Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Rahmaan : 5
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اسکے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا۔
175۔ اس آیت میں اللہ پاک نے آنحضرت ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ تم یہود کو اس شخص کے حال کی اطلاع دیدو جس کو اللہ نے اپنی نشانیاں دی تھیں اور وہ نشانیاں اس کے کفر کی وجہ سے اس طرح اس سے نکل گئیں جیسے سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے یہ شخص ملبعم باعورا تھا بنی اسرائیل کے منتخب علماء میں اس کا شمار کیا جاتا تھا اور بعضوں نے کہا ہے کہ کنعانیوں میں سے یہ شخص تھا لوگوں نے اس سے کہا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر بد دعا کرو اس نے جو بددعا کی تو اس کی زبان منہ سے باہر نکل آئی اور سینے تک لٹگ گئی یہ شخص خدا کا مقرب تھا مگر دنیا کے لالچ سے شیطان کا تابع ہوگیا اور خدا کی معصیت کرتے کرتے گمراہ ہوگیا اس کا مفصل قصہ جو حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے بیان فرمایا ہے وہ یوں ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) قوم جبارین کی جنگ کے ارادہ سے سر زمین کنعان میں جو ملک شام میں واقع ہے پہنچے تو بلعم باعورا کی قوم اس کے پاس آئی بلعم باعورا اسم اعظم جانتا تھا لوگوں نے اس سے کہا کہ تم دیکھتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے ملک پر چڑھ آئے ہیں اور یہ بڑے سخت وقوی آدمی ہیں ان کے ساتھ لشکر بھی بیشمار ہے یہ لوگ ہمیں قتل کر ڈالیں گے اور ملک سے نکال ڈالیں گے اور بنی اسرائیل ہماری جگہ حکومت کرنے لگیں گے۔ تمہیں خدا نے وہ علم عطا کیا ہے کہ جس کے سبب سے تمہاری دعا کبھی ٹلتی نہیں ہے تم خدا سے دعا کرو کہ یہ لوگ الٹے چلے جاویں بلعم باعورا نے کہا کہ یہ سخت مشکل ہے وہ خدا کے رسول ہیں ان کے ساتھ مومنین کے علاوہ فرشتے بھی ہوں گے میں خدا کی جتنی باتیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اگر میں دعا کروں گا تو میری دنیا و آخرت خراب ہوجاوے گی مگر قوم نے اپنا اصرار نہ چھوڑا پیچھے پڑگئے اور نہایت ہی عاجزی و منت کرنے لگے آخر بلعم نے کہا کہ ٹھہر جاؤ میں اس کا استخارہ کرلوں بلعم کی یہ عادت تھی کہ جب دعا کا ارادہ کرتا تھا تو خواب میں اس کا استخارہ پہلے کرلیا کرتا تھا اس مرتبہ اس کو خواب میں یہ حکم ہوا تھا کہ ہرگز موسیٰ (علیہ السلام) پر بددعا نہ کرنا اس نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ میں بددعا نہیں کرسکتا مجھے خواب میں منع کردیا گیا ہے پھر لوگوں نے اس کے پاس کچھ رشوت کے طور پر تحفہ بھیجا اور دعا کو کہا اس نے پھر وہی جواب دیا کہ میں استخارہ کرلوں اس مرتبہ اس کو کچھ نہیں معلوم ہوا اس نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ آج رات کو کوئی بات نہیں معلوم ہوئی قوم نے کہا کہ اب ضرور بددعا کرو کیونکہ یہ امر اگر خدا کو منظور نہ ہوتا تو اس مرتبہ بھی وہ منع کرنا اور بہت ہی اصرار کے ساتھ منت وعاجزی کرنے لگی۔ آخر ان کی باتوں میں آکر اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر پہاڑ کی طرف چلا جس کا نام حسبان تھا اسی کے سامنے بنی اسرائیل اترے تھے تھوڑی دور اونٹنی چل کر بیٹھ گئی اس نے اتر کر اسے مارا اور پھر سوار ہو کر چلا مگر اونٹنی چار چار پانچ پانچ قدم چل چل کر بیٹھ جاتی تھی اللہ جل شانہ نے اونٹنی کو گویائی دی وہ بولی کہ اے بلعم تو کس بات کا ارادہ کرتا ہے کیا خدا کے رسول اور مومنوں کے واسطے بددعا کرے گا میرے سامنے فرشتوں کے پرے کے پرے کھڑے ہیں میں کس طرح آگے چلوں مگر وہ اس بات کا مطلق دل میں خوف نہ لایا پھر اللہ پاک نے حجت تمام