوں قسمیں اس پر منعقد نہ ہوں گی طلاق میں بھی یہ ہو جب تک کہ دلیل موجود نہ ہو اگر دلیل موجود ہو تو اس کی استثنا کا دعوی قبول نہ ہوگا۔ یہ اس کو مفید ہوگا جب وہ فتوی لینے کے لیے آئے گا۔ میں کہتا ہوں ؛ استثنا کی وجہ اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں ظاہر فرمائی اور دوسری میں مخفی رکھی، اسی طرح جب قسم اٹھانے والا بھی جب خوف کی بنا پر قسم اٹھائے اور استثنا کو مخفی کر دے۔ واللہ اعلم۔ ابن عربی نے کہا : ابوالفصل مراغی مدینہ الاسلام (بغداد) میں پڑھتا تھا اور اس کے خطوط اس کے شہر سے اس کی طرف آتے تھے تو وہ انہیں صندوق میں رکھتا تھا اور ان میں سے کوئی کوئی ایک بھی نہیں پڑھتا تھا اس خوف سے کہ ان میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو اسے پریشان کر دے اور اسے علم کے حصول سے روک دے جب پانچ سال گزر گئے تو اس نے طلب علم کی غرض پوری کرلی اور اس نے واپسی کا ارادہ کیا، اس نے اپنی سواری کو تیار کیا تو اس نے اپنے خطوط نکالے اور انہیں پڑھا ان میں وہ کچھ لکھا تھا کہ اگر کوئی انہیں ان کے پہنچنے کے بعد پڑھتا تو اس کے لیے علم کا ایک حرف بھی پڑھنا ممکن نہ ہوتا۔ فضل نے اللہ کی حمد کی اور سواری پر اپنا سامان باندھا اور خراسان کے راستہ سے حلبتہ کے باب کی طرف نکل پڑے، کرائے والے نے سواری پیش کی وہ ایک خباز (تانبائی) کے پاس کھڑے ہوئے اس سے سامان سفر خرید رہے تھے وہ اس کے ساتھ باتیں کر رہے تھے انہوں نے اسے ایک دوسرے تانبائی کو کہتے ہوئے سنا کہ کیا تو نے عالم یعنی وعظ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت ابن عباس استثنا کو جائز قرار دیتے تھے اگرچہ سال بعد بھی ہو، میں نے اس کی بات سنی تو میں سوچنے لگ گیا اگر یہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو آیت : خذ بیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث (ص :
44
) نہ فرماتا، اسے یہ کہنے سے کون سی چیز مانع تھی کہ تو انشاء اللہ کہ دے جب اس نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا تو اس نے کہا : اس شہر کے تانبائیوں کی علمی کیفیت یہ تھی اس مرتبہ علم نے انہیں مراغتہ سے نکالا تھا، میں کبھی ایسا نہیں کروں گا وہ کرائے والے کے پیچھے چلا اسے کرایا دے دیا اور وہاں ہی ٹھہرا رہا حتی کہ فوت ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (
18
) ۔ استثنا یمین باللہ کو اٹھا دیتی ہے یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں اور وہ قسم جو غیر اللہ میں ہو اس کی استثنا میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ نے کہا : ہر یمین میں استثنا واقع ہوتی ہے جیسے طلاق، عتاق وغیرہ۔ ابو عمر نے کہا : جس پر علماء کا اجماع ہے وہ حق ہے استثنا کا ذکر یمین باللہ میں ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
19
) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فکفارتہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے میں علماء کا ختلاف ہے کیا یہ جائز ہے کہ نہیں ؟ اس اجماع کے بعد کہ کفارہ سے پہلے قسم توڑنا مباح، حسن ہے، یہ علماء کے نزدیک اولی ہے۔ علماء کے تین قول ہیں : (
1
) مطقا جائز ہے یہ چودہ صحابہ، جمہور علماء کا مذہب ہے اور امام مالک کا مشہور مذہب یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : کسی اعتبار سے جائز نہیں۔ یہ اشہب کی روایت امام مالک سے ہے۔ جواز کی وجہ کا ثبوت حضرت ابوموسی اشعری کی روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" اللہ کی قسم ! انشاء اللہ میں کسی کام پر قسم اٹھائوں گا پھر اس کے علاوہ کوئی بہتر کام دیکھوں گا تو میں اپنی قسم کا کفارہ دوں گا اور وہ کام کروں گا جو بہتر ہوگا " (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
2
، صفحہ
48
) اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے اور معنی کی جہت سے اس طرح ہے کہ قسم کفارہ کا سبب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : ذالک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم۔ یہاں کفارہ کو قسم کی طرف مضاف کیا اور معانی اسباب کی طرف مضاف کیے جاتے ہیں نیز کفارہ قسم پوری کرنے کا بدل ہے پس توڑنے سے پہلے کفارہ دینا جائز ہے اور منع کی دلیل مسلم کی روایت ہے جو حضرت عدی بن حاتم سے مروی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ " جس نے کسی کام پر قسم اٹھائی پھر اس نے اس کے علاوہ اس سے بہتر کام دیکھا تو وہ وہ کرے جو بہتر ہے "۔ نسائی نے یہ زائد ذکر کیا ہے کہ " وہ قسم کا کفارہ دے " اور معنی کی جہت سے اس طرح ہے کہ کفارہ گناہ کو اٹھانے کے لیے ہے جب تک اس نے قسم توڑی نہیں تو وہ کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کو اٹھایا جائے، اس لیے پہلے کفارہ ادا کرنے میں کوئی فائدہ نہیں اور اذا حلفتم کا معنی ہے جب تم قسم اٹھائو اور پھر قسم توڑ دو نیز ہر عبادت جو وجوب سے پہلے ادا کی جائے وہ صحیح نہیں ہوتی جیسا کہ نمازیں اور دوسری عبادات ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : قسم کا کفارہ کھانا کھلانے، غلام آزاد کرنے اور کپڑے پہننانے کے ساتھ جائز ہے اور روزے کے ساتھ جائز نہیں، کیونکہ بدن کا عمل وقت سے پہلے مقدم نہیں کیا جاتا اس کے علاوہ میں کفارہ کو مقدم کرنا جائز ہے۔ یہ تیسرا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) اللہ تعالیٰ نے کفارہ میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے ان میں اختیار دیا گیا ہے ان کی عدم موجودگی کے وقت روزے کا ذکر فرمایا کھانے سے آغاز فرمایا، کیونکہ وہ حجاز کے شہروں میں افضل تھا، کیونکہ اس کی حاجت زیادہ تھی اور لوگوں میں سیرابی بہت کم تھی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قسم کا کفارہ تخییر پر ہے۔ ابن عربی نے فرمایا : جو میرے نزدیک ہے وہ یہ ہے کہ یہ حالت کے اعتبار سے ہے اگر تو احتیاج کو محسوس کرے تو کھانا افضل ہے، کیونکہ جب تو غلام آزاد کرے گا تو ان کی حاجت پوری نہیں کرے گا اور گیارویں محتاج کا اضافہ کرے گا، اسی طرح اس کے بعد لباس ہے جو اس سے متصل ہے جب اللہ تعالیٰ نے حاجت کو دیکھا تو مقدم مہم سے آغاز کیا۔ مسئلہ نمبر : (
21
) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : اطعام عشرۃ مسکین ہمارے نزدیک اور امام شافعی کے نزدیک مساکین کو اس چیز کا مالک بنانا ضروری ہے جو ان کے لیے نکالی جائے اور ان کے حوالے کر دے حتی کہ وہ مالک ہوجائیں اور اس میں تصرف کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وھو یطعم ولا یطعم (انعام :
14
) وہ کھلاتا ہے، کھلایا نہیں جاتا۔ اور حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے دادے کو سدس
6
/
1
حصہ دیا، کیونکہ یہ کفارہ کی ایک قسم ہے اس میں جائز نہیں مگر تملیک۔ اس کی اصل الکسوہ ہے امام ابوحنیفہ نے کہا : اگر انہیں صبح وشام کھلائے تا جائز ہے۔ ہمارے علماء میں سے ابن ماجشون کا یہ مختار قول ہے، ابن ماجشون نے کہا : کھانے میں قدرت دے دینا کھلانا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : ویطعمون الطعام علی حبہ مسکنا و یتیما و اسیرا (الدہر) کسی اعتبار کھلائے وہ اس آیت میں داخل ہے۔ مسئلہ نمبر : (
22
) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : من اوسط ما تطعمون اھلیکم سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے کہ الوسط بمعنی اعلی اور بہتر ہے یہاں دو مرتبوں کے درمیان ایک مرتبہ ہے اور دونوں اطراف کے درمیان نصف ہے اس سے حدیث ہے حدیث : خیر الامور اوسطھا بہتر امر درمیانہ ہے۔ ابن ماجہ نے روایت کیا ہے محمد بن یحییٰ نے ہمیں بتایا انہوں نے کہا ہمیں عبدالرحمن بن مہدی نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں سفیان بن عیینہ نے کہا انہوں نے سلیمان بن ابی مغیرہ سے روایت کیا انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کیا انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا فرمایا : ایک شخص اپنے اہل کو خوراک دیتا ہے اس میں وسعت ہوتی ہے ایک شخص اپنے اہل کو خوراک دیتا ہے اس میں شدت ہوتی ہے تو یہ آیت نازل ہوئیـ: آیتـ: من اوسط ما تطعمون اھلیکم یہ دلیل ہے کہ یہاں وسط سے مراد وہ ہے جو ہم نے ذکر کیا یعنی وہ چیز جو دو چیزوں کے درمیان ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
23
