Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 5
اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۪
اَلشَّمْسُ : سورج وَالْقَمَرُ : اور چاند بِحُسْبَانٍ : حساب کے ساتھ ہیں
سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُبِحُسْبَانٍ ۔ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ ۔ (الرحمن : 5، 6) (سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔ اور ستارے اور درخت بھی سجدہ کرتے ہیں۔ ) کائنات کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابند ہے انسانوں کے لیے قرآن کی صورت میں ایک نظام زندگی کا ذکر کرنے کے بعد ایک ایسی بات ارشاد فرمائی گئی ہے جس سے انسانوں کے لیے اس نظام زندگی کی پیروی، انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کی تنفیذ، اس کی تعلیم و تربیت اور اس کی نشرواشاعت کی پابندی کا احساس ابھرتا ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ یہی درحقیقت وہ چیز ہے جو ہماری بقاء اور فوزوفلاح کی ضامن ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ تم اجرامِ فلکی کو دیکھو جن میں سب سے بڑے سیارے سورج اور چاند ہیں۔ تم نے کبھی دیکھا ہے کہ سورج نے کبھی اپنا فرض انجام دینے میں کوتاہی کی، کبھی اس نے اپنا محور بدلا ہو، کبھی اس نے راستہ بدلنے کی کوشش کی ہو، اور اس نے کبھی طلوع و غروب میں پس و پیش کا ثبوت دیا ہو۔ اسی طرح چاند، اس نے کبھی اپنے فرائض میں کوتاہی کی ہو، کبھی اس نے اپنی منزلیں بدلی ہوں، کبھی اس نے اپنے فرائض کے ضابطے میں تبدیلی کی ہو۔ دونوں نہایت نظم و ضبط کے ساتھ اس فرض کو انجام دے رہے ہیں جو ان پر عائد کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا لاَالشَّمْسُ یَنْـبَغِیْ لَہَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ کُلٌّ فِیْ فَـلَـکِ یَسْبَحُوْنَ ” نہ سورج کے لیے یہ روا ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے، اور نہ رات کو یہ حق ہے کہ وہ دن سے سبقت کرجائے، ہر ایک اپنے مدار میں گردش کررہا ہے۔ “ اس کے نظم و ضبط نے انسانوں کے لیے حساب کا ایک ایسا معیار قائم کردیا ہے کہ نہ کبھی شمسی حساب میں کوئی گڑبڑ ہوتی ہے اور نہ قمری حساب میں آج تک کبھی کسی غلطی کا امکان ہوا ہے۔ ورنہ ہماری جنتریاں اور ہمارے حساب کے تمام قواعد و ضوابط غلط ہو کر رہ جاتے۔ اور اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ستارے ہوں یا درخت یعنی دیگر اجرامِ فلکی ہوں یا زمین پر سر اٹھا کر کھڑے ہونے والے درخت یا دیگر نباتات وہ سب اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ قانون کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں۔ زمین نے آج تک کبھی نباتات کو اگانے میں پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ سورج نے کبھی غلے کو پکانے میں تساہل نہیں برتا۔ اس کی کرنوں نے کبھی سمندر سے پانی کے بھاپ اٹھانے میں دریغ نہیں کیا اور ہَوائوں نے آبیاری میں اپنا فرض انجام دینے میں کوتاہی نہیں کی۔ اور پھر یہ عناصر باہمی تخالف کے باوجود ایک برتر قانون کے سامنے اس طرح توافق کا اظہار کرتے ہیں کہ کبھی اس میں انحراف کا پہلو سامنے نہیں آتا۔ اور کبھی کسی جگہ کوئی فساد رونما نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نافذ کردہ تکوینی نظام پوری طرح کائنات کی ہر مخلوق اور ہر ذرے پر نافذ ہے اور اس قانون کی اطاعت میں جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے کبھی کسی کی طرف سے معصیت یا سرکشی کا ظہور نہیں ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری کائنات جن و انس کے علاوہ اپنے اپنے سفر پر رواں دواں ہے، اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے اور کبھی اس میں کسی فساد یا خلل کا اندیشہ تک پیدا نہیں ہوا۔ جن و انس کے لیے بھی عافیت کا راستہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ وہ نظام جو اس نے قرآن کی صورت میں جن و انس کا عطا فرمایا ہے اگر خوش دلی، خوش اسلوبی اور پوری آمادگی سے زندگی کے ہر دائرے میں اس کی اطاعت اور پابندی قبول کرلی جائے تو ہر طرح کی خرابی دور ہوسکتی ہے۔ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے، حقوق کے ادا کرنے میں پس و پیش نہ ہو، اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنی حدود میں رہا جائے اور دوسرے کی حیثیت کو جان کر کبھی اس میں خلل انداز ہونے کی کوشش نہ کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کا قانون حواس و عقل، فہم و ادراک سے لے کر گھروں، محلوں، بازاروں، منڈیوں، عدالتوں سے گزرتا ہوا ایوان ہائے حکومت تک پوری طرح کارفرما ہو تو کسی جگہ کسی خرابی کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
Top