کر کے اونٹنی کو رستہ دے دیا وہ پہاڑ کی طرف اس کو لے گئی جب یہ پہاڑ پر چڑھ گیا تو دعا کرنے لگا جو بددعا بنی اسرائیل کے لئے کرنا چاہتا تھا وہ اپنی قوم کو کرنے لگا اور جو دعا اپنی قوم کے لئے کرتا تھا وہ بنی اسرائیل کے واسطے منہ سے نکلتی تھی اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اے بلعم ہوش میں آ یہ کیا کرتا ہے ہمارے لئے بدعا کرتا ہے اور بنی اسرائیل کے واسطے دعا کر رہا ہے اس نے کہا کہ میری زبان قابو میں نہیں ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان منہ سے باہر نکال دی اور سینہ تک لٹکادی پھر بلعم باعورا نے کہا کہ میں نے تمہارے کہنے سے اپنی دنیا اور آخرت دونوں بگاڑ دیں اب میرے قبضہ میں کوئی بات نہیں ہے ہاں ایک حیلہ سمجھ میں آتا ہے تم اپنی عورتوں کو زیوروں سے آراستہ کر کے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور عورتوں سے کہہ دو کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کوئی مرد کسی عورت کی طرف مخاطب ہو تو وہ عورت انکار نہ کرے اگر ایک شخص نے بھی زنا کرلیا تو کام بن جائیگا غرضیکہ کنعانیوں کی عورتیں سنگار کر کے لشکر کی طرف گئیں شمعون بن یعقوب ایک شخص لشکر کا سپہ سالار تھا اسے ایک عورت بہت پسند آئی وہ اسے لے کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ میرا گمان اس عورت کی نسبت یہ ہے کہ آپ اس کو حرام سمجھیں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ مجھ پر بھی حرام ہے اور تجھ پر بھی حرام ہے اس نے یہ بات سنتے ہی قسم کھالی کہ میں آپ کی اطاعت نہیں کرونگا اور خیمہ میں عورت کو لے جاکر فعل بد کا مرتکب ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے طاعون بھیج دیا ایک دم میں ستر ہزار آدمی اس وبا سے ہلاک ہوگئے اور بعضے مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ شخص جس کی شان میں یہ میت اتری ہے امیہ بن ابوصلت تھا جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوا ہے اس کو اگلی پچھلی کتابوں سے واقفیت تھی پڑھا بھی کتاب تھا اسے معلوم تھا کہ ایک رسول اللہ تعالیٰ بھیجنے والا ہے یہ اپنے خیال میں یقین کئے بیٹھا تھا کہ وہ نبی میں ہونگا جب اللہ پاک نے آنحضرت کو رسول مقرر کیا تو اس نے حسد کے مارے آپ کی مخالفت شروع کی اور باوجود طرح طرح کے معجزے دیکھنے کے آپ پر ایمان نہیں لایا اگرچہ سوا اس کے بعضے مفسروں نے اس آیت کی شان نزول اور قصوں کی بھی قرار دیا ہے لیکن اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ علی بن ابی طلحہ کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت تفسیر کے باب میں بڑی معتبر روایت ہے۔ تفسیر ابن جریر میں اسی روایت سے بلعم باعورا کے قصہ کو آیت کی شان نزول قرار دیا گیا ہے اس لیے یہی شان نزول صحیح 1 ؎ ہے۔ معتبر سند سے ابن ماجہ اور طبرانی میں زیدبن ثابت ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص عقبے سے غافل ہو کر اپنی زندگی کا دارومدار دنیا کمانے پر رکھے گا اس کو دنیا تو اسی قدر ملے گی جس قدر اس کی تقدیر میں ہے لیکن عقبیٰ کی غفلت کے سبب سے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دنیا میں بہت پریشان رکھے گا جس سے ایسا شخص دنیا کی زندگی اطمینان سے کبھی صبر نہیں کرسکتا 2 ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ بلعم باعورا کی طرح جو شخص عقبیٰ سے غافل ہر کر اپنی زندگی کا مدار دنیا کمانے پر رکھے گا اس کا وہی انجام ہوگا جو بلعم باعورا کا ہوا :۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ج 9 ص 124۔ 126 و تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 265 2 ؎ ابن ماجہ ص 312 باب اہم بالدنیا۔
Top