) ۔ امام مالک کے نزدیک دس مسکینوں میں سے ہر ایک کے لیے کھانے میں مد ہوگا اگر نبی کریم ﷺ کے شہر کے مد کے ساتھ ہو یہی قول امام شافعی اور اہل مدینہ کا ہے۔ سلیمان بن یسار نے کہا : میں نے لوگوں کو پایا کہ وہ جب قسم کا کفارہ دیتے تھے تو گندم کا ایک مد، مد اصغر کے ساتھ دیتے تھے اور اس کو ان کی طرف سے کافی سمجھتے تھے۔ یہ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت زید بن ثابت کا قول ہے۔ عطا بن ابی رباح نے بھی یہی کہا ہے، قسم کے علاوہ کفارہ ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ ابن القاسم نے کہا : ہر جگہ مد کافی ہے۔ ابن المواز نے کہا : ابن وہب نے مصر میں ایک مد اور ایک نصف کا فتوی دیا۔ اور اشہب نے ایک مد اور ثلث
3
/
1
کا فتوی دیا فرمایا : ایک مد اور ایک ثلث
3
/
1
صبح وشام میں شہریوں کے درمیانی خوراک تھی۔ امام ابوحنیفہ نے کہاـ: گندم کا نصف صاع دے اور کھجور اور جو کا ایک صاع دے انہوں نے یہ حضرت عبداللہ بن ثعلبہ بن صغیر عن ایبہ کے سلسلہ سے مروی حدیث کی بنا پر کہا ہے۔ صغیر نے کہا : رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، آپ ﷺ نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر فرد کی طرف سے یا دو شخصوں کو ایک صاع دینے کا حکم فرمایا۔ سفیان اور ابن المبارک نے اسی قول کو لیا ہے۔ حضرت علی، حضرت عمر اور حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ سے بھی یہی مروی ہے۔ سعید بن مسیب کا یہی قول ہے اور یہ اکثر فقہاء عراق کا قول ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس نے یہ روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع کھجور کا کفارہ دیا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا اور جو یہ نہ پائے وہ نصف صاع گندم دے : حدیث : من اوسط ما تطعمون اھلیکم اس حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا۔ مسئلہ نمبر : (
24
) یہ کفارہ کسی غنی اور ایسے کسی قریبی رشتہ دار کو دینا جائز نہیں جس کا نفقہ لازم ہوتا ہے اگر رشتہ دار ایسے افراد سے ہو جس کا نفقہ لازم نہیں ہوتا، امام مالک نے فرمایا : مجھے تو اسے کھلانا بھی اچھا نہیں لگتا لیکن وہ ایسے کر دے اور لینا والا فقیر ہو تو جائز ہوگا اگر ایسے غنی کو کھلایا جس کی غنا کا اسے علم نہ تھا تو " مدونہ " اور دوسری کتب میں ہے کہ جائز نہیں ہوگا اور " الاسدیہ " میں ہے جائز ہوگا۔ (
1
) (المحررالوجیز، جلد
2
، صفحہ
230
) مسئلہ نمبر : (
25
) انسان وہ چیز کفارہ میں دے جو خود کھاتا ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہاں علماء کی ایک جماعت سے لغزش ہوئی انہوں نے کہا : جب وہ خود جو کھاتا ہو اور لوگ گندم کھاتے ہوں تو وہ ایسی چیز کفارہ میں دے جو لوگ کھاتے ہیں۔ یہ کھلا سہو ہے، کیونکہ جب کفارہ دینے والا اپنے لیے صرف جو کی طاقت رکھتا ہے تو اسے دوسرے کے لیے کسی اور چیز کا مکلف نہیں کیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : حدیث : صاعا من طعام صاعا من شعیر دونوں کا علیحدہ ذکر فرمایا تاکہ ہر شخص وہ نکالے جو خود کھاتا ہے۔ اس میں کوئی خفا نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
26
) امام مالک نے فرمایا : اگر دس مسکینوں کو صبح وشام کھانا کھلایا تو اس کے لیے جائز ہوگا۔ امام شافعی نے فرمایا : انہیں اکھٹا کھلانا جائز نہیں، کیونکہ وہ کھانے میں مختلف ہوتے ہیں بلکہ ایک مسکین کو ایک مد دے، حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک وقت کا دس مسکینوں کا کھانا کھلانا کافی نہیں یعنی صرف صبح کا کھانا کھلانا اور شام کا کھانا نہ کھلانا یا صرف شام کا کھلانا اور صبح کا نہ کھلانا، بلکہ انہیں صبح وشام کھانا کھلائے۔ ابوعمر نے کہا : یہ ائمہ فتوی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
27
) ابن حبیب نے کہا : صرف روٹی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ سالن بھی دیا جائے گا خواہ وہ زیتون کا تیل ہو یا کشک (جو کا پانی) ہو یا کا مخ (سالن) ہو یا کوئی بھی سالن ہو جو میسر ہو۔ ابن عربی نے کہا : یہ زیادتی ہے میں اسے واجب نہیں جانتا، اس کے لیے مستحب ہے کہ روٹی کے ساتھ چینی، ہاں اور گوشت ہو، رہا کسی کھانے کے لیے سالن کی تعیین ہو تو اس کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ لفظ اس کو متضمن نہیں۔ میں کہتا ہوں، آیت کا نزول وسط میں ہے جو روٹی اور زیتون یا سرکہ کا تقاضا کرتی ہے اور جو چیز اس کے مفہوم میں ہو پنیر، کشک (جو کا پانی) وغیرہ جیسا کہ ابن حبیب نے کہا تھا : واللہ اعلم۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" بہترین سالن سرکہ ہے " حسن بصری نے کہا : اگر وہ مساکین کو گوشت اور روٹی کھلائے یا روٹی اور زیتون ایک مرتبہ ایک دن میں کھلائے حتی کہ وہ سیر ہوجائیں تو کافی ہے یہ ابن سیرین، جابر بن زید اور مکحول کا قول ہے یہ حضرت انس بن مالک سے بھی مروی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
