Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
پھر کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ہیں
ترکیب ¦ افلا ینظرون الاستفہام للتوبیخ والفاء للعطف علیٰ مقدر والجملۃ مستانفۃ مسوقۃ لاثبات البعث ولاظہار القدرۃ علی الاعادۃ وقیل الجملۃ فی محل جر علی انھا بدل اشتمال من الابل وعن الاصمعی انہ قال من قرء خلقت بالتخفیف عنٰی بہ البعیر ومن قرء بالتشدید عنٰی بہ السحاب ای بالابل وقال المبردالمراد من الابل ھھنا القطیعۃ العظیمۃ من السحاب والابل اسم جمع لا واحد لہ من لفظہ وانما واحدہ البعیر والناقۃ والجمل والسطح بسط الشیء قراء الجمہور مبنیاً للمفعول مخففًاوقرء الحسن مشددو قرء علی بن ابی طالب وغیرہ فی المواضع کلھا مبنیا للفاعل وضم التاء فیھا علی انھا صیغۃ الواحد المتکلم۔ تفسیر ¦ دوزخ کے عذاب اور جنت کے نعماء سن کر قریش مکہ تعجب کرتے تھے۔ خصوصاً جنت کی نعمتوں پر کہ اس قدر عیش و آرام کے سامان کہ جو دنیا میں بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں اس افراط سے کیونکر پیدا ہوجاویں گے اور دنیا میں تو ایسی چیزیں کیا بلکہ روزمرہ کھانے پینے کی چیزیں بھی بمشکل میسر آتی ہیں اور عرب پر کیا موقوف ہے ہر طبقہ کے انسان کا (بشرطیکہ نور باطن سے اس کی عقل بہرہ یاب نہ ہو) اس بذل وجود اور ان چیزوں کے وجود پر تعجب کرنا بعید نہیں۔ اس لیے اس تعجب کے دور کرنے کو دنیا کی چیزوں میں جو غریب و امیر کو میسر ہیں اور کیسی عظیم الشان ہیں ٗ نذر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ فقال۔ افلاینظرون الی الابل کیف خلقت کہ پھر وہ کیوں اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کئے گئے یا میں نے ان کو کیسا پیدا کیا ؟ اونٹ کے فوائد ¦ یہ اول نمونہ اس کی قدرت کاملہ اور بذل وجود کا ہے جو عرب کے ہر وقت سامنے رہتا ہے اور جس پر ان کی معاش کا دار و مدار ہے۔ اونٹ کی اول تو خلقت ہی عجیب و غریب ہے۔ اس قدر اونچا اور جب بٹھاؤ بیٹھ جاوے اور جانوروں پر کھڑا کرکے سوار ہوتے اور بوجھ لادتے ہیں مگر اس کو بٹھا کر اور پھر اپنا پورا بوجھ لے کر گردن کی لچک اور اس کے زور سے کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ کسی جانور میں خوبی نہیں۔ پھر جس قدر اطاعت کا اس میں مادہ ہے کسی میں نہیں۔ سینکڑوں کی قطار کو ایک لڑکا مہار تھام کے جدھر چاہے لے جائے پھر بارکش ایسا کہ تمام گھر بار اس پر لاد لو گویا خشکی میں رواں کشتی ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ غلہ یا اور اشیا لے جانے میں چھکڑا یا ریل گاڑی ہے۔ پھر جلد چلنے اور اس پر آرام کے سامان کے ساتھ لے جانے میں ڈاک گاڑی ہے کہ جس کے لیے نہ سڑک کی ضرورت ہے نہ رستہ کا ہموار ہونا۔ سانڈنی (جو سواری کا اونٹ ہوتا ہے) دن میں سو کوس تک جاسکتی ہے۔ اس پر جفاکش اتنا کہ کیسی ہی دھوپ اور گرمی ہو کچھ بھی پروا نہیں کرتا۔ پھر کم خوراک اتنا کہ تھوڑے سے چارہ میں گزر کرلیتا ہے جو بلند درختوں کے پتے اور کڑوے کسیلے اور کسی کے کھانے کے نہیں ہوتے۔ یہ کھا لیتا ہے۔ کچھ ہری بھری گھانس اور دانہ اور مالیدہ کی حاجت نہیں اس پر کئی کئی روز تک پانی نہ ملے تو کچھ بھی پروا نہیں۔ سواری کا یہ آرام اسی کے دودھ میں یہ برکت کہ ایک گھر کو کافی ہے اور پھر استسقاء وغیرہ امراض کے لیے دوا بھی ہے۔ اس کی پشم بھی کام آتی ہے۔ کیسے کیسے نفیس کپڑے بنے جاتے ہیں ٗ خصوصاً عرب کے لباس کمل اور جبے جو برسوں میلے نہیں ہوتے اور مدتوں چلتے ہیں اور خوبصورت بھی ہوتے ہیں۔ اسی کی پشم سے بنتے ہیں۔ اس پر اس کا گوشت بھی حلال ٗ گھر بھر کیا محلے کو کافی ہوسکتا ہے۔ اس پر اس کی نسل میں برکت سستا مل سکتا ہے اور عرب میں ہر جگہ مل سکتا ہے اور خشک ‘ گرم اور ریگستانی ملکوں کی معاش تو اسی پر موقوف ہے۔ یہ باتیں کسی جانور میں نہیں۔ ہاتھی قد و قامت میں اتنا بڑا جانور ہے۔ نہ اس میں یہ فوائد ہیں نہ وہ ہر ایک کو مل سکتا ہے۔ نہ تھوڑے سے پتوں پر گزر کرسکتا ہے۔ پھر اس کی قدرت کاملہ کو دیکھو اور اس پر اس کے اس احسان کو عام کرو۔ پھر اگر اس عالم میں وہ بندوں کے آرام کے لیے ایسے ایسے سامان پیدا کرکے یہ احسان کرے تو کیا تعجب کی بات ہے۔ وہاں کے بہت بلند تخت اونٹوں کی طرح اونچے اونچے ہوجاویں تو کیا بڑی ہے۔ دوسرا نمونہ : والی السماء کیف رفعت اور آسمان کی طرف کیوں نہیں دیکھتے کہ اس کو کیسا بلند کیا گیا (یا ہم نے اس کو کیسا بلند کردیا) یہ دوسرا نمونہ ہے جس سے ہر ملک اور ہر قوم سمجھ سکتی ہے کہ اول تو اس قدر بلندی کہ جہاں طائرِ وہم بھی اڑ کر نہیں جاسکتا کیسی قدرت کاملہ ہے پھر اس کی وسعت کہ جس کے سایہ میں ہر نیک وبد بادشاہ و امیر ہے۔ کیسی قدرت و انعام عام کی دلیل ہے۔ پھر اس کے ستارے بھی قدرت کا نمونہ ہیں۔ آفتاب کو دیکھو کہ کتنا بڑا جسم ہے کہ جو زمین سے لاکھوں حصے زیادہ ہے کس نے بنا دیا اور اس میں یہ نور اور نور میں یہ گرمی کس نے دی ؟ جس سے تمام دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اگر آفتاب نہ ہو تو زندگی وبال ہوجاوے پھر یہ کیسا انعام عام ہے اس دنیا کے ظلمت کدہ کا چراغ ہے تو آفتاب ہے اگر یہ نہ ہو تو جنگلوں اور دریائوں اور شہروں اور گائوں کو کونسی شمع روشن کرسکتی ہے اور کس تنور کی گرمی پھل پھول اور پیداوار کو پکا سکتی اور اگا سکتی ہے۔ سرد موسم میں آفتاب کے سب مشتاق رہا کرتے ہیں ٗ غریبوں کی انگیٹھی ہے تو آفتاب ہے۔ پھر چاند کے فوائد اور اس کی جسامت اور اس کی روشنی میں غور کیا جاوے تو عقل سلیم کبھی انکار نہ کرے کہ وہ قادر مطلق جواد کریم اس جہان میں نیک بندوں کے لیے جیسے چاہے سامان پیدا کرسکتا ہے۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بعض ستارے لاکھوں کوس دور ہونے کے سبب نظر بھی نہیں آتے۔ حالانکہ وہ زمین سے بہت بڑے ہیں۔ پھر جب زمین میں یہ کچھ سامان ہیں باغ و بہار بھی ہے جو جنت کا نمونہ ہے اور گرمی وسوزش اور تکالیف کے سامان بھی ہیں ٗ سانپ بچھو بھی ہیں جو جہنم کا نمونہ ہے تو ان اجسام میں کیا کچھ نہ ہوگا پھر وہ ایک نہیں لاکھوں ہیں پھر اس پر اس کی قدرت و عظمت و انعام و اکرام کو خیال کرلو جو تمہارے تنگ فہم میں بخوبی آسکے۔ تیسرا نمونہ ¦ لو اب نیچے اتر آؤ اور اپنی زمین اور اس کے عجائبات کو ہی غور کرو۔ والی الجبال کیف نصبت اور پہاڑوں کو دیکھو کہ کیسے کھڑے کردیے گئے اور کس طرح گاڑ دیے گئے ہیں (یا ہم نے ان کو کیسا کھڑا کردیا ہے) یہ تیسرا نمونہ ہے۔ پہاڑ بھی اس کی قدرت اور بذل و احسان کا کامل نمونہ ہیں۔ اول تو باوجود یکہ وہ بھی زمین ہی کا ایک جز ہیں۔ پھر زمین سے کس طرح ممتاز ہیں اول تو ان کی بلندی قابل حیرت ہے اور بلندی کے ساتھ عرض و طول بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ حکماء و عقلا نے عقل کے بڑے گھوڑے دوڑائے ہیں مگر اب تک کوئی تسکین بخش وجہ پیدا نہیں کرسکے کہ زمین کے اس ٹکڑے کو یہ بلندی اور پھر یہ سختی اور پھر یہ رنگتیں کیونکر پیدا ہوگئیں۔ اس قدر کہہ کر چپ ہوجاتے ہیں کہ بدئِ خلقت میں جب قدرت نے زمین بنائی تو اوپر سے پانی برسنے شروع ہوئے۔ ادھر ادھر کی زمین گھیر کر بہہ گئی تو ٹیڑھے ترچھے۔ یہ ٹیلے ویسے ہی بلند رہ گئے اور پھر آفتاب کی حرارت سے ان ٹیلوں میں حجریت آگئی یعنی مٹی کا پتھر بن گیا اور جیسی زمین تھی اس رنگ کے سرخ ‘ سپید ‘ سیاہ پتھر بنے اور بارشوں اور چشموں کے پھوٹ پڑنے سے پہاڑوں میں گھاٹیاں ہوگئیں۔ بعض کہتے ہیں یوں نہیں پہلے تمام دنیا پر پانی سمندر کا محیط تھا۔ یہ ٹکڑے جو اوپر ابھر آئے پانی کی موجوں نے ان میں نشان کردیے اور پھر پانی درجہ بدرجہ اترتا گیا اور بہت سی زمین اور ملک کھلتے گئے مگر یہ ٹکڑے سخت ہوگئے۔ بظاہر باتیں تو ٹھیک ہیں تک تو ملا دی مگر اس پر سینکڑوں شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ آخرکار یہی کہنا پڑتا ہے کہ اس قادر مطلق نے ایسا ایسا کردیا اور چلو اسباب بھی تلاش کرو مگر پھر ان اسباب میں گفتگو ہوگی کہ وہ کیونکر پیدا ہوئے ؟ پھر آخرکار تو اس قادر مطلق کی ید قدرت تک سلسلہ تمام ہوگا۔ پہاڑوں کے فوائد ¦ اب پہاڑوں کے منافع میں غور کیجئے تو عقل حیران رہ جائے۔ انہیں پہاڑوں میں سے یہ خوش گوار پانی کے دریا نکلے۔ گنگا ‘ جمنا ‘ نیل ‘ فرات ‘ جیحوں ‘ دجلہ وغیرہ اور پھر ان سے ملک شاداب ہوئے اور کیا کیا نعمتیں پیدا ہوئیں اور بھی سینکڑوں فوائد ہیں جن کے ذکر کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ چوتھا نمونہ ¦ والی الارض کیف سطحت اور زمین کو دیکھو کہ کیسی بچھائی گئی (یا ہم نے کس نے طرح بچھا دیا) یہ قدرت کا چوتھا نمونہ ہے۔ اگر غور کیا جاوے کہ زمین ایک کروی الشکل یعنی گول ہے تو گول چیز پر کوئی رہ نہیں سکتا ہے نہ کھیتی باڑی کرسکتا ہے مگر اس قادر مطلق اور حکیم متقن نے باوجود اس کروی ہونے کے اس کو ایسا بچھایا کہ سینکڑوں کیا ہزاروں کوس تک ہموار جنگل اور میدان اور پہاڑ اور دریا رواں ہیں۔ لوگ کس کشادگی سے بس رہے ہیں۔ سینکڑوں کوسوں تک سڑکیں ہیں اور بیشمار باغ اور کھیت ہیں اور کیا کیا نفیس وسیع شہر آباد ہیں اور کیسی کیسی بلند شان عمارات ہیں کہ جن میں اس کی کرویت سے کوئی بھی حرج واقع نہیں ہوتا اور یہاں تک وسعت دی ہے کہ بڑے بڑے ملکوں پر بادشاہ حکمرانی کر رہے ہیں یہاں تک کہ عقول عامہ کے نزدیک زمین گول ہی نہیں معلوم ہوتی بلکہ ایک ہموار فرش بچھا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین کے رہنے والوں کو زندگی وبال اور محال ہوجاتی۔ یہ کیسا انعام ہے جس سے ہر امیر فقیر برابر نفع اٹھا رہا ہے اور یہ اس کی کیسی قدرت اور کاری گری ہے کہ اس قدر اس کے محدب کو وسعت عطا کی کہ کرویت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ پھر کیا وہ قادر و حکیم اور منعم اس عالم میں نیک بندوں کے لیے یہ نعمتیں نہیں پیدا کرسکتا ٗ ضرور پیدا کرسکتا ہے اور لطف یہ کہ ان چاروں نمونوں میں بہشت کی شان بھی نمایاں ہے اور دوزخ کی بھی۔ اونٹ کے منافع پر غور کیجئے تو شان بہشت نمایاں ہے۔ جدھر چاہولے چلو ‘ بٹھالو ‘ کھڑا کرکے بوجھ لاد لو اور جو خود اونٹ کی مشقت اور بارکشی کو دیکھئے تو جہنم کی تکالیف کا نمونہ ہے۔ آخر وہ بھی تو ہماری طرح خدا کا بنایا ہوا ہے۔ پھر بیچارہ کس مشقت میں ہے اور سرسبز پہاڑوں میں جنت کی شان نمایاں ہے۔ خشک اور گرم پہاڑوں میں خصوصاً ان میں کہ جہاں آتش فشانی ہوتی ہے یا آتشیں مادہ نکل کر بہتا ہے۔ جہنم کا غصہ اور اس کی چنگاریاں نظر آجاتی ہیں۔ آسمان کی فضا اور چاند و سورج کی پربہار روشنی اور اچھی موس میں جنت کا نمونہ ہیں۔ پھر اندھیری راتیں اور گرم لو کے دن جہنم کا نمونہ ہیں۔ زمین کے شاداب ٹکڑے اور باغات جنت کا نمونہ ہیں اور خشک و گرم اور بدبودار اور عمیق گڑھے جہنم کا نمونہ ہیں مگر یہ چیزیں روزمرہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ہر روز دیکھتے دیکھتے ایک معمولی بات ہوگئی مگر روشن دل ان میں پورے نمونوں کا ملاحظہ کیا کرتا ہے اور یہی آثار قدرت ہیں جو بندوں کو خدائے پاک دکھاتا ہے۔ اس لیے جنت کے بیان میں شہوت انگیز مضامین بیان نہیں ہوئے بلکہ ان کو سن کر عالم آخرت کی طرف رغبت ہوتی ہے اور دنیا سے نفرت اس لیے فرمایا :
Top