Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب) پیدا کئے گئے ہیں
17۔ 26۔ تفسیر ابن جریر اور تفسیر 1 ؎ ابن ابی حاتم میں قتادہ سے روایت ہے کہ اوپر کی آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر فرمایا تو مشرکین مکہ کو وہ نعمتیں اور جنت کی چیزیں خلاف عقل معلوم ہوئیں اور جنت کی چیزوں کا تعجب کے طور پر وہ لوگ آپس میں ذکر کرنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے جس اللہ نے خلاف عقل اور جانوروں کی عادت کے خلاف اونٹ کو اس طرح کی عادت کا جانور پیدا کیا کہ کانٹے کھا کر اپنی گزر کرتا ہے اور منزلوں بوجھ لے جاتا ہے اور عرب کا ملک جس طرح کا خشک تھا اور اس ملک میں پانی کی کمی تھی اسی عادت کا یہ جانور ہے کہ دس دس دن تک اس کو پانی کی خواہش نہیں ہوتی۔ غریب ایسا کہ ایک بچہ بھی نکیل پکڑ لے تو جہاں چاہے لے جائے برخلاف اور جانوروں کے یہ اونٹ کی ہی عادت ہے کہ اس کو بٹھا کر اس کی پیٹھ پر بوجھ لادا جاتا ہے۔ اور پھر وہ اسی بوجھ کو پیٹھ پر لے کر کھڑا ہوجاتا ہے اسی طرح جس طرح اللہ تعالیٰ نے خلاف عقل آسمان کو بغیر ستون کے اس طرح قائم کردیا اور زمین کو پانی پر بچھا دیا اور زمین میں پہاڑوں کی کیلیں ٹھونک دیں اس طرح کے ہزارہا کروڑہا عجائبات قدرت الٰہی کو یہ لوگ نظر غور سے دیکھیں گے تو ان کو ہرگز یہ تعجب باقی نہ رہے گا کہ دوزخ یا جنت میں کسی خلاف عقل چیز کو پیدا کرنا اللہ کی قدرت سے باہر ہے دنیا میں انسان کی چند روزہ زیست اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے اور پھر اس چند روزہ زیست کے لئے یہ کچھ عجائبات پیدا کئے ہیں جہاں انسان کا ہمیشہ کا رہنا خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے وہاں جس قدرعجائبات ہوں کچھ عقل سے دور نہیں ہیں غرض جو چیز عقل میں نہ آئے اس کو قدرت الٰہی سے باہر جاننا کسی عقل مند کا کام نہیں ہے خود اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا ہے پھر عقل میں یہ جرأت کیونکر ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی قدرت کا انکار کرسکے غرض اسی عقل غلطی کے سبب سے یہ لوگ حشر کا انکار کرتے ہیں ان لوگوں کی یہ غلطی بھی عجائبات قدرت پر غور کرنے سے رفع دفع ہوسکتی ہے۔ مسند امام احمد صحیح مسلم ترمذی 1 ؎ نسائی مستدرک حاکم میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ نے انما انت مذکر سے اخیر سورة تک اس سورة کی آیتیں پڑھیں اور فرمایا کہ مجھ کو مشرک لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جب تک مشرک لوگ کلمہ گو نہ بن جائیں جب وہ کلمہ گو بن گئے تو جہاد تو ختم ہوگیا لیکن ان کے دل کا حال اور ان کا حساب کتاب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے غرض آنحضرت ﷺ کو یہ جو ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو کلام الٰہی سنا کر اپنا حق ادا کر دو بس تمہارا اتنا ہی کام ہے ‘ تم ان لوگوں پر داروغہ نہیں ہو کہ کسی پر زور زبردستی کرو۔ اس کا حکم جہاد کے حکم کے نازل ہونے تک محدود تھا اوپر اس طرح کی درگزر کی آیتوں کے حکم کی تفصیل گزر چکی ہے۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 343 ج 6۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة الغاشیہ ص 192 ج 2 و تفسیر الدر المنثور ص 343 ج 6۔ )
Top