28
) ہمارے نزدیک سارا کفارہ ایک مسکین کو دینا جائز نہیں امام شافعی کا یہی قول ہے (
1
) (احکام القرآن لابن عربی) اور امام ابوحنیفہ کے اصحاب ایک فقیر کو یک بارگی تمام کفارہ دینے کو منع کرتے ہیں اور اس میں اختلاف کرتے ہیں کہ وہ تمام کفارہ ایک دن میں کئی مرتبہ ایک فقیرکودے، بعض نے اس کی اجازت دی ہے جب فعل متعدد ہو تو دوسرے فعل میں یہ کہنا اچھا ہے کہ اسے منع نہ کیا جائے جس کو پہلے دیا گیا ہے، کیونکہ مسکین کا اسم اس کو بھی شامل ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : اس کو کئی ایام میں دینا جائز ہے اگر ایام متعدد ہوں گے تو وہ کئی مساکین کے قائم مقام ہوگا۔ (
2
) (احکام القرآن للکیاطبری) امام ابوحنیفہ نے کہا : یہ اس کے لیے جائز ہے، کیونکہ آیت سے مقصود اس مقدار کی تعریف ہے جو کھلایا جائے گا اگر اس نے یہ مقدار ایک کو دے دی تو جائز ہے۔ ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا دس مساکین پر نص قائم فرمانا ہے پس اس سے عدول جائز نہیں کیونکہ اس میں مسلمانوں کی ایک جماعت کا احیاء اور ان کی ایک دن کفایت کرنا ہے، پس وہ اس دن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی دعا کے لیے فارغ ہوں گے پھر اس کے سبب کفارہ دینے والے کو بخش دیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
29
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فکفارتہ ضمیر کا مرجع نحوی قواعد کے مطابق ما ہے اور اس جگہ میں احتمال ہے کہ یہ ما معنی الذی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ما مصدریہ ہو یا ضمیر کا مرجع قسم توڑنے کا گناہ ہو اگرچہ پہلے صراحتہ اس کا ذکر نہیں لیکن معنی اس کا تقاضا کرتا ہے۔ (
3
) (المحرر الوجیز) مسئلہ نمبر : (
30
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : اھلیکم یہ اہل کی جمع سالم ہے حضرت جعفر بن صادق نے اھالیکم پڑھا ہے اور یہ جمع مکسر ہے۔ ابالفتح نے کہا : اھال یہ لیال کی طرح ہے ان کا واحد اھلات ولیلات ہے عرب کہتے ہیں : اھل و اھلتہ۔ شاعر نے کہا : و اھلتہ ود قد تبریت ودھم و ابیتھم فی الجھد حندی و نائلی وہ کہہ رہا ہے میں نے ان کی محبت سے اعراض کیا۔ یہ ابن سکیت کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
31
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : اوکسوتھم یہ کاف کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ دونوں لغتیں ہیں جیسے اسوۃ اور اسوۃ سعید بن جبیر اور محمد بن سمیقع یمانی نے او کا سوتھم پڑھا ہے یعنی کا سوۃ اھلک۔ الکسوۃ مردوں کے حق میں ایک کپڑا ہے جو پورے جسم کو ڈھانپنے والا ہو اور عورتوں کے حق میں وہ کم ازکم جس میں ان کی نماز جائز ہو اور وہ قمیص اور دوبٹہ ہے یہی حکم چھوٹے افراد کا ہے۔ ابن القاسم نے " العتیبتہ " میں کہا : چھوٹی بچی کو بڑا کپڑا پہنایا جائے گا اور چھوٹے بچے کو بڑا کپڑا پہنایا جائے گا کھانے پر قیاس کے اعتبار سے۔ امام شافعی نے، امام ابوحنیفہ، ثوری اور اوزاعی نے کہا : کسوۃ کا اطلاق جس کم ازکم واقع ہوتا ہے وہ ایک کپڑا ہے۔ ابوالفرج نے امام مالک سے روایت کیا ہے اور یہی ابراہیم نخعی اور مغیرہ کا قول ہے کہ جو تمام بدن کو ڈھانپ لے اس بنا پر نماز اس سے کم میں جائز نہیں (
1
) (احکام القرآن لابن عربی) ۔ حضرت سلیمان ؓ علیہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا : بہتر کپڑا جان گیا ہے۔ طبری نے سند کے ساتھ اس کو ذکر کیا ہے۔ حکم بن عتیبہ نے کہا : عمامہ کافی ہے جس سے سر لپیٹا جاتا ہے (
2
