Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول وَعَلَي : اور پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کی وَاَنْزَلَ : اور اتارے اس نے جُنُوْدًا : لشکر لَّمْ تَرَوْهَا : وہ تم نے نہ دیکھے وَعَذَّبَ : اور عذاب دیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) وَذٰلِكَ : اور یہی جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر خدا نے اپنے پیغمبر ﷺ پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور (تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اتارے اور کافروں کو عذاب دیا۔ اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔
26۔ اوپر کی آیت میں اللہ پاک نے جنگ حنین کا یہ قصہ بیان فرمایا تھا کہ مسلمانوں کو اس روز اپنی فوج کی زیادتی پر یہ خیال ہوا تھا کہ اب ہم کسی سے مغلوب نہ ہوں گے کیونکہ اس وقت کل مسلمان قریب بارہ ہزار کے تھے فتح مکہ کے بعد کل لوگ مکہ اور مدینہ کے مسلمان جب جمع ہوئے تو سب نے مل کر یہ سوچا کہ اب ہم خوب لڑیں گے اب ہم پر کوئی غالب نہیں ہوسکتا حضرت کو ان کا یہ کہنا برا معلوم ہوا تھا۔ غرض حنین کی لڑائی میں جب ہو ازن اور ثقیف کے لشکر سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا تو کچھ ایسا خوف دشمنوں کا ان کے دل میں سمایا کہ پیچھے ہٹ گئے مفسروں کا بیان ہے کہ ایک سو تینتیس مہاجر اور ستتر انصار کے سوا اس میدان میں کوئی بھی ثابت قدم نہ رہا صرف آنحضرت ﷺ اکیلے رہ گئے آپ کے قدم آگے ہم کو بڑہتے چلے گئے اور مسلمانوں کو پکارا کہ اے خدا و رسول کے انصار میری طرف آؤ میں خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور حضرت عباس ؓ کو جو آپ کی داہنی طرف رکاب تھامے ہوئے تھے فرمایا کہ لوگوں کو پکارو حضرت عباس ؓ کو یہ کام اس لئے سونپا گیا کہ حضرت عباس ؓ بلند آواز والے تھے ان کی آواز آٹھ آٹھ میل تک جاتی تھی بہر حال لوگ رفتہ رفتہ جمع ہوتے گئے اور اللہ پاک نے ان کے دل میں اطمینان پیدا کردیا پھر تو یہ لوگ جم کر لڑے اور خدا نے آسمان سے فرشتے بھی بھیجے جن کے سبب سے کفار کے دل میں رعب پیدا ہوا اور کچھ کافر قتل ہوئے اور کچھ بھاگ گئے فرشتوں کی تعداد میں مفسروں کا اختلاف ہے بعضے کہتے ہیں پانچ ہزار تھے اور بعضون کا قول ہے کہ آٹھ ہزار تھے مگر آیت یا اسکی صحیح حدیث سے یہ بات نہیں معلوم ہوئی کہ وہ کتنے تھے ہاں صحیح طور پر اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں نے اس لڑائی میں سوائے جنگ بدر کی لڑائی کا کام نہیں دیا اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی واسطے بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے دل قوی ہوجائیں اور کفار کے دل میں رعب پیدا ہو پھر اللہ پاک نے آیت میں یہ فرمایا کہ مسلمانوں کو تسکین عطا کر کے اور فرشتوں کی کمک بھیج کر کفار پر یہ عذاب نازل کیا کہ خوب اچھی طرح قتل ہوئے بہت سامال ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آیا اتنی غنیمت ہاتھ لگی کہ مسلمان مال دار ہوگئے کیونکہ اس قافلہ میں بارہ ہزار صرف اونٹ تھے اور بکریوں کو تو کچھ گنتی ہی نہیں ان کے علاوہ اور بہت سامال تھا لوگ گرفتار بھی بہت ہوئے عورت اور بچے ملا کر چھ ہزار آدمی قید ہوئے پھر باقی لوگ ہوازن کے مسلمان ہو کر مکہ کے قریب جعرانہ مقام میں حضرت ﷺ کے پاس آئے آپ نے انہیں اختیار دیا کہ خواہ اپنے قیدیوں کو لے جاؤ خواہ مال لے لو ان لوگوں نے اپنے قیدیوں کو لینا پسند کیا آپ نے ان کے قیدیوں کو انہیں دے دیا اور مال غنیمت غازیوں کو تقسیم کردیا اور مکہ کے نو مسلم لوگوں کو تالیف قلوب کے لئے اس میں سے زیادہ مال دیا اس غنیمت میں سے ایک ایک شخص کو سو سو اونٹ ملے تھے سورة بقر میں گذر چکا ہے کہ تابوت سکینہ کے ساتھ جو فرشتے رہتے تھے ان کی برکت سے بنی اسرائیل کے دلوں میں ایک تسکین پیدا ہوجاتی تھی یہاں مسلمانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے جدا تسکین پیدا کردی اور علاوہ اس تسکین کے دوہری تسکین کے لئے آسمان سی فرشتے بھی بھیج دئے مسلمانوں کے لشکر میں اس تسکین سے پہلے ایک صورت شکست کی پیدا ہوگئی تھی اس لئے اس دوہری تسکین کا یہ انتظام فرمایا گیا جس سے مسلمانوں کے دل خوب مضبوط ہوگئے اور وہ دوبارہ خوب جم کر لڑے اس دوبارہ کی لڑائی میں مخالفوں کے بہت سے آدمی مارے گئے ان کے بال بچے قید ہوگئے اور ان کا مال لوٹ لیا گیا جس کا ذکر اوپر گذرا غرض اس سب کو مخالفوں کے کفر کی سزا فرمایا یہ پوری سزا تو انہیں کے حق میں ہوئی جن کا حالت کفر پر قتل ہونا علم الٰہی میں قرار پاچکا تھا اور جن کے نصیب میں کفرو شرک سے توبہ کا کرنا لکھا تھا ان کی جانیں بھی بچ گئیں اور انہوں نے توبہ بھی کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے ان کی توبہ قبول بھی کی اور ان کے بال بچے بھی انکو واپس مل گئے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی توبہ کے قبول کرنے میں گنہگاروں کے حال پر اس قدر مہربان ہے کہ اگر دنیا کی یہ مخلوق گناہ نہ کرتی تو اللہ تعالیٰ گناہ کرنے والی اور مخلوق پیدا کرتا اور پھر گناہوں کے بعد ان کو توبہ کی توفیق دیکر ان کی توبہ قبول کرتا آیت کے آخر ٹکڑے میں گنہگاروں کی توبہ قبول ہونے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔
Top