) (المحررالوجیز) ۔ یہ ثوری کا قول ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ کہنے پر مجھے زیادہ حرص دلاتی ہے کہ جائز نہیں ہے مگر وہ کپڑا جو گرمی اور سردی سے بچائے جیسا کہ اس پر کھانا ہے جو اس کی بھوک مٹا دے۔ میں بھی یہی کہتا ہوں، ایک قوم نے متعارف لباس کی رعایت رکھی ہے۔ بعض نے فرمایا : ایک کپڑا جائز نہیں مگر جب کپڑا ہو جس کے ساتھ پورا جسم لپٹ جائے جیسے کمبل اور بڑی چادر۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے ا صحاب نے کہا : قسم کے کفارہ میں ہر مسکین کے لیے کپڑا اور ازار ہے یا ایک کپڑا اور ردا یا قمیص یا کمبل یا قبا ہے۔ حضرت ابوموسی اشعری سے مروی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ ہر مسکین کو دو کپڑے پہنائے جائیں۔ حسن اور ابن سیرین نے بھی یہی کہا : یہ ابن عربی کا مختار معنی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
32
) طعام اور لباس کی قیمت دینا جائز نہیں، امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : قیمت دینا جائز ہے، وہ فرماتے ہیں : زکوۃ میں قیمت دینا جائز ہے تو پھر کفارہ میں کیسے ہوگا ؟ ابن عربی نے کہا : اس کا بنیادی مقصد حاجت کا پورا کرنا ہے اور ضرورت کو ختم کرنا ہے پس اس میں قیمت جائز ہے۔ ہم کہتے ہیں : اگر تم ضرورت کو پورا کرنے کو دیکھتے ہو تو عبادت کہاں ہے اور اعیان ثلثہ پر نص قرآن کہاں ہے اور ایک نوع سے دوسری نوع کی طرف بیان کا انتقال کہاں جائے گا ؟۔ مسئلہ نمبر : (
33
) لباس کسی ذمی یا غلام کو دینا جائز نہیں، امام ابوحنیفہ نے فرمایا : ذمی اور غلام کا دینا جائز ہے، کیونکہ وہ مسکین ہے۔ مسکنت کا لفظ اسے شامل ہے اور آیت کا عموم اس پر مشتمل ہے۔ ہم نے کہا : یہ خاص ہے کہ مال کا مخصوص حصہ مسکینوں کو دینا واجب ہے پس اسے کافر کو دینا جائز نہیں، اس کی اصل زکوۃ ہے جب کہ اتفاق ہے کہ مرتد کو لباس دینا جائز نہیں پس ہر دلیل جس کے ساتھ مرتد خاص ہوتا ہے وہی دلیل ذمی کے بارے میں ہماری دلیل ہے اور غلام مسکین نہیں ہے، کیونکہ وہ آقا کے نفقہ کی وجہ سے مستغنی ہے پس اسے لباس نہیں دیا جائے گا جیسے غنی کو نہیں دیا جاتا۔ مسئلہ نمبر : (
34
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : او تحریر رقبتہ تحریر کا معنی ہے غلامی سے نکالنا۔ پھر یہ لفظ قید، مشقت اور دنیا کی تھکن سے نکالنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اسی سے ام مریم کا قول ہے : آیت : انی نذرت لک ما فی بطنی محررا (آل عمران :
35
) یعنی میں نے تیرے لیے اس دنیا کے معاملات سے آزاد کرنے کی نذر مانی ہے جو میرے بطن میں ہے۔ اسی سے فرزدق غالب کا قول ہے : ابنی غدانتہ اننی حررتکم فوھبتکم لعطیتہ بن جعال یعنی میں نے تمہیں ہجو سے آزاد کیا۔ انسان کے رقبہ کو خاص کیا ہے، کیونکہ یہ عضو ہے جس میں حیوان کو بیڑی اور پٹہ ڈالا جاتا ہے یہ ملک کی جگہ ہے پس تحریر کی نسبت اس کی طرف کی گئی (
1
) (المحررالوجیز) ۔ مسئلہ نمبر : (
35
) ہمارے نزدیک ایسے مومن غلام کا آزاد کرنا جائز ہے جس میں غیر کی شرکت نہ ہو اور نہ اس کا جس کا بعض پہلے آزاد ہو اور مدت تک آزاد کرنا جائز ہے، نہ مکاتب ومدبر غلام جائز ہے اور نہ ام ولد کا آزاد کرنا جائز ہے اور اس کا جو اس کی ملکیت میں آنے کے بعدخود بخود اس پر آزاد ہوجاتا ہو اور اتنا بوڑھا ہو اور نہ اپاہج ہو جس کی وجہ سے کمائی میں نقصان ہوتا ہو، وہ غلام عیوب سے سلامت ہو اس میں کسی قسم کا عیب نہ ہو، جب کہ داود نے عیب دار غلام کو آزاد کرنا بھی جائز قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : کافرۃ کا آزاد کرنا جائز ہے۔ کیونکہ لفظ کا اطلاق اس کا تقاضا کرتا ہے ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ قربت واجبتہ ہے پس کافر اس کا محل نہیں جیسے زکوۃ ہیپس قرآن میں غلام آزاد کرنے میں سے جو مطلق آیا ہے وہ اس مقید کی طرف راجع ہے جو قتل خطا میں غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے۔ ہم کہتے ہیں : اس میں شرکت نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فتحریر رقبتہ (النسائ :
92
) اور بعض رقبۃ، رقبتہ نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں اس میں آزادی کی عقد نہ ہوچکی ہو، کیونکہ تحریر کا کلمہ ابتداء آزاد کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسا رقبہ نہ ہو جو پہلے آزادی کی جگہ پر ہو۔ ہم نے کہا : وہ عیوب سے سلامت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فتحریر رقبۃ پس اطلاق کامل رقبہ کو آزاد کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اندھا غلام ناقص ہے۔ نبی کریم ﷺ سے صحیح مروی ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کرتا ہے تو اس کا یہ آزاد کرنا آگ سے چھٹکارا ہے۔ اس کا ہر عضو اس کے ہر عضو کے بدلے آگ سے آزاد کیا جاتا ہے حتی کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ کو آگ سے آزاد کیا جاتا ہے (
2
) (جامع ترمذی، باب ما جاء فی فضل من اعتق، حدیث نمبر
1467
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ نص ہے۔ کا نے غلام کے بارے میں مذہب میں دو قول مروی ہیں اسی طرح بہرے اور خصی کے بارے میں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
36
) جس نے مال نکالا تاکہ کفارہ میں غلام آزاد کرے لیکن وہ مال ضائع ہوجاتا ہے تو اس پر کفارہ باقی رہے گا بخلاف اس کے جو زکوۃ کی ادائیگی کے لیے مال نکالتا ہے تاکہ وہ فقراء کو دے یا اس کے ساتھ غلام خریدے پھر وہ مال تلف ہوجاتا ہے تو اس پر کوئی دوسرا مال واجب نہیں ہے، کیونکہ اس نے حکم کی پیروی کی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
37
) اس کفارہ میں اختلاف ہے جب قسم اٹھانے والا فوت ہوجاتا ہے۔ امام شافعی اور ابوثور نے کہا : قسموں کے کفارے اصل مال سے نکالے جائیں گے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : یہ قسم کا کفارہ ثلث سے نکالنا جائز ہوگا، اسی طرح امام مالک نے کہا ہے کہ اگر اس نے اس کے لیے وصیت کی ہو۔ مسئلہ نمبر : (
38
) جس نے قسم اٹھائی جب کہ وہ خوشحال تھا اس نے کفارہ ادا نہیں کیا حتی کہ تنگ دست ہوگیا یا قسم توڑ دے جب کہ وہ تنگدست ہو پس اس نے جو کفارہ ادا نہیں کیا حتی کہ وہ خوشحال ہوگیا یا اس نے قسم توڑی جب کہ وہ غلام تھا تو پھر وہ کفارہ نہیں دے گا حتی کہ آزاد ہوجائے پس اس تمام صورتحال میں کفارہ دینے کے وقت کا اعتبار ہوگا نہ کہ قسم توڑنے کے وقت کا اعتبار ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
39
) مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی کا اپنے گھر والوں کے متعلق قسم پر قائم رہنا اللہ کی بارگاہ میں کفارہ دینے سے زیادہ گناہ ہے جو کفارہ اللہ نے فرض کیا ہے ''۔ اللجاج فی الیمین کا مطلب ہے اس کے مقتضی پر قائم رہنا اگرچہ اس کی وجہ سے حرج اور مشقت لازم آتی ہو اور اس نے اس کو چھوڑ دیا جس میں فوری منفعت تھی یا متاخر منفعت تھی اگر کوئی ایسی صورت ہو تو قسم کا توڑنا اور کفارہ دینا لازم ہے وہ قسم کو علت نہ بنائے جیسا کہ ہم نے بیان کیا تھا آیت : ولا تجعلوا اللہ عرضتہ لایمانکم (بقرہ :
224
) کی تفسیر میں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" جو کسی کام پر قسم اٹھائے پھر اس کے علاوہ کو بہتر دیکھے تو اسے قسم کا کفارہ دینا چاہیے اور اسے وہ کام کرنا چاہیے جو بہتر ہے یعنی جس میں خیر زیادہ ہے "۔ مسئلہ نمبر : (
40
) مسلم نے حضرت ابوہریرہ سیروایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" قسم میں اعتبار قسم کھانے والے کی نیت کا ہوگا "۔ علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے جس پر قسم واجب ہو کسی حق کی وجہ سے جو اس پر واجب ہے اور اس نے قسم اٹھائی جب کہ اس کی نیت کوئی دوسری ہو تو اس کو اس کی نیت فائدہ نہ دے گی اور اس کی وجہ سے اس قسم کے گناہ سے خارج نہ ہوگا۔ دوسری حدیث میں اس کا مفہوم موجود ہے حدیث : یمینک علی ما یصدقک علیہ ما صاحبک تمہاری قسم اس کے مطابق ہوگی جس پر تمہارا خصم تصدیق کرے گا۔ روایت ہے حدیث : یصدقک بہ صاحبک تمہارا خصم تیری تصدیق کرے۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ امام مالک نے کہا : جس نے اپنے طالب کے لیے اس حق میں قسم اٹھائی جو اس کے لیے اس پر تھا اور اور اپنی قسم میں استثنا کی یا اس نے اپنی زبان یا ہونٹوں کو حرکت دی یا اس کے ساتھ کلام کی تو یہ استثنا اسے مفید نہ ہوگی، کیونکہ محلوف لہ کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے کیونکہ قسم اس کا حق ہے۔ قسم اس کے مطابق واقع ہوگی جس کے لیے حاکم لے رہا ہے نہ کہ قسم اٹھانے والے کے اختیار پر ہوگی، کیونکہ اس سے تو قسم طلب کی گئی ہے یہ امام مالک کے مذہب کا ماحصل ہے۔ مسئلہ نمبر : (
41
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فمن لم یجد یعنی ان تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز اس کی ملکیت میں نہ ہو یعنی کھانا کھلانا یا لباس پہنانا یا غلام آزاد کرنا نہ ہو تو وہ روزے رکھے۔ اور نہ ہونے کی دو صورتیں ہو سکتیں ہیں : یا تو اس کا مال غائب ہو یا بالکل نہ ہو۔ پہلی صورت یہ ہے کہ اس کا مال اس کے اپنے شہر میں نہ ہو اگر وہ ایسا شخص پائے جو اسے ادھار دیتا ہو تو پھر بھی روزہ رکھنا جائز نہیں اور اگر ایسا شخص نہ پائے تو پھر اس میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اپنے شہر تک مال پہنچنے کا انتظار کرے۔ ابن عربی نے کہا : یہ اس پر لازم نہیں بلکہ وہ روزوں کے ساتھ کفارہ دے، کیونکہ اس کے ذمہ وجوب ثابت ہوچکا ہے اور عدم کی شرط مثحقق ہوچکی ہے پس حکم کو مؤخر کرنے کی کوئی وجہ نہیں پس وہ ان تینوں چیزوں سے عجز کی وجہ سے اسی جگہ کفارہ دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فمن لم یجد بعض علماء نے فرمایا : جس کے پاس ضرورت زندگی سے زائد مال نہ ہو تو وہ ایسا شخص ہے جو ان تینوں چیزوں کو پانے والا نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جس کے پاس ایک دن اور ایک رات کی خوراک ہو اور اس کے پاس زائد مال نہ ہو جو کھلائے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے اور طبری نے اس کو اختیار کیا ہے۔ یہی امام مالک اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے۔ ابن القاسم سے مروی ہے کہ جس کے پاس ایک دن کے نفقہ سے زائد ہو وہ روزہ نہ رکھے۔ ابن القاسم نے ابن مزین کی کتاب میں کہا : اگر قسم توڑنے والے کے لیے ایک دن کی خوراک سے زائد ہو تو وہ کھانا کھلائے مگر یہ کہ اسے بھوک کا خوف ہو یا وہ ایسے شہر میں ہو جہاں اس پر مہربانی نہ کی جاتی ہو۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : جب اس کے پاس نصاب نہ ہو تو وہ پانے والا نہیں۔ احمد اور اسحاق نے کہا : جب اس کے پاس ایک دن اور ایک رات کی خوراک ہو تو وہ زائد سے کھانا کھلائے۔ ابوعبید نے کہا : جب اس کے پاس اپنے اور اپنے عیال کے لیے ایک دن کی خوراک ہو اور اتنا کپڑا بھی ہو جو ان کی کفایت کرتا ہو، پھر اس کے بعد وہ کفارہ دینے کی مقدار کا مالک ہو تو وہ ہمارے نزدیک پانے والا ہے۔ ابن امنذر نے کہا : ابوعبید کا قول بہتر ہے۔ مسئلہ نمبر : (
43
) جس نے روزے کے دنوں میں کسی روز بھول کر روزہ افطار کرلیا۔ امام مالک نے فرمایا اس پر قضا الازم ہوگی امام شافعی نے فرمایا کہ اس پر کوئی قضا نہیں جس طرح اس کی وضاحت سورة بقرہ میں روزوں کی بحث میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
44
) یہ کفارہ جس پر اللہ تعالیٰ نے نص فرمائی ہے بالاتفاق آزاد مسلمان پر لازم ہے اور غلام قسم توڑ دے تو اس پر واجب ہوتا ہے اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ سفیان ثوری، امام شافعی اور اصحاب الرائے کہتے ہیں کہ اس پر صرف روزہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس میں امام مالک کا قول مختلف ہے۔ ابن نافع نے ان سے حکایت کیا ہے فرمایا : غلام کسی کو آزاد کرنے کے ساتھ کفارہ نہیں دے گا۔ کیونکہ اس کے لیے ولاء نہیں ہے لیکن وہ صدقہ کے ساتھ کفارہ دے گا اگر اس کے مالک نے اسے اجازت دی ہو۔ درست یہ ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر وہ کھانا کھلائے یا لباس پہنائے اپنے آقا کی اجازت سے تو وہ واضح نہیں اور میرے دل میں اس کے متعلق شک ہے۔ مسئلہ نمبر : (
45
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ذلک کفارۃ ایمانکم یعنی تمہاری قسموں کو ڈھانپنا ہے۔ کفرت الشیء کا مطلب ہے کسی چیز کو ڈھانپ دینا، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ کی قسم اٹھانے میں یہ کفارہ ہے۔ بعض تابعین کا خیال ہے کہ قسم کا کفارہ اس کی نیکی کرنے پر بھی ہے جس کو اس نے چھوڑنے کی قسم اٹھائی تھی۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں عنوان باندھا ہے من قال کفار تھا ترکھا اس کے تحت حدیث : حدثنا علی بن محمد حدثنا عبداللہ بن نمیر عن حارثہ بن ابی الرجال عن عمرۃ عن عائشہ کے سلسلے سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" جس نے قطع رحمی کی قسم اٹھائی یا ایسی بات میں قسم اٹھائی جو مناسب نہ تھی اس کا قسم پورا کرنا یہ ہے کہ وہ اس قسم کو پورا نہ کرے " (
1
) (سنن ابن ماجہ، من قال کفار تھا ترکھا، حدیث نمبر
2100
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ عمرو بن شعیب عن ایبہ عن جدہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" جس نے کسی کام پر قسم اٹھائی پھر وہ اس کے علاوہ کام کو بہتر دیکھے تو وہ قسم کو ترک کر دے اور اس کا ترک اس کا کفارہ ہے "۔ (
2
) (سنن ابن داود، حدیث نمبر
2849
۔ ایضا، سنن ابن ماجہ، باب من قال کفار تھا ترکھا، حدیث نمبر
2101
، ضیاء پبلی کیشنز) ۔ میں کہتا ہوں : اس کی تائید حضرت ابوبکر صدیق ؓ علیہ عنہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جب انہوں نے قسم اٹھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور ان کی بیوی نے قسم اٹھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائے گی حتی کہ وہ کھانا کھائیں اور مہمانوں نے بھی قسم اٹھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے حتی کہ حضرت ابو بکررضی اللہ علیہ عنہ کھانا کھائیں۔ حضرت ابوبکر نے کہا : یہ کھانا نہ کھانے کی قسم اٹھانا شیطان کی طرف سے تھا پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور کھایا پھر مہمانوں نے بھی کھایا۔ اس حدیث کو بخاری نے بھی روایت کیا ہے اور مسلم نے روایت کیا ہے فرمایا : جب صبح حضرت ابوبکررضی اللہ علیہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے تو عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! انہوں نے اپنی قسم پوری کی اور میں نے قسم توڑ دی۔ فرمایا : حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کو خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا :" تو ان سب سے زیادہ نیکی کرنے والا اور بھلائی کرنے والا ہے "۔ راوی نے فرمایا : مجھے کفارہ کے متعلق خبر نہیں پہنچی۔ مسئلہ نمبر : (
46
) اللہ کی قسم کے علاوہ میں کفارہ کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : جس نے اپنے مال کو صدقہ کرنے کی قسم اٹھائی تو وہ تہائی مال صدقہ کرے۔ امام شافعی نے فرمایا : اس پر قسم کا کفارہ ہے یہی قول اسحاق اور ابوثور کا ہے۔ حضرت وعمر اور حضرت عائشہ ؓ علیہ عنہ سے مروی ہے۔ شعبی، عطا اور طاؤس نے کہا : اس پر کوئی چیز نہیں ہے، رہا مکہ کی طرف چلنے کی قسم اٹھانا تو امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر اس کو پورا کرنا لازم ہے۔ امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور ابوثور کے نزدیک اسے قسم کا کفارہ کافی ہے۔ ابن مسیب اور قاسم بن محمد نے کہا : اس پر کچھ نہیں ہے۔ ابن عبدالبر نے کہا : مدینہ طیبہ اور دوسرے شہروں کے اکثر علماء مکہ کی طرف چل کر جانے کی قسم پر اللہ کی قسم کے کفارہ کی مثل کفارہ کرتے ہیں یہ صحابہ اکرامرضی اللہ علیہ عنہ، تابعین (رح) اور جمہور فقہاء کی جماعت کا قول ہے۔ ابن قاسم نے اپنے بیٹے عبدالصمد کو یہی فتوی دیا تھا اس نے ذکر کیا کہ یہ لیث بن سعد کا قول ہے۔ ابن اقاسم سے مشہور قول یہ ہے کہ ان کے نزدیک مکہ کی طرف چل کر جانے کی قسم میں کفارہ نہیں ہے مگر اس پر چلنے پر قادر ہو یہی امام مالک کا قول ہے۔ رہا غلام آزاد کرنے کی قسم اٹھانے والا تو اس پر اس کا آزاد کرنا ہے جس کو آزاد کرنے کی قسم اٹھائی تھی یہ امام مالک، امام شافعی وغیرہ کا قول ہے۔ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ ؓ علیہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ قسم کا کفارہ دے اس پر غلام آزاد کرنا لازم نہیں۔ عطا نے کہاـ: وہ کوئی چیز صدقہ دے۔ مہدوی نے کہا : معتمد علیہ علماء کا اجماع ہے کہ جس نے طلاق کی قسم اٹھائی اور اسے توڑ دیا تو طلاق لازم ہے۔ مسئلہ نمبر : (
47
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : واحفظوا ایمانکم یعنی جب تم قسم توڑو تو کفارہ جو تم پر لازم ہے اس کو جلدی ادا کر کے اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ بعض علماء نے فرمایا : قسم کو ترک کرنے کے ساتھ قسموں کی حفاظت کرو، کیونکہ جب تم قسم نہیں اٹھاؤ گے تو تمہاری طرف یہ تکلیفات متوجہ نہ ہوں گے۔ آیت : لعلکم تشکرون شکر کا معنی اور لعل کا معنی پہلے سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